زکوٰۃ کا نظام: رب کی رحمت بھی اور نعمت بھی

اسلام ایک مکمل نظامِ زندگی ہے،جو تمام شعبہ ہاے حیات میں رہنمائی فراہم کرتا ہے․․․․․اسلام کا ہر قانون انسانیت کی فوز وفلاح کا ضامن ہے․․․․․․اسلام کے تمام ارکان و عبادات اور معمولات میں رب تعالیٰ کی حکمتِ بالغہ کی جلوہ نمائی ہے،جن کامکمل ادراک ہمارے قبضہ واختیار میں نہیں․․․․․․مگر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ رب تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ان کی جان اور طاقت کے مطابق ہی مکلف بنایا ہے اور ان کی استطاعت کے مطابق ہی احکامات کاپابند بنایا ہے․․․․․․جن کے بجا لانے پر انعام واکرام اورثواب کی نوید سنائی اورحکم عدولی پر عذاب کی وعیدبھی․․․․․․․اس تناظر میں اسلام کے نظامِ زکوٰۃ کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے۔

زکوٰۃ اسلام کا آئین اور قانون ہے․․․․․․یہ ایک مالی فریضہ بھی ہے․․․․․․جس کی فرضیت کتاب وسنت سے ثابت وظاہر ہے․․․․․․اسلام کا نظامِ زکوٰۃ قومِ مسلم کی ترقی اور معاشی توازن کے استحکام کے لیے خدائی انتظام ہے․․․․․․جس کے ذریعے مسلم معاشرے میں امرا اور غربا کے درمیان خلوص و محبت کا ماحول پنپنے میں مدد ملتی ہے․․․․․․باہمی امداد واعانت کا جذبہ بیدار ہوتا ہے․․․․․․معاشی طور پرپچھڑے ہوئے لوگوں کو اپنی حالت سدھارنے کا موقع ملتا ہے․․․․․․طبقاتی کشمکش کا قلع قمع ہوتا ہے ․․․․․مال داروں کے لیے زکوٰۃ کی ادائیگی اس لیے بھی نفع بخش ہے کہ شریعتِ مطہرہ نے اسے مال داروں کے مال کا مَیل کہا ہے اور اس کی ادائیگی کے بعد رب تعالیٰ کی جانب سے مال ودولت میں برکت و وسعت اور بڑھوتری کا ذمہ لیا گیاہے ․․․․․ضعیف العقیدہ ،کم ظرف یہ سوچتا ہے کہ زکوٰۃ ادا کرنے سے اس کے مال میں کمی ہوجائے گی،اپنی محنت کی کمائی مَیں کسے بھی کیوں اورکیسے دے دوں؟․․․․․․․یقینا یہ سوچ وفکر اور طرز عمل بخیلوں کا ہے․․․․․․اس سے بخل کی بو آتی ہے․․․․․․یہ قارون کا نظریہ ہے……اس سے قارونیت کی بو آتی ہے……اے عزیز!جب ہمارے رب نے بر کت ووسعت کاذمہ لے لیا ہے تو اس طرح کے خیالات کو شیطان کے وَسوَسے اورحربے سمجھنا چاہیے․․․․یہ بات مشاہدہ میں آتی رہتی ہے اور خلوص و ﷲیت کے ساتھ زکوٰۃ اداکرنے والا ہر مسلمان اس حقیقت پر گواہ ہے کہ سال گزرنے تک اس کے پاس گذشتہ سال سے زیادہ مال ودولت جمع ہوجاتے ہیں․․․․․․․․شریعت نے ہماری ضرورتوں سے سوا مال پر صرف ڈھائی فی صد زکوٰۃمقرر کی ہے ․․․․․بقیہ ۹۷؍ فی صدکا مالک ہمیں ہی رکھا ہے․․․․․․․اور اس ڈھائی فی صد زکوٰۃ کو راہِ خدا میں خرچ کرنے پر انعام واکرام کا مژدہ بھی سنایا ہے․․․․․․کیا یہ کم ہے کہ ہمارے رب کی دی ہوئی دولت میں سے اسی کی راہ میں صرف ڈھائی فی صد خرچ کیا جائے اور ۹۷ فی صد اپنی مرضی سے جائز طریقوں پر خرچ کیا جائے․․․․․․․پھر بھی رب تعالیٰ ہمیں اپنے فضل و کرم سے نوازتا ہے۔

