سزائیں اور ان پر عملدرآمدوقت کی اہم ضرورت

یہ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عدالتوں پر عوام کی اکثریت کا اعتما دوقت گزرنے کے ساتھ مسلسل کم ہوتا جارہا ہے۔اس کی ایک بڑی اور اہم وجہ یہ ہے کہ ہونے والے جرائم پر سزا کا فیصلہ جلد نہیں دیا جاتا۔دوسری وجہ سنگین قسم کے جرائم سے لے کر عام نوعیت کے معمولی جرم پر بھی فیصلہ سنا دینے کے باوجود سزا دینے کی شرح افسوس ناک حد تک کم ہے۔جرم و سزا کے باہمی تعلق پر آجکل دنیا میں بہت شور ہے ،مغربی آقاؤں کی خوشنودی کی خاطرکوئی نہ کوئی اسلامی سزا اور شعار کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ،یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اسلام نے جرم و سزا کا جو تصور پیش کیا ہے اس سے بہتر نظام آج تک کسی نے پیش نہیں کیا۔

خالق کائینات نے جو سزائیں تجویز کیں اور جو اسلامی نظام کا حصہ ہیں حسن فطرت کے عین مطابق ہیں،اسلامی سزاؤں کو ظالمانہ ،کہنے والے یہ نہیں دیکھتے کہ جرم کی نوعیت بھی تو سنگین اور گھناؤنی ہے ،بعض اوقات تو جرم کی نوعیت انسانیت سوز اور شرمناک بھی ہوتی ہے۔

پاکستان کی اگر بات کی جائے تو یہاں پر خواتین اور غریب عوام پر اس قدر ظلم و ستم روا رکھا جاتا ہے کہ جس کہ تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔باقی جرائم تو ایک طرف اگر صرف خواتین پر روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے جرائم کا جائزہ لیا جائے ،تو ایک ناقابلِ بیان حقیقت سامنے آتی ہے جو کہ باعثِ تشویش بھی ہے ۔عورتوں پر تیزاب پھنکنے کے متعدد د لخراش اورگھریلو تشدد،جیسے افسوسناک واقعات روزمرہ کا معمول بنتے جارہے ہیں۔ 2000کے اواخر میں تیزاب پھنکنے والوں کے خلاف سخت قوانین متعارف کروائے گئے،جن کے مطا بق جرم ثابت ہونے پر14سال قیداور دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی ہو سکتی ہے،پارلیمنٹ نے گھریلو تشدد کو بھی خلاف قانون قرار دیا تھا۔

2011میں ایک ہزار خواتین اور لڑکیوں کو غیرت کے نا م پر قتل کیا گیا۔اس کے بعد سے ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ عالمی ادارہ صحت WHOکے مطابق خواتین پر جبر اور ظلم و تشدد ایک وبا کی صورت اختیار کر گیا ہے،15سال سے لے کر 56 سال تک کی خواتین اس کا شکار ہیں ۔

َسال 2013میں بھی یہ سلسلہ رکا نہیں صرف 4ماہ کے دوران مختلف شہروں میں تشدد کے444 کیس رپورٹ ہوئے،صوبہ سندھ میں سب سے زیادہ321،پنجاب میں73بلوچستان سے 48 اور خیبر پختون خواہ میں صرف 2 کیس رجسٹرڈ ہوئے۔۔اس رپوٹ کو حتمی اگر نہ بھی کہا جائے تو بھی حالات خواتین کے حق میں بہتر یقینا نہیں ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کتنی مظلوم خواتین کو کو انصاف ملا،اور کتنے ظالموں کو ان کے کئے کی سزا ملی ۔۔۔

80 کی دہائی میں پاکستان میں کرپشن،ہیروئین اور کلاشنکوف کلچرا پنی پوری قوت سے فروغ پا یا ،اور جڑیں مضبوط کیں۔گویا یہاں سے پاکستان کی بربا دی اور تباہی کا آغاز ہو چکا تھا۔ذکوۃ کا نظام نافذ ہونے کے باوجوددولت کی غیر منصفا نہ تقسیم اور غربت میں اضافے کا تناسب پڑھتا چلا گیا۔اس کی وجہ یقینا یہ ہے کہ حقدار کو اس کا حق پوری طرح سے پہنچ ہی نہیں رہا،حدود نافذمگر زنا اور بدکاری کا زنگ ہمارے نظام کو چاٹ رہا ہے،آئین میں اسلامی شقیں بڑھ رہی ہیں۔۔مگر عوام اورحکومت اسلامی کردار اور اخلاقی احکامات سے دور ہوتی جا رہی ہے۔جب قانون کی بجائے ڈنڈا لاگو ہو گا اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا راج ہو گا تو وہاں پر ایسے ہی حالات پیدا ہوا کرتے ہیں۔ اگر نچلی سطح پر انصاف اور اس کے حصول میں ناکامی کا یہ حال ہے تو پھراوپر کی طرف جتنا بھی بڑھتے چلے جائیں گے حالات خراب سے خراب تر ہوں گے،اتنی ہی کرپشن بھی بڑھے گی ۔

