’’ولی المظفرکو کام کرنا نہیں آتا ‘‘

تحریر:سیلانی کے قلم سے……

کراچی کے ایک دور افتادہ علاقے کی مسجد میں داخل ہوتے ہوئے سیلانی نے خود سے بڑبڑا تے ہوئے کہا ’’ولی المظفرکو کام کرنا نہیں آتا‘‘اور دائیں بائیں گردن گھماکر جائزہ لینے لگا، یہ ایک زیر تعمیر مسجد اور مدرسہ تھا ، جس میں داخل ہوتے ہی دائیں طرف قطار سے کمرے بنے ہوئے تھے اور بائیں ہاتھ پر مسجد تھی ،سامنے برقع پوش خواتین بھی دکھائی دے رہی تھیں اور مرد بھی ۔سیلانی دائیں بائیں دیکھتاہوا آگے بڑھا اور ان لوگوں کے پاس پہنچ گیا ۔یہاں کھلے آسمان تلے دیوار کے سائے میں ایک نوجوان کرسی ڈالے زانو پر رجسٹر رکھے حساب کتاب میں الجھا ہوا تھا ۔ایک تو گرمی اور پھر اس بیچارے کو لوگوں نے گھیر رکھا تھا، اس کا لباس پسینے سے شرابور اور چہرہ سرخ ہورہاتھا ،وہ اپنے سامنے بنی قطار میں کھڑے لوگوں سے پرچی لیتا اور رجسٹر پر کچھ نوٹ کرکے اسے آگے بڑھنے کا اشارہ کردیتا اور اگلے شخص کی جانب متوجہ ہوجاتا ۔

سیلانی نے ایک با پھر دائیں بائیں نظر دوڑائی، لیکن اسے ایسا کچھ دکھائی نہیں دیا، جو ایسی جگہوں پر عموماً ہوتا ،دل گداز تحریروں والے بینر نہ دیوار پر چسپاں پوسٹر ……مسجد کے گیٹ پرراہ گیروں میں پمفلٹ تقسیم کرتے ہوئے نوجوان……چندے کی صندوقچیاں، چھنکاتے خدائی خدمت گار ……جھولیاں پھیلا پھیلا کر ایک دنیا ستّرآخرت کی آوازیں لگانیوالے تربیت یافتہ ’’رضاکار‘‘……لاؤڈ اسپیکر پر ثوابِ دارین کے حصول کی تر غیبات ……نہیں ایسا کچھ بھی نہیں تھا……وہاں نہ کسی سیاسی جماعت کا پر چم تھا نہ بینر ۔لاؤڈاسپیکر وں کی گھن گھرج والا کوئی کیمپ بھی نہیں تھا اور سب سے زیادہ حیرت اسے اس بات پر ہوئی کہ وہاں اسے میڈیا کا غول بھی دکھائی نہیں دیا ۔کسی اخبار کا فوٹو گرافر تک نہیں تھا۔اس سادہ لوح پٹھان کی جگہ کوئی اور ہوتا، تویہاں کتنے صوبائی وزرا ء بانچھیں پھیلائے نظر آتے ۔وہ ٹی وی چینلوں کے نو بجنے والے پرائم ٹائم خبر ناموں میں شامل ہوتا ۔اخباروں میں اس کی وزراء کے ساتھ تصاویر شائع ہوتیں ۔اس کے سیل فون میں وزراء کے ذاتی فون نمبر آجاتے ۔پولیس کے اعلیٰ افسران بھی مسکرا مسکرا کر ملتے۔خبریں لگتیں ،واہ واہ ہوتی ،پروٹوکول ملتا اور وہ بھی معززین ِشہر کی فہرست میں شامل ہو جاتا ۔لوگ تو اس واہ واہ کے لئے کیا کچھ نہیں کرتے ……اسے ویمن جیل کی ایک تقریب یا د آگئی ۔دفتر میں موصول ہونے والے فیکس پر دو دو وزراء کا ذکر تھا کہ ویمن جیل میں خواتین قیدیوں میں سامان تقسیم کریں گے ،سیلانی سمجھا کوئی بڑا پروگرام ہوگا کہ ایک نہیں دو دو وزراء آرہے ہیں ۔وہ وقت پر پہنچ گیا ۔وہاں صحافی حضرات بھی پہنچ گئے ،حسب سابق پروگرام قدرے تاخیر سے شروع ہوا ویمن جیل کے احاطے میں گاڑے گئے شامیانوں میں خاتون وزیر نے عوامی حکومت کے فوائد گنوائے ،مژدہ سنایا کہ سکھ کے دن آیا ہی چاہتے ہیں ۔پھر اس سے وزیر صاحب نے مائیک لیا اور اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ،بتایا کہ عوامی اور جمہوری حکومت کیا انقلابی اقدامات کررہی ہے ۔اسے کتنا خیال ہے ، عوام کے غم میں سب گھل رہے ہیں وغیرہ وغیرہ ……پھر وزراء صاحبان قیدی خواتین کے لئے گراں قدر امداد دینے کیلئے کیمروں کے سامنے آگئے ۔یہ امداد پنکھوں اور کپڑوں کے جوڑوں پر مشتمل تھی ۔سب ملا کر لگ بھگ بیس ہزار روپوں کا سامان تھا ۔سیلانی کیا سارا میڈیا ہی بڑ بڑانے لگا کہ ان وزرا کو کیا ہوگیا ہے ……

