پروفیسر سیّد محمد نصیر
آج کل کے لڑکے خدا کی پناہ اجی بدتمیز کیا غنڈے ہوگئے ہیں غنڈے۔ اب تو
ہوسٹل اسلحہ خانے بن گئے ہیں، درس گاہ رزم گاہ بن گئی ہے، اب استاد کی پگڑی
اچھال دینا تو روز کا کھیل بن گیا ہے، جب دیکھو کالج اور یونی ورسٹی میں
ہنگامہ ہوتا رہتا ہے۔ صاحب ہمارے زمانے میں استاد سے سوال کرنا تو دور رہا
آنکھ اٹھا کر بات نہیں کرسکتے تھے۔ باپ نے پکارا اوروہیں پیشاب خطا ہوگیا۔
اور جب ہم لوگ ماضی کے مزار پر اپنی عقیدت کے پھول چڑھا چکتے ہیں تو اسمگل
کیے ہوئے وی سی آر پر گبرسنگھ کے شعلے دیکھنے لگتے ہیں۔ وہی گبر سنگھ جو
ہمارا بھی ہیرو ہے اور ہمارے لڑکوں کا بھی بس اتنی سی بات ہے کہ ہم آپ
گبرسنگھ کی تعریف کرکے اپنا غصہ تھوکتے ہیں۔ نفرت کی راکھ کریدتے ہیں کیوں
کہ آگ تو بجھ چکی ہے اور ہمارا نوجوان شعلہ بن جاتا ہے۔ سیاسی اور سماجی
شعور سے خود آشنا ہوگیا تو انقلابی بن گیا۔ جیل پہنچ گیا۔ بہکا تو فاشسٹ
ہوگیا۔ ڈگری لینے کے بعد ملازمت نہ ملی لیکن سینہ بہ سینہ یہ خبر ملی کہ
ایک مقتدر ہستی نے ایک بڑی اسمگلر کی سفارش کی تھی دوسری مقتدر ہستی ہیروئن
کا کاروبار کرتی ہے تو اس نے ریوالور چرایا، ہنڈا سوک چھینی اور ایسے ہی
تاجر نما اسمگلر کی مفت ہاتھ آئی ہوئی دولت سے اپنا حصہ مارلیا، کیا خوب
سودا مفت ہے۔ اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے۔ لڑکا ماں کے پیٹ سے تو رہبر یا رہزن
بن کر پیدا نہیں ہوتا۔ سیدھی سادھی بات تو یہ ہے کہ ہم نے ہمارے معاشرے نے،
ہماری سیاست اور ہماری معیشت نے، ہماری دوغلی اخلاقیات نے اسے جیسا بنایا
وہ بن کر نکلا۔ خون کے آنسو یا مگرمچھ کے آنسو بہانے سے کوئی فائدہ نہیں۔
دیکھنا یہ ہے کہ بالائی عمارت میں اتنی دراڑیں کیسے پڑگئیں کہ زندگی ہی کو
خطرہ لاحق ہوگیا پچھلے نو سال کے عرصے میں حالت زیادہ خراب ہوگئی اور اب
لگتا ہے کہ پوری عمارت چراچرا کر بیٹھ جائے گی۔ عمارت تو بنیاد پر کھڑی
ہوئی ہے اور جب اندر سے بنیاد ہی ٹوٹ پھوٹ رہی ہوتو پھر خالی عمارت کی یا
طلبہ کی مرمت سے کیسے کام چلے گا۔ ذرا سوچئے پاکستان کو قایم ہوئے انتالیس
سال ہوگئے کیا ہماری سیاسی معیشت میں کوئی ایسی تبدیلی رونما ہوئی جس کا
پھل عام آدمی تک پہنچا ہو۔ انگریز تو چلا گیا لیکن اپنی اولاد چھوڑ گیا۔
دیہی زمین دار، دیہی وڈیرا، خان، سردار، ہمارے سروںپر مسلط ہیں۔ ہاں اس کے
ساتھ اتنا ضرور ہوا کہ کچھ تاجر بڑے سرمایہ دار بن گئے۔ عالمی سرمایہ داری
کے دلال اور امریکا کے حاشیہ بردار بن گئے۔ اور ملک کو ایک نئے سیاسی و
اقتصادی غلامی کے بندھنوں میں جکڑ دیا۔ اس وقت بھی ملک کی دولت کا بڑا حصّہ
سستی برآمدات،مہنگی درآمدات، منافع، قرضوں کی ادائیگی مع سود کے اور اسلحے