بدقسمتی سے ہمارے ہاں مجرموں کو سزا دینا تو ایک طرف جیل خانہ جات میں دہشت گردوں،اورجرئم پیشہ افراد کے نہ صرف اپنے رشتے داروں اور دوستوں سے رابطے ہیں بلکہ یہ جیل میں بیٹھ کر اپنی مجرمانہ سرگرمیوں کو بھی جاری رکھے ہوئے ہیں،یوں قا نون کے رکھوالے ہی جب ان کو پناہ دیں گے تو جرائم میں کیا خاک کمی آئے گی۔پاکستان کی جیلوں میں مجرموں کی تعدادگنجائش سے کہیں زیادہ ہے،قاتلوں اور دہشت گردوں کی گرفتاری اور پھران کو کیفر کردار تک نہ پہنچانا انصاف ،قانون کی ایک بہت بڑی ناکامی ہے۔
نشتر پارک سانحہ، سانحہ عبداﷲ شاہ غازی ،سانحہ بر ی امام،سانحہ پاکپتن،سانحہ دربارحیدر سائیں،سانحہ داتادربار،لاہور کی دو عبادت گاہوں میں خون کی ہولی،علماء و مشائخ کی شہادت،ہزارہ کمیونٹی پر ہونے والے دلخراش مظالم،آئے دن ہونے والے بم دھماکے ،آخر کس کس ک کا ذکر کریں اور کس کس کو روئیں۔یہ سب اندوہناک واقعات گڈ گوورنس کے منہ پر زور دار طماچہ ہیں۔

ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ حملے عبادت گاہوں ،مسجدوں،امام بارگاہوں ،مزارات اولیاء کرام اور سکول پر ہی کیوں ہوتے ہیں یہ حملے فحاشی کے اڈوں۔شراب بنانے کی فیکٹریوں،ناچ گانے کی محفلوں ،دن رات حیاسوز ڈرامے اور گانے دکھانے والے ٹی وی اسٹیشن پر کیوں نہیں ہوتے،جو ہمارے معاشرے کی خوبصورت تصویر کو دن رات مسخ کر رہے ہیں۔میرا کہنے کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ان جگہوں پر ہونے چاہیے۔بلکہ ایسے سانحات کہیں بھی ہوں دکھ اور افسوس ہوتا ہے۔

شراب نوشی کی سزا 80کوڑے مقرر ہیں،مگر آج تک اس پر عمل نہیں کیا گیا،دہشت گردوں کو اگر پکڑا بھی گیا تو عبرت ناک سزا دینے کی بجائے چھوڑ دیا گیا ،ملکی سطح پر بھی ہونے والے بڑے بڑے جرائم جنہوں نے میرے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے کسی قسم کی کوئی سزا نہیں دی گئی۔یہی وجہ ہے کہ آج بڑے بڑے ملکی ادارے تباہی کی دہلیز پر کھڑے ہیں ،عوام کا بنیادی مسئلہ پانی ،بجلی،اور ایک پرسکون چھت ہے ،مگر افسوس کہ عوام آج ان سے بھی محروم ہے ۔

سعودی عرب میں اسلامی سزائیں نافذ ہیں، مسلح ڈکیتی کی واردات ہو یامنشیات کی سمگلنگ،بدکاری ،قتل ،چوری جیسے گھناؤنے فعل پر سر قلم کر دئے جاتے ہیں ،2012 میں76 افراد کے مختلف وارداتوں میں سر قلم کر دئے گئے۔یہی وجہ ہے کہ وہاں اب جرائم نہ ہونے کے برابر ہیں۔

جبکہ پاکستان میں ایسا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا کہ جو مجرموں اور دہشت گردوں کے لئے نشان عبرت بنتا، یہی وجہ ہے کہ مجرم دنداتے پھرتے ہیں اور عوام اپنی جان مال اور عزت کے تحفظ کی فکر میں ہیں ۔ایک مسلمان کی حرمت اﷲ کے نزدیک بیت اﷲ کی حرمت سے بھی بڑھ کر ہے ۔پھر بھی انسانیت پر اتنے ظلم ہوتے ہیں کہ جس سے انسانیت بھی شرماتی ہے۔

ْْْْْْْپاکستان میں مجرم اور ملزم کا فرق مٹتا جا رہا ہے ،اب تو ایک بڑے سے بڑا مجرم بھی اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرتا نظر آتا ہے ،ہمارے نام نہاد بہت سے حکمرانوں کی مثالیں آپ کے سامنے ہیں کہ جنہوں نے قومی اداروں کی بربادی اور تباہی میں اپنا بھر پور حصہ ڈالا مگر پھر بھی معصومیت اور مظلومیت کی تصویر بنے ٹی وی پر اپنی صفائیاں پیش کرتے نظر آتے ہیں ۔

ہمارے ہمسایہ ملک چین نے ٹیکنالوجی کے میدان مین بے پناہ ترقی کی ہے ، ان کا ریلوے کا نظام انتہائی ترقی یافتہ اور جدید تقاضوں سے ہم ْْآہنگ ہے ،ان کے وزیر ریلوے کو کرپشن کے الزام میں حال ہی میں موت کی سزا سنائی گئی ہے۔پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں مجرموں کو سزا دینے کی بجائے ان کے حق میں اور ان کی ہمدردی میں آوازیں بلند ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔سزاؤں پر عملدرآمد نہ ہونے کا ہی نتیجہ ہے کہ آج پاکستان میں ہر طرف لا قانونیت کا دور دورہ ہے۔انسانیت مردہ ہو چکی ہے۔اور عوام امن و سلامتی کی دہائی دیتی نظر آتی ہے ۔خدا را ابھی بھی وقت ہے سنبھل جائیں ۔ مجرموں کو قرار وقعی سزا دیں،حقدار کو اس کا حق دیں ۔ اور احترام آدمیت کا پرچار کریں۔یہ سب ہو گا توہی ملک ترقی کرے گا۔ورنہ پھر اس مملکت خداداد کا اﷲ ہی حافظ ہے۔
Maryam Samaar
About the Author: Maryam Samaar Read More Articles by Maryam Samaar: 49 Articles with 52615 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.