اور یہاں تو معاملہ ہی مختلف تھا۔یہاں تو لاکھوں روپوں کی امداد خاموشی سے دی جارہی تھی کہ مسجد سے باہر گزرنے والوں کو خبر تک نہ تھی۔

سیلانی کو علم ہوا کہ اورنگی ٹاؤ ن قصبہ کالونی کے چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہنے والے بڑے دل کے مکینوں نے انصار مدینہ کی یاد تازہ کردی ہے ۔انہوں نے سوات ،مالاکنڈ ،بونیر کے لٹے پٹے بہن بھائیوں کے لئے دلوں کے ساتھ ساتھ گھروں کے دروازے بھی کھول دئیے ہیں ۔آنے والے بھائیوں کو سینے سے بھی لگارہے ہیں اور بہنوں کے سروں پر چادر بھی رکھ ر ہے ہیں ۔سیلانی کئی دنوں سے جامع مسجد مصطفٰی جانیکا سوچ رہا تھا ،مگر روز ہی کوئی نہ کوئی مصروفیت نکل آتی ۔آج اﷲ کا حکم ہوا تو وہ پوچھتے پچھاتے قصبہ کالونی پہنچ ہی گیا ۔

اسے متجسس نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھتا دیکھ کر ایک دراز قامت نوجوان اس کی جانب بڑھا چلا آیا ۔سیلانی نے اپنا تعارف کرایا تو ولی المظفر کے بازو پُر جوش معانقے کیلئے پھیل گئے۔باریش ولی المظفر عربی ادب کے بہترین عالموں میں سے ہیں ۔پکے سند یافتہ مولوی ہیں ۔یہ سارا انتظام ان کے اور ان کے ساتھیوں کی محنت کا نتیجہ ہے ۔ولی المظفر محبت سے سیلانی سے ملے اور خاطر مدارات پر تُل گئے ۔سیلانی نے نرمی سے معذرت کی اور ان کے ساتھ ؂چلتا ہو ا لوگوں کی قطار کے پاس چلا آیا ۔یہ سب اپنے ہی ملک میں بے گھر ہونے والے لوگ تھے ،جن کے ہاتھ کبھی دینے والے ہوا کرتے تھے ،جوکبھی دکھ درد میں دوسروں کے کام آیا کرتے تھے اور آج تقدیر انہیں یہ دن دکھا رہی تھی ۔یہ سب لوگ بہت دل گرفتہ اور دکھی تھے ۔وہ کسی نہ کسی طرح کراچی تو پہنچ گئے تھے ،لیکن اب جسم و جان کے رشتے کو بر قرار رکھنا مشکل ہورہا تھا ۔ رشتہ دار،عزیز وقارب تھے مگر یہ کب تک بوجھ بنے رہتے ۔یہاں کے حالات ایسے نہ تھے کہ کہیں نوکری ملتی ۔اسی قطارمیں ایک نوجوان کو ایک اخبار نویس کی آمد کی اطلاع ہوئی، تو وہ سیلانی کے پاس آکر کہنے لگا’’سر !ہم کیا اس ملک کے شہری نہیں ۔ہمار سوات ایشیا کا سوئٹزر لینڈ کہلاتا ہے۔ لاہور کراچی میں گرمی پڑتی تھی ،آپ اپنی بہن بیٹیوں بچوں کے ساتھ سوات آتے تھے، تو ہم کیا سلوک کرتے تھے ؟ کیا ایسا کبھی ہوا کہ کوئی کراچی والا ،حیدر آباد والا ،لاہور والا نے کسی کا دروازہ بجایا ہو اور کسی ضرورت کا کہا ہو اور وہ خالی ہاتھ لوٹا ہو ……میں یہاں ایک کمپنی ،فیکٹری میں گیا کہ نوکری دے دو ۔کوئی کام دے دو ،مگر سوات کا شناختی کارڈ دیکھ کر ہی ہم کو واپس کردیتے ہیں۔یہ اﷲ بھلا کرے ان علمائے کرام کا یہ ہماری مدد کررہے ہیں ،تو ہمارے بچوں کے پیٹ میں کچھ جارہا ہے ‘‘۔

