شادی اور ہمارا معاشرہ

ویسے تو ہمارا معاشرہ مسائلستان بن چکا ہے، کون کونسا مسئلہ زیر بحث لایا جائے یہ بھی ایک علیحدہ بحث ہے اور میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔ایک بات تو پکی ہیکہ یہ سارے مسائل اسلام کی دوری، اسلامی تعلیمات اور شریعت پر عمل نہ کرنے کیوجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ ان مسائل میں سے ایک چیدہ مسئلہ جس پر میں آج روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا وہ ہے شادی اور ہمارا معاشرہ۔ برصغیر پاک و ہند میں ایک عرصہ تک مسلمان اور ہندو ایک ساتھ رہے ہیں اور اس وجہ سے ہماری تہذیب و ثقافت اور تہوار کافی حد تک ملاوٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔ہمارے ہاں شادی کو ایک میگا پراجیکٹ سمجھ کر کیا جاتا ہے۔ ہم خود اپنے لیے اتنے درد سر پال لیتے ہیں کہ بچوں اور بچیوں کی شادیاں کرنے سے پہلے دس دفعہ سوچتے ہیں کہ آیا یہ کام کریں یانہ کریں۔ دین اسلام میں تو شادی کرنا بہت آسان ہے۔ صحابہ کرام کے اس واقعہ سے آپ اندازہ لگا لیں کہ اسلام میں شادی کرنا کتنا آسان ہے۔ ایک صحابی دوسرے صحابی کو اپنے ساتھ اپنا رشتہ کرانے ایک گھر لیکر گئے اور خود باہر کھڑے ہو گئے۔ ان صحابی نے اپنے دوست صحابی کی شادی کی بات کی تو لڑکی کے گھر والوں نے کہا کہ انہیں چھوڑیں ، آپ بتائیں کہ کیا آپ تیار ہیں اور پھر وہیں ان کا نکاح ہو گیا۔

دین اسلام میں تو شادی کرنا اتنا آسان ہے۔ ہم لوگ شادی پر دل کھول کر فضول خرچی کرتے ہیں خوب پیسے اڑاتے ہیں بچے یا بچی کی شادی کی خوشی کا کہہ کر موسیقی اور ناچ گانے سے اس پاک سنت کا خوب مذاح اڑایا جاتا ہے۔ ہندوانہ رسوم مہندی، بری وغیرہ وغیرہ بھرپور شوق سے ادا کیجاتی ہیں۔ نکاح میں چیخ چیخ کر حق مہر بولا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ مسائل موجود ہیں اور میرے بڑے بھائی کی شادی میں یہ ساری فضول رسومات ڈنکے کی چوٹ پر ادا کی گئ لیکن اس سب کو ختم کون کرے گا؟

آپ کو بتاتا چلوں کہ بری وہ ہندوانہ رسم ہے جسمیں لڑکے والوں کے گھر وہ کپڑے اور زیور جو لڑکی اپنے ساتھ لاتی ہے اس سب کی بھرپور نمائش کیجاتی ہے اور اس نمائش میں دوسری خواتین کے علاوہ اہل محلہ کی خواتین بھی خوشی سے شریک ہوتی ہیں۔ کیا خواتین کے اس مجمع میں ایسی لڑکیاں نہیں ہوں گی جن کے دل میں بھی ایسا سامان اپنے ساتھ لیجانے کی حسرت ہو گی مگر مالی لحاظ سے وہ ان کی برداشت سے باہر ہو گا؟ ایک لڑکی جہیز نہیں لا سکتی تو کیا اسکی شادی نہیں ہونی چاہِے؟ لڑکی کے والدین اپنی سب سے قیمتی چیز، اپنی بیٹی ، لڑکے والوں کو دیتے ہیں تو کیا پھر بھی جہیز اور بری کے سامان کی ضرورت رہ جاتی ہے؟

لڑکیوں کی شادیوں کے ساتھ ساتھ اگر لڑکوں کی شادیوں کا ذکر نہ کیا تو یہ ذیادتی ہو گی اور لوگ کافی گلے شکوے کریں گے۔ شادی کے لیے لڑکوں سے اکثر سوال کیا جات ہے کہ کتنا کماتا ہے ، کیا کرتا ہے وغیرہ وغیرہ، لیکن جب رزق دینے کا وعدہ اللہ رب العزت نے کیا ہے تو پھر ہم مخلوق سے امیدیں کیوں لگا کر بیٹھ جاتے ہیں؟ کیا ہمارا یقین مادی چیزوں پر ہے یا ہم میں توکل کی کمی ہے؟ اگر ہم یہ عہد کرلیں کہ اپنے بچوں اور بچیوں کی شادیوں میں فضولیات سے بالکل پرہیز کریں گے، فضول خرچی سے بھی بالکل پرہیز کریں گے تو کیا ہمارے بچوں کی شادیاں بالکل آسانی سے نہیں ہو سکتی؟ اگر ہم جہیز ، بری اور بھاری بھاری حق مہر کی فرمائشیں بند کر دیں تو کیا ہمارے بچوں بچیوں کی شادیاں باآسانی نہیں ہو سکتی؟ کتنی ہی غریب لڑکیوں کی شادیاں اس وجہ سے نہیں ہو سکتی کہ وہ جہیز نہیں دے سکتیں۔ کیا ہماری بہنیں نہیں ہیں؟ کیا ہم نے انکی شادیاں نہیں کروانی؟

میں پوری پاکستانی قوم سے بالعموم اور تعلیم یافتہ طبقے سے بالخصوص درخواست کروں گا کہ ہمیں پہل کرنی ہوگی، ان سب رسومات کا بائیکاٹ کرنا ہوگا۔ آو عہد کرِیں کہ ہم آئندہ مسجد میں سادگی سے نکاح کریں گے، اچھا ولیمہ دیں گے، جہیز، بری اور بھاری حق مہر کی فرمائشیں ہرگز نہیں کریں گا۔انشاءاللہ، میں عہد کرتا ہوں، کون کون میرے ساتھ ہے؟
Muhammad Shakeel Ashraf
About the Author: Muhammad Shakeel Ashraf Read More Articles by Muhammad Shakeel Ashraf: 2 Articles with 1581 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.