ماہ ِ رمضان المبارک کا عالمِ مہنگائی،گرمی اور دہشت گردی کے لمحات میں آنا ایک
شاعر کی نظر میں...!!
کئی سالوں بعد میرے مُلک میں ایساہواہے کہ سارے مُلک میں ماہِ رمضان المبارک کے
روزے ایک ساتھ شروع ہوئے ہیں، اور ایسابھی شاید پہلی بار ہواہے کہ یہ ماہِ رمضان
المبارک مہنگائی اور گرمی کے عالم میں آیا ہے،اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ ماہِ
مبارکہ تو اپنے وقت پر ٹھیک آیا ہے، آج مگر مہنگائی کا نزول ہم پاکستانیوں کے لئے
جی کا جنجال بن گیاہے اور ایک طرف گرمی ہے تو دوسری طرف مہنگائی کی دہشت گردی نے ہم
عوام پر جو بم گرائے ہیں یہ دہشت گردوں کی دہشت گردی سے بھی کہیں زیادہ المناک اور
افسوس ناک ہیں، دہشت گرد تو اپنے منصوبے اور پلاننگ کے تحت کسی ایک مقام کو اپنی
دہشت گردی کا نشانہ بناتے ہیں، اور اپنی کارروائیاں کرکے خود بھی بھسم ہوجاتے ہیں،
مگر یہ کل مُنہی مہنگائی ایسی ہے کہ آج اِس کے بم کی زد میں ہر کوئی آکر گھائل
ہورہاہے، اتفاق سے اِس مرتبہ رمضان المبار ک ایسے وقت میں آیا ہے کہ جب پچھلے ہی
مہینے ہماری اِس نومولود چالیس /پیتالیس دنوں کی حکومت نے اپنا مہنگائی کا بجٹ پیش
کیا ہے،اور عوام ٹیکسوں اور دیگر حوالوں سے مہنگائی کے بوجھ تلے دب کر زندہ درگور
ہوکر رہ گئے ہیں۔
اَب ایسے میں آج دل توبہت چاہ کہ میں بھی ماہِ مبارکہ رمضان سے متعلق کچھ لکھوں مگر
کیا لکھوں ...؟ سوچاکہ میں مہنگائی کے مارے اِس کی تیاری توکر نہیں سکا ، پھر یہ
خیال آیا کہ چلو ماہِ رمضان مبارک کو ایک شاعر کی نظر سے دیکھ لوں وہ اِس ماہِ
مبارکہ کو کس طرح دیکھتاہے ...؟سو ایساہی کرلیا کہ ماہِ رمضان مبارک کا عالمِ
مہنگائی، دہشت گردی، لوڈشیڈنگ اور جولائی کے گرم مہینے میں آنا ایک شاعر کی نظر میں
کیساہے ...؟تولیجئے ..!قارئین حضرات آپ کی خدمت میں حاضرہے ،بے شک ماہِ رمضان مبارک
اپنی بے شمار رحمتوں ، بخشیشوں، اور برکتوں کے خزینے لئے ہم پر سایہ فگن ہے، اِس
ماہِ مبارکہ کے تیس دن کے روزے تزکیہء نفس کا درس بھی دیتے ہیں تووہیں روزے داروں
کو قربِ الٰہی کی ساعتوں سے بھی بہرامند کرکے اِس کی انوازوتجلیات سے بھی فیضیا ب
کرتے ہیں،بقول شاعر روزے کا اصل مقصدہی یہ ہے کہ:۔
روزہ نماز و صبر و رضا کا پیام ہے روزہ خدا سے عشق و وفا کا پیام ہے
احساس فاقہ کش کا تو نگر ہو سکے سب سے بڑا یہ مقصدِ ماہِ پیام ہے
اوراِسی کے ساتھ ہی شاعر کے نزدیک ماہ رمضان مومن روزے دار کی تربیت کابھی عظیم
ذریعہ ہے تو وہیں یہ اِسے اِس بات کا بھی درس دیتاہے کہ :۔
روزہ یہ کہہ رہا ہے کہ تقویٰ عظیم ہے روزہ یہ کہہ رہا ہے محبت کے گیت کا
روزہ یہ کہہ رہاہے کہ رشوت حرام ہے روزہ یہ کہہ رہاہے کہ رزقِ حلال کھا
مگرکیا کریں کہ اِس بار روزے ایسے موسم میں آئے ہیں کہ ایک طرف مہنگائی کی دہشت
گردی کے شکار میرے مُلک کے غریب لوگوں کے دماغ اُبال رہے ہیں تودوسری طرف گرمی نے
اِنہیں نڈھال کررکھاہے ،اور اِسی کے ساتھ ساتھ مُلک دُشمن عناصر بھی اپنی گھناؤنی
سرگرمیاں تیز کئے ہوئے ہیں اورماہِ رمضان کی چاند رات ہی سے گرومندر پر پیش آنے
والے خودکش حملے میں تین افراد کی ہلاکت اور کئی کے زخمی ہونے کے واقعہ نے یہ واضح