اس نوجوان کا شکوہ اپنی جگہ لیکن اسی کراچی ہی میں جہاں اسے ملازمت نہیں مل رہی تھی، کچھ دل والوں نے اسے سہارا تو دیا تھا ۔ سامنے کا کمرہ ااشیائے خرد ونوش سے بھرا ہوا تھا ۔ قطار میں لگے افراد باری باری واٹر کولر،آٹا،چاول،چینی،وغیرہ لے کر جارہے تھے اور دعائیں دے رہے تھے۔ولی المظفر بہت مصروف تھا ،وہ سیلانی سے بات چیت بھی کرتا جا رہا تھا اور اپنا کام بھی نمٹا تا جا رہا تھا ۔ سیلانی کو تجسس تھا کہ ایک اکیلا نوجوان جسے ایسے کسی کا م کا تجربہ بھی نہ ہو، یہ سب کیسے کررہا ہے؟ سیلانی کے کرید نے پر ولی المظفر کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر گئی ’’سب اﷲ کے حکم سے ہورہا ہے، اس کی مدد شامل ہے ،ہمیں خود پتہ نہیں چلتا ،لوگ آرہے ہیں اور امداد دے کر جارہے ہیں ،یہاں لوگوں نے سات سوساٹھ خاندانوں کو پناہ دے رکھی ہے (نوٹ: اب دس ہزار خاندانوں کے قریب ہے ) قصبہ کالونی ،منگھوپیر ، اتحادٹاؤن اور دیگرعلاقوں میں ۔یہ ہمیں یہاں کے لوگوں نے اپنے مکانات دئے ہیں کہ یہ ہمارے گھر ہیں ان میں سوات سے آنے والوں کو ٹھراؤ اور آپ یقین کریں اس وقت ہمارے پاس اسّی مکانوں کی چابیاں فاضل ہیں ۔ جب کوئی ضرورت مند آئے گا، تو ہم تصدیق و تحقیق کرکے اسے مکان کی چابی بھی دیں گے اور ضرورت کا سامان ‘‘
’’یہ سب ہوا کیسے ‘‘