زکوٰۃکا نظام معاشرتی اور اقتصادی اصلاح کا ضامن بھی ہے․․․․․․ اس بات پرہر صاحبِ نظر متفق ہے کہ جب بھی کسی معاشرے میں اقتصادی مسائل اپنا بسیرا ڈالتے ہیں اسی کے ساتھ نئے نئے مسائل جنم لیتے ہیں․․․․․․جرائم کا گراف بڑھتا ہے․․․․․․طبقاتی کشمکش سر ابھارتی ہے․․․․․․جو غریب ہیں وہ مزید قعرِ غربت میں ڈوبتے چلے جاتے ہیں․․․․․․اور امرا امیر سے امیر تر ہوتے چلے جاتے ہیں․․․․․مال داروں اور غریبوں کے درمیان خلیج وسیع ہوتی چلی جاتی ہے․․․․․․غریبوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا․․․․․․اس کی ایک اہم وجہ ماہرین و محققین غیر متوازن معاشی و اقتصادی نظام بتاتے ہیں․․․․․․دنیا کے ماہرینِ اقتصادیات نے اقتصادی نظام میں توازن پیدا کرنے کی کوششیں بھی کیں مگر خاطر خواہ نتائج برآمدنہیں ہوئے․․․․․اسلام نے صاحبِ نصاب پرزکوٰۃکے قانون کو نافذ کرکے معاشی نظام میں توازن قائم کرنے کے لیے راہ نمائی فراہم کی ہے․․․․․․اسلام کا نظامِ زکوٰۃ اس قدر سلجھا ہوا اور سسٹی میٹک(Systematic) ہے کہ زکوٰۃ دینے والوں اور لینے والوں کا معیار اور حدیں مقرر کردی گئیں․․․․․․تاکہ کوئی نا اہل کسی حق دار کا حق نہ مار سکے اس لیے فقرا،غربا اور مساکین(ان سے وہ مرادہیں جو شریعت کے مقرر کردہ پیمانے کے مطابق شرعی فقیر ہوں)کو اس کا حق دار اور اہل قرار دیا․․․․․․․کوئی زبردستی کسی کو زکوٰۃ کے نام پر مال و دولت تقسیم کرنے پر مجبور نہ کرے اس لیے صرف صاحبِ نصاب پر زکوٰۃ کی ادائیگی کو فرض قرار دیا․․․․․اسلام کے اس قانون سے بھی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام ہی دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جو ہر ایک کے حقوق کا نگہ بان ہے․․․․․․اسلام میں طبقاتیت کا ایساکوئی تصورنہیں جس کی بنیاد پر لوگوں کو مختلف خانوں میں تقسیم کیا جائے․․․․․غریبوں اور پچھڑے ہوئے لوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھنا اسلام کے نظامِ عدل اور محبت کے منافی ہے……بلکہ اسلام کا نظامِ زکوٰۃ اس بات کی تعلیم کرتا ہے کہ جو حاجت مند اپنی ضرورت اور مجبوری کے تحت زکوٰۃ قبول کرتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اس امداد کے ذریعے اپنے پیروں پر کھڑا ہوکر اپنی معاشی حالت سدھارے اور اس بات کی کوشش کرے کہ آئندہ سال وہ بھی صاحبِ نصاب ہوجائے اور دوسروں کی مدد کرسکے․․․․․․․․․اس طرح دنیا سے غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ ہوسکتا ہے․․․․․․اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہرکوئی نظامِ مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا پابند ہو جائے۔

نظامِ مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اصول وضوابط کے مطابق کسی کی حق تلفی کبیرہ گناہوں میں شمار ہوتی ہے․․․․․اور اِس گناہ کو رب تعالیٰ بھی اُس وقت تک معاف نہیں فرماتا جب تک کے وہ بندہ معاف نہ کردے جس کی حق تلفی ہوئی ہو․․․․․․․․․اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے معاملے میں سنجیدہ ہو جائیں․․․․․اپنا محاسبہ کریں․․․․․․شرعی احکام کے مطابق حق داروں کو زکوٰۃ اداکرنے میں کوتاہی نہ کریں․․․․․․ہمارے پیشِ نظر رسولِ غیب داں صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا وہ ارشاد بھی ہونا چاہیے کہ ایک زمانہ ایسا بھی آئے گاجب لوگ اپنی زکوٰۃ کا مال لے کر در بہ در پھریں گے کہ کوئی زکوٰۃ کا حق دار مل جائے اور زکوٰۃلے کر ان کے مال کوپاک کردے مگر کوئی نہیں ملے گا۔(مسلم شریف)․․․․․․․․آج کے دورمیں غرباومساکین، مدارسِ اسلامیہ کے ذمہ داروں کا احسان ہے کہ وہ حصولِ زکوٰۃکے لیے ہمارے گھروں تک چل کر آتے ہیں․․․․․․ہمیں مستحقین کی امداد کرنی چاہیے․․․․․․․ورنہ وہ دن دور نہیں جب اس غیب کی خبریں بتانے والے(نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)کی پیش گوئی واقع ہو جائے․․․․․․․اور ہم اس عظیم فریضے کی ادائیگی کے لیے در بہ در بھٹکتے پھریں․․․․․!
Waseem Ahmad Razvi
About the Author: Waseem Ahmad Razvi Read More Articles by Waseem Ahmad Razvi: 84 Articles with 122403 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.