ایک آدمی اپنی گاڑی کی بریک ٹھیک
کروانے مکینک کے پاس گیا ۔ مکینک بریک ٹھیک کرنے لگ گیا ۔ کچھ دیر بعد آدمی
مکینک سے : کیا میری گاڑی کی بریک ٹھیک ہو گئی ہے؟
مکینک: نہیں صاحب بریک تو ٹھیک نہیں ہو سکتی البتہ میں نے ہارن کی آواز
مزید بڑھا دی ہے ۔
یہ لطیفہ پڑھ کر وطنِ عزیز کی یاد ستانے لگی اور برسوں سے ہارن کی آواز کے
عادی کان کہاں 6 ماہ سے اس آواز کو ترس گئے تھے چنانچہ انٹرنیٹ نے مسئلہ حل
کیا اور میں چند لمحوں میں ہارن کی سریلی آوازسے لطف اندوز ہو گیا۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کی قومی آواز ہی ہارن ہے جو بلا ناغہ آپ کو
ہر طرف سے سنائی دیتی ہے۔ آپ شہر کے کسی کونے میں بھی چلے جائیں یہ آواز آپ
کا پیچھا نہیں چھوڑے گی اور کانوں کے پردے اس آواز کو سن سن کر پھٹنے پہ آ
جاتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے جب یہ کان اس آواز کے عادی ہو جاتے ہیں کیونکہ
کان اس آواز اور شور کا حصہ بن جاتے ہیں ۔
آسٹریلیا، انگلینڈ ، امریکہ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں ہارن پر سخت
پابندی ہے اور لوگ ہارن کو بڑا معیوب سمجھتے ہیں اور اس کو گالی کے مترادف
سمجھا جاتا ہے۔ یہاں کسی بھی چوک پہ غلطی سے کوئی ہارن کا بٹن دبا دے تو
چوک پہ موجود تمام گاڑیوں والے اس گاڑی کی طرف یوں دیکھتے ہیں جیسے کوئی
بہت بڑا جرم ہو گیا ہے۔ ان لوگوں کی نظر میں یہ جرم ہی ہے اور یقین مانیں
یہ جرم ہی ہے کہ اس آواز سے دوسرے لوگوں کو اذیت پہنچائی جاتی ہے ۔ اس کو
جُرم تصور کر کے ہی دیکھ لیں شاید یہ جُرم اس طرح ہی ختم ہو جائے۔
میں تقریباً چھ ماہ سے یہاں ہوں لیکن آج تک صرف دو یا تین مرتبہ ہارن کی
آواز سنی ہے او روہ بھی بعض اوقات کسی اشارے کے کُھلنے پہ اگلی گاڑی والا
کسی سوچ میں گُم ہو تو لوگ اس کی یاد دہانی کیلئے ہارن بجا دیتے ہیں لیکن
یہاں کا قانون اس عمل کی بھی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔
عام طور پر صوتی آلودگی نے اور کچھ ممالک میں خاص طور پر ہارن کی آواز نے
لوگوں کی زندگیوں کو عذاب بنا دیا ہے۔ دن رات ہارن کی آواز سن سن کر لوگوں
میں طرح طرح کی بیماریاں پھیل رہی ہیں کیونکہ صوتی آلودگی انسانی صحت کے
لیے بہت مضر ہے اور ڈاکٹرز اسے کینسر کا سبب بھی کہتے ہیں اور اس کے علاوہ
مختلف قسم کی دماغی بیماریوں کا سبب بھی بنتا ہے کیونکہ انسانی دماغ کو کچھ
وقت آرام ضرور چاہیے ہوتا ہے جو خصوصاً شہری آبادی کو میسر نہیں آتا ۔
سویڈن کی ایک یونیورسٹی کی ریسرچ کے مطابق بہت زیادہ شور والے علاقوں میں
بلڈ پریشر کے مریضوں کی تعداد دوسرے علاقوں کی نسبت زیادہ پائی جاتی ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں اب اس پر قوانین بھی بنے ہوئے ہیں اور عام شہری ہر
قسم کی صوتی آلودگی کے خلاف درخواست دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ انگلینڈ
میں 2008-09ء میں لوکل کونسلز کو شہریوں کی طرف سے 315838 درخواستیں موصول