’’سیلانی بھائی !یہاں میرابھائی رہتا ہے ،ایک دن میں اس سے ملنے آیا ،میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک نوجوان آیا اور کہنے لگا، حضرت ! ایک مسئلہ تو
 بتادیں ،میں اپنے والد کو بہت چاہتا ہوں ،محبت اور عزت کرتا ہوں ،لیکن کیا میں ان کا گلا دبا سکتا ہوں ، میں نے یہ سنا تو چونک پڑا ،کہ یہ کیا کہہ رہا ہے ۔میں نے اس سے پوچھا کہ معاملہ کیا ہے ،ذرا بتاؤ توسہی ،جس پر وہ بولا ہم سوات سے جان بچا کر آتو گئے ہیں ،لیکن اب سمجھ نہیں آرہا کہ اپنے پچانوے سال کے باپ کو کہا ں لے کرجاؤں ۔ان کی حالت یہ کہ ہم انہیں رضائی میں لپیٹ کر اٹھاتے ہیں ۔ہمارے پاس رقم ہے اور نہ کوئی ٹھکانہ ۔یہاں کوئی رشتہ دار بھی نہیں ۔گاؤں سے لوگ جان بچا کر نکلے، تو ہم بھی ان کے ساتھ بس میں بیٹھ کر کراچی آگئے ۔اب کیا کریں ،سر چھپانے کیلئے کوئی ٹھکانہ نہیں،اس وقت میں نے سوچا کہ جو ہوسکتا ہے کرنا چاہئے ۔میں نے ابتداء اپنے گھر سے کی اور سات خاندانوں کو مہمان بنالیا ۔پھر کام چل پڑا ۔ہم نے اس مسجد مدرسے کو مرکز بنالیا ۔دوست احبا ب کو ساتھ لیا اور جاننے والوں سے رابطے کئے ۔اﷲ نے مدد کی اور کام بڑھتا رہا اور چلتارہا۔اب بھی کس طرح چل رہا ہے ،ہمیں خود پتہ نہیں۔سامان ختم ہوتا ہے، اﷲ پاک کہیں نہ کہیں سے انتظام فرمادیتے ہیں ۔کچھ دن پہلے کی بات ہے، راشن ختم ہو گیا ،ہم بھی پریشان ہوگئے ،کہ کیا کریں ،اسی وقت ایک صاحب نے سامان سے بھری گاڑی بھجوادی……اور سیلانی بھائی مزے کی بات یہ کہ تعاون میں اردو بولنے والے بھائی آگے ہیں ۔ مکانوں کی چابیاں دینے والوں میں سب سے زیادہ ایثار ان ہی کا ہے ۔ہم تولوگوں کا جذبہ دیکھ کر حیران ہورہے ہیں ‘‘

ولی المظفر سیلانی سے بات کررہا تھا کہ سیل فون بجا،اس نے معذرت چاہتے ہوئے کال وصول کی اور کہنے لگا’’ جی جی بات کررہا ہوں ……جزاک اﷲ ……جیسے آپ مناسب سمجھیں‘‘

’’ہمارے ایک ساتھی کے گھر سے فون تھا ،وہ خواتین کے لئے لان کے سوجوڑے بھیج رہے ہیں۔اب اﷲ اس طرح کام چلا رہا ہے، تو ہمیں کیا ضرورت ہے چندے کی ۔لوگ خودہی فون کرکے حصہ ڈال رہے ہیں‘‘۔

ولی المظفر اور ان کی ساتھی صرف راشن ہی تقسیم نہیں کر رہے ۔ڈیڑھ سو مریضوں،زخمیوں کا علاج بھی کراچکے ہیں (نوٹ :اب تک عددچوبیس سو سے تجاوز کرچکا ہے)،ایک ادارے نے انہیں ڈاکٹر کی پیشکش کررکھی ہے ،ایک ادارے نے بچوں کی تعلیم کے لئے کاپیاں کتابیں دینے کی یقین دہانی کرائی ہے ۔یہ سب دیکھ کر سیلانی کا تو ایمان تازہ ہوگیا ،وہ حیران حیران نظروں سے پسینہ پونچھتے ہوئے ولی المظفر کو دیکھتے ہوئے سوچنے لگا،اسے واقعی کام کرنا نہیں آتا ……خدا کرے کہ اسے اور اس کے ساتھیوں کو این جی اوز کی طرح کام کرنے کا سلیقہ آئے بھی نہیں۔جونمک کی تھیلیاں بانٹ کر اخباروں میں تصویریں چھپواتی ہیں اور ان تصویروں کو کشکول بنا کر ڈونروں سے مال بٹورنے پہنچ جاتی ہیں۔اچھا ہے ولی المظفر ایسے ہی ’’بے ڈھنگے پن‘‘سے کام کرتا رہے۔سیلانی نے کن آنکھیوں سے سادہ مزاج ولی پر نگاہ ڈالی ، وہ ایک فیملی کے کاغذات دیکھ رہا تھا ۔سیلانی دھوپ میں کھڑے ہوکر اپنے بہن بھائیوں کے لئے سائے کا انتظام کرنے والے ولی المظفر کو ستائشی نظروں سے دیکھتا رہا ،دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 877810 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More