بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہمارے پورے ملک میں رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی اجتماعی افطاری کی مہم
شروع ہوچکی ہے،مسجدوں میں نئی صفیں بچھ چکی ہیں اور نئے واٹر کولرز لگ چکے
ہیں ،عید فطر اورفطرانے کے لئے چہ مہ گوئیاں بھی شروع ہوچکی ہیں،ختمِ قرآن
اورتلاوتِ قرآن کے بارے میں ہر طرف سے تاکید سننے کو مل رہی ہے،اکثر لوگوں
کے سروں پر ٹوپیاں اور ہاتھوں میں تسبیح نظر آتی ہے،ایک دوسرے کو افطاری کی
دعوت دینے کے لئےپروگرام مرتب ہوچکے ہیں،پکوڑے اور سموسے والوں کے چولہے
پھر سے روشن ہوچکے ہیں،اب ہر روزمسجدیں نمازیوں سے کچھاکھچ بھرجاتی
ہیں،دفتری اوقات میں کمی کردی گئی ہے،اعتکاف کے سلسلے میں تگ و دو شروع
ہے۔۔۔ایسے میں تہران میں قائم ہماری پاکستان ایمبیسی بھی کسی سے پیچھے نہیں
رہی۔
گزشتہ روز ہمارے کچھ دوستوں نے اس امر کا اظہار کیا ہےکہ پاکستان ایمبیسی
نے پاکستانیوں کے لئے ایک خصوصی پیکج کا اعلان کیاہے اور وہ ہے "قسمت
پیکج"۔ہم نے پوچھا کہ یہ قسمت پیکج کیاہے؟ کہنے لگے کہ اب اگر آپ فون کر کے
ایمبیسی سے پوچھیں کہ ہمارا پاسپورٹ بن چکا ہے یا نہیں تو ایمبیسی سے "سرجی"
جواب دیتے ہیں کہ یہاں آکر لائن میں کھڑے ہوجائیں جب آپ کی باری آئے گی تو
ہم آپ کو بتا دیں گے کہ آپ کاپاسپورٹ بن گیاہے یا نہیں۔اگر بن گیاتو آپ کی
قسمت اور اگر نہ بنا تو بھی آپ کی قسمت۔
یعنی ماہِ مبارک رمضان میں آپ کے لئے ضروری ہے کہ آپ فون پر معلومات حاصل
کرنے کے بجائے خون پسینہ کاڑھ کر ایمبیسی جائیں اور وہاں دفتری ٹائمنگ پوری
کریں اس کے بعد آپ کی قسمت پر منحصر ہے کہ آپ کا پاسپورٹ آپ کو ملتاہے یا
نہیں۔
تجربے کے لئے ہم نے بھی ایمبیسی فون کیا اور ہمیں بھی یہی جواب ملا کہ آپ
تشریف لے آئیں اور اپنی قسمت آزمائیں۔
ہماری تمام دوستوں سے گزارش ہے کہ رمضان المبارک میں گرمی اور پیاس میں
نڈھال ہوکر سینکڑوں میل کا فاصلہ طے کر کے قسمت آزمائی کرنے سے بہتر ہے کہ
اپنے ارد گرد استخارے اور فال نامے والے احباب ڈھونڈیں اور ان کی خدمات
حاصل کریں۔
البتہ ہم یہ بھی عرض کئے دیتے ہیں کہ کسی بھی سرکاری ادارے کا کو ئی بھی
ملازم اس وقت ایسا رویہ اختیار کرتاہے جب اسے اوپر سے گرین سگنل
دیاجاتاہے۔ورنہ ہرملازم کو یہ معلوم ہوتاہے کہ اسے تنخواہ ہی کام کرنے کی
دی جاتی ہے اور سستی ،کوتاہی یا بدتمیزی کرنے پر وہ حکام بالا کے سامنے
جوابدہ ہے۔
پاکستان ایمبیسی کے ملازمین کا پاکستانیوں کے ساتھ گزشتہ چند برسوں پر
مشتمل یہ افسوسناک رویہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس
ماہ مبارک میں بھی ایمبیسی کے اس معاندانہ رویے کی پاکستان و ایران میں
مذمت کی جائے ، ماہ مبارک کے اجتماعات میں اس حوالے سے احتجاج کیا جائے
،لٹریچر تقسیم کیاجائے اور بھرپور تحریک چلائی جائے۔ہمیں امید ہے کہ اگر
حکام بالا کو موثر طریقے اس بارے میں متوجہ کیاجائے تو حکام بالا اس مسئلے
کو سنجیدگی سے لیں گے اور برسوں کا یہ مسئلہ چند دنوں میں حل ہوجائے
گا۔البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے اور ہمیں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں
کرناچاہیے کہ امیرِ شہر کو اونچا سنائی دیتاہے۔
|