ہوئی جن کا موضوع صوتی آلودگی تھا اور ان میں زیادہ سے زیادہ درخواستوں پہ
عمل در آمد کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔
وطنِ عزیز کا حال دیکھیں تو سڑکوں پہ ہارن کی آوازیں گاڑیوں کی تعداد سے
زیادہ سنائی دیتی ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے ہر شخص اپنا حق سمجھ کر ہارن
بجا رہا ہے اور حد تو یہ ہے گاڑیوں کے پیچھے جلی حروف میں ’’ہارن دو راستہ
لو‘‘ لکھا ہوتا ہے جس کا مطلب ہارن کی اہمیت کو بڑھانے کے سوا کچھ نہیں۔
سڑک پر اورٹیک کرنے کا اصول یہ ہے کہ پہلے اگلی گاڑی والے کو ہارن دیں کہ
بھائی کیا میں گزر سکتا ہوں؟ پھر وہ ہاتھ باہر نکال کے اشارہ کرے گا کہ جی
بالکل آپ گزر سکتے ہیں۔ اس کہ علاوہ بغیر بتائے اورٹیک کرنا کسی حماقت سے
کم نہیں اور خدا نخواستہ کوئی حادثہ پیش آ جائے تو قصور اورٹیک کرنے والے
کا ہوتا ہے۔ ڈرائیور حضرات نے کیا عجیب قانون بنایا ہو ا ہے اور ساتھ ہی اس
قانون کی پاسداری بھی دیکھیں۔
میں یہ ہرگز نہیں کہتا کہ ہارن بالکل نہ بجائیں کیونکہ بوقت ضرورت اس کی
اہمیت کو کوئی بھی جھٹلا نہیں سکتا۔ ایمبولینس کے ہارن اور عام ہارن میں
فرق ہونا چاہیے۔ ہر گاڑی سے جب ہارن کی آواز آئے گی تو ایمبولینس یا
ایمرجنسی کے ہارن کو کون سُنے گا؟ کم و بیش تمام ترقی پزیر ممالک میں قانون
کی پاسداری نہ ہونے کے برابر ہے اور لوگوں کا مائنڈ سَیٹ ’’ہارن دو راستہ
لو‘‘ پہ بن چکا ہے جس کو ٹھیک کرنے میں بہت وقت اور بہت سے اقدامات چاہیءں
لیکن پہلا قدم کون اور کیسے اٹھایا جائے؟ نئی دہلی میں پچھلے سال حکومت کی
طرف سے ہفتہ میں ایک دن ہارن بجانے پہ پابندی لگائی گئی تھی جس سے کم از کم
لوگوں کو اِس بات کی آگاہی ہوئی کہ یہ ایک بُری چیز ہے جس کا خاتمہ ضروری
ہے ۔ اسی طرح ہم پاکستان میں ایسے اقدامات کر سکتے ہیں جس سے لوگوں میں
شعور پیدا ہو کہ ’’ہارن دو راستہ لو‘‘ کسی بھی طرح قابلِ فخر الفاظ نہیں
ہیں۔
کسی مفکر نے کہا تھا کہ کسی مُلک کی ترقی اور خوشحالی کا حال دیکھنا ہو تو
اُس ملک کی ٹریفک کا نظام دیکھ لیں۔ٹریفک کا نظام باقی دُنیا سے فرق کا
باعث بنتا ہے اور کسی مُلک کی عملی ترقی کا نچوڑ ٹریفک کا نظام ہے۔ آپ دیکھ
سکتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں ٹریفک کے نظام پر بہت توجہ دی جاتی ہے
جبکہ ترقی پزیر ممالک میں ٹریفک کا نظام بد ترین صورتِ حال سے دو چار ہوتا
ہے گویا ترقی پزیر اور ترقی یافتہ قوموں میں فرق صرف ترتیب کا ہے اور یہی
ترتیب کا فرق عروج و زوال کا سبب بنتا ہے۔ واصف علی واصف مرحوم نے کہا تھا
کہ اچھی ڈرائیونگ ہارن اور بریک کے کم استعمال سے ہوتی ہے لٰہذا ہمیں پُر
سکون فضا حاصل کرنے کے لیے اس عادت کو کم سے کم کرنے کی بھر پُو ر کوشش
کرنی ہوگی اور مجھے قوی امید ہے کہ پِھر کسی گاڑی کے پیچھے ’’ہارن دو راستہ
لو‘‘ کی تحریر نظر نہیں آئے گی۔ اور ایک با ترتیب پاکستان ترقی یافتہ
معاشروں کی لسٹ میں آئے گا۔ انشاء اللہ |