کی خریداری کی شکل میں باہر جارہا ہے۔ دلالی کا حصّہ یہاں کے بڑے سرمایہ
داروں کو مل رہا ہے۔ وڈیروں کے ہاتھ آرہا ہے۔ اس گٹھ جوڑ اور اسے برقرار
رکھنے کے لیے فوج اور نوکر شاہی کو بھی خوب دودھ پلایا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ
نکلا کہ ایک جانب دولت کے انبار لگ گئے۔ ملک کی دولت کا بڑا حصہ باہر چلا
گیا اور دوسری جانب روٹی کے بھی لالے پڑ گئے اور مہنگائی نے کمر توڑ دی، بے
روز گاری کا بھوت ناچنے لگا۔ اگر ملک میں آزاد سرمایہ داری نظام بھی قایم
ہوجاتا تو پس ماندگی کی یہ حالت نہ ہوتی۔ صنعت کاری تیزی سے بڑھتی کیوں کہ
اسے دیہی منڈی مل جاتی۔ کاشت کار کی حالت نسبتاً بہتر ہوتی اور ہمیں بھی
سرمایہ داری کے دسترخوان سے کچھ ٹکڑے مل جاتے۔ اس وقت تو ہم صرف عالمی
سرمایہ داری نظام کے محتاج ہیں اور اس کا سارا بوجھ مزدوروں، کسانوں،
ملازمت پیشہ پست اور متوسط طبقوں، دکان داروں، چھوٹے اور قومی سرمایہ داروں
کو برداشت کرنا پڑرہا ہے۔ اس لوٹ مار کی تعداد دو کروڑ چھبیس(26) لاکھ ہے
جن میں سے قریبا چھبیس(26) لاکھ افراد بے کار ہیں۔ اس طرح قریباً کام کرنے
والوں میں ساڑھے گیارہ فی صد لوگ بے کار ہیں۔ ان میں پڑھے لکھے لوگوں کی
تعداد کتنی ہے۔ اس کے اعداد وشمار تو موجود نہیں ہیں لیکن صرف دو باتوں سے
اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ سائنس اور آرٹس کے کالجوں میں پڑھنے والے طالبِ
علم کی تعداد 1974-75ء میں دو لاکھ آٹھ ہزار تھی جو 1983-84ء میں بڑھ کر
چار لاکھ انیس ہزار ہوگئی۔ یونی ورسٹی میں یہ تعداد اکیس ہزار سے بڑھ کر
انچاس ہزار پانچ سو ہوگئی اور اب صورت یہ ہے کہ ایم اے اور ایم ایس سی پاس
طالبِ علم نواب شاہ میں چوکی داری کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ جن خوش
قسمتوں کے پاس روز گار ہے اُن کی حالت کیا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا
جاسکتا ہے کہ 1984-85ء میں چالیس فی صد گھرانے ایسے تھے جن کی آمدنی گیارہ
سو روپے مہینے سے کم تھی اور اس کے ساتھ ساتھ ایک لاکھ نوے ہزار گھرانے
ایسے ہیں جن کی ماہانہ آمدنی سولہ ہزار روپے سے زیادہ ہے۔کتنی زیادہ ہے اس
کا شمار ہی نہیں ہے۔ مہنگائی کا عالم یہ ہوگیا ہے کہ سرکاری اعداد وشمار کے
مطابق (جن میں اب بڑے پیمانے میںگھپلا ہونے لگا ہے) پچھلے نو سالوں میں
اشیائے صرف کے داموں میں سو فی صد کا اضافہ ہوگیا۔ 84-85ء کے اقتصادی جائزے
کے مطابق صرف پچھلے ایک سال کے عرصے میں کپڑے کے دام بارہ فی صد بڑھ گئے۔
غیر سرکاری اندازوں کے مطابق افراطِ زر میں پچیس تیس فی صد اضافہ ہورہاہے۔
کیا یہ اعداد و شمار نہیں بولتے کہ ضبط کے بندھن کیوں ٹوٹ رہے ہیں؟ اور کیا
یہ حالات نہیں بتاتے کہ بندوق نکالنے کی کیوں ضرورت پڑی؟ |