کردیا ہے کہ دہشت گردوں نے اِس ماہِ مبارک میں بھی کِشت خون سینچنے کی تیاریاں عروج
پر رکھنے کا ارادہ کر رکھاہے اِس کیفیت سے دوچار شاعر کہتاہے کہ:۔
مرا آقا مرے سجدوں کا بھرم رکھتاہے یہ مہ نو مری راتوں کا بھرم رکھتاہے
اِس کمر توڑ گرانی کی قسم ہے فاروق مراروزہ مرے فاقوں کا بھرم رکھتاہے
اور جولائی کے مہینے کے یہ گرم روزے جو کہیں چودہ اور ساڑھے چودہ گھنٹوں پر محیط
ہوں گے اِن کے بارے میں شاعر کا کہنا ہے کہ:۔
سخت گرمی میں ہے اَب کے مہہ رمضان آیا جو نہیں روزے سے، یہ شام وسحرکہتے ہیں
گھر میں آجاتے ہیں وہ شام اذاں سے پہلے روزہ رکھتے نہیں افطارمگرکرتے ہیں
مگرآج یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہماری ہی آہسینوں میں پلنے والے اغیار کے دوست
اور زرخرید قاتل جو ہم جیسے ہی تو ہیں مگر وہ ہیں تودہشت گرد ...اورجو خو د کو دین
ِ اسلام کااصل پیروکاربھی گردانتے ہیں مگراِن کی انسانیت سوز کارروائیاں بتارہی ہیں
کہ یہ کسی بھی صورت میں مسلمان تودور کی بات ہے یہ اِنسان بھی ہونہیں سکتے ہیں، جو
اِس ماہِ رمضان المبارک میں بھی معصوم انسانوں کو اپنی وحشت اور درندگی کا نشانہ
بنانے سے باز نہیں آرہے ہیں،ایسے میں اپنے رب سے اِن کے لئے بس یہی دعاہے کہ اﷲ
اِنہیں نیک ہدایت دے ، اور وہ بھی اﷲ کے ایسے اچھے بندے بن جائیں جو اپنی ذات سے
کسی انسان اور مسلمان کو نقصان نہیں پہنچاتے ہیں ، اِن لوگوں کے لئے ایک روزے دار
شاعر کی اپنے اﷲ سے حسرت بھری یہ دعاہے کہ:۔
روزے کس رنگ سے آئے ہیں وطن میں اِس بار آنکھ نمناک، زباں بند، فضائیں خونبار
اپنی تقدیر کا کب روزہ کُھلے گایارب لوگ کرلیتے ہیں ہر شام کو روزہ افطار
اورآج مُلک میں ہونے والی دہشت گردی اور بڑھتی ہوئی لوڈشیڈنگ کے حوالے سے حکمران
وقت کی جو پریشانی ہے اِس سے متعلق شاعر کا کہنا ہے کہ:۔
دل میں سرکار کے غصہ ہے خداخیر کرے آج گرمی کا بھی شکوہ ہے خداخیر کرے
آج تلخی بھی ہے گفتار میں تُرشی بھی ہے آج سرکا ر ر وزہ ہے خداخیر کرے
ماہِ رمضان المبارک کامہنگائی ، گرمی اور مُلک میں ہونے والی دہشت گردی کے لمحات
میں آنا تواپنی جگہہ مگر یہ امر بھی تو قابلِ توجہ ضرور ہے کہ مہنگائی نے میرے قوم
کے کروڑوں غریب اور بے روزگار لوگوں کے منہ سے روٹی کا خشک نوالہ بھی چھین لیا ہے،
آج میرے وطنِ پاک کے لوگ اِس عالمِ مہنگائی میں یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ زندہ رہیں یا
اپنے ہی ہاتھوں موت کو گلے لگالیں،ایسے میں بھلا سال بھر بھوکے رہنے والے لوگ رمضان
المبارک کے روزے بھی نہ رکھیں تو کیا اپنے رب کی ناراضگی مول لیں، آج مہنگائی کے
مارے میرے مُلک کے ننگے بھوکے اور بے روزگارفاقہ کشی سے نڈھال غریب لوگ اپنے رب کی
رضاکے لئے رمضان کے روزے رکھ کر اپنے رب سے اپنی قسمت کے بدلنے کی لو لگائے بیٹھے
ہیں ہیں اورایسے میں اِن کی اُمیدوآس کی ایک جھلک شاعر نے اپنے شعر میں کچھ یوں
بیان کی ہے وہ کہتاہے کہ:۔
فاقہ کہتے ہیں کِسے بھوک کِسے کہتے ہیں ہے اِس نکتہ باریک کا مظہر روزہ
نہ بُجھے پیاس تو پی لیتا ہوں میں بادہ غم نہ ملے روزی تو رکھ لیتا ہوں اکثر روزہ |