کوئی ہے مسیحائی کی آڑ میں ظلم کرنے والوں کو روکنے والا

ماں بننا کتنا تکلیف دہ عمل ہے لیکن یہ ماں کی محبت کی معراج ہے کہ اللہ تعالٰی نے اس کے پائوں کے نیچے جنت رکھ دی اور پھر ماں کی محبت کو مثال بنا کر اللہ تعالی نے فرمایا کہ وہ اپنے بندوں سے ستر مائوں سے زیادہ پیار کرتا ہے لیکن اگر اسی ماں کو فطری تکلیف ہو اور اپنے آپ کو مسیحا کہلوانے والے بے حس افراد اسے دھکے دے کرہسپتال سے نکال دیں ،پھر بے سرو سامانی کی حالت میں زچہ خاتون پر فالج کا حملہ ہو جائے اور سب سے بڑا ستم یہ کہ اس کے جڑواں بچے راستے میںہی پیدا ہو کر مر جائیں تو اس ماں کی حالت کیا ہو گی اس کا اندازہ تحصیل تنگی کی رہائشی بائیس سالہ مریم بی بی جیسی خاتون کو ہی ہو سکتا ہے ۔ مریم بی بی کو اس کے والد 10 جولائی کو تنگی کے علاقے سے رات تین بجے بیماری کی حالت میں حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں علاج کیلئے لائے لیکن چھ بجے صبح تک نرسوں نے اسے ٹالے رکھا بعد ازاں مریضہ کی حالت غیر ہونے پر خاتون ڈاکٹر نہ ہونے کا بہانہ بنا کر اسے ہسپتال سے باہر نکال دیاگیا۔ اسکے خاندان والے اسے حیات شیرپائو ٹیچنگ ہسپتال لارہے تھے کہ راستے میں گاڑی میں ہی جڑواں بچوں کی پیدائش ہوگئی جسے بعد ازاں حیات شیرپائو ہسپتال کے آئی سی یو وارڈ میں رکھا گیا تاہم بروقت علاج نہ ہونے کے باعث دونوں بچے انتقال کر گئے۔ مریضہ اس وقت اپنے گائوں میں بیمار پڑی ہے اورا س کے بوڑھے والد انصاف کے حصول کیلئے مختلف دفاتر کے چکر لگا رہے ہیں مریضہ کے والد محمود الدین نے واقعے کے بارے میں میڈیکل سپرنٹنڈنٹ حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کو باقاعدہ درخواست بھی لکھ کر دی تاہم میڈیکل سپرنٹنڈنٹ اس واقعے کو دبانے کی کوششوں میں مصروف ہیں اورمریضہ کے والد سے صلح صفائی کی کوشش کر رہے ہیں- ہمارے معاشرے میں یہ ایک عام سی بات ہے روزانہ سینکڑوں بچے مرتے ہیں ایسے میں اگر دو چار ایسے واقعات ہوں تو کسی کو فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ ایک مخصوص طبقے کا پاکستان ہے جن کے ہاتھ میں پیسہ اور ڈنڈا دونوں ہیں اور یہ پاکستان انہی جیسے لوگوں کیلئے بنایا گیا ہے ۔تبدیلی کے دعویدار کہاں ہیں جنہوں نے خیبر پختونخوا میں شہد اور دودھ کی نہریں بہانے کے دعوے کئے تھے اس صوبے کے کمی کمین دودھ اور شہد کی نہروں کے شوقین نہیں لیکن یہ سوال پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ دوسروں کو برا کہنے والے اور تبدیلی کے دعویدار کیا تبدیلی لیکر آئے ہیں-

تبدیلی کے دعوئوں کے بارے میں یہی سوال اس وقت راقم کے سامنے موجود محمود الدین کررہا ہے بقول اس کے وہ گائوں سے علاج کی خاطر اپنی بیٹی کو لے کرآیا تھا اور اسے امید تھی کہ اب تبدیلی والے آئے ہیں ہسپتال کی حالت بہتر ہوگی لیکن بقول محمود الدین کے رات تین بجے سے چھ بجے صبح تک حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں جس عذاب سے میں گزر ا ہوں وہ میں ہی جانتا ہوں اور پھر اسی ہسپتال کی ظالم نرسو ں نے یہ کہہ کر ہسپتال سے نکال دیا کہ رات کے وقت ڈاکٹر نہیں ہوتی اس لئے اپنی مریضہ بیٹی کو یہاں سے لیکر چلے جائو اور پھر حیات شیرپائو ہسپتال لاتے ہوئے جڑواں بچوں کی پیدائش ہوئی لیکن وہ بھی فوت ہوگئے اب اس واقعے کی تحقیقات کیلئے میں نے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کو درخواست لکھ کر دیدی ہے لیکن اس پر عملدرآمدنہیں ہورہااور مجھے کہا جارہا ہے کہ جو ہوگیا ہے اسے بھول جائو بقول مریضہ کے والد محمود الدین کے میں اپنی تکلیف تو بھول جائو ں لیکن اپنی بیٹی کا دکھ کیسے بھول جائوں۔ اب جب بھی اس کے سامنے جاتا ہوں وہ اپنے بچوں کا مجھ سے پوچھتی ہے اور میںشرمندہ ہو کر واپس آجاتا ہوں میری خواہش ہے کہ جو میری بیٹی کیساتھ ہوا وہ کسی اور کیساتھ نہ ہو اسی لئے میں اپنی شکایت میڈیا کے سامنے لا رہا ہو ں یہ وہ حالات ہیں جو ہسپتال میں خوار ہونے والے مریضہ کے والد نے راقم کو بتائے- صوبے کے سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار کا اندازہ راقم کو گذشتہ دنوں اسسٹنٹ کمشنرپشاور کیساتھ کئے گئے دورے کے دوران ہوا۔ پتہ چلا کہ شہر میں واقع ایک سرکاری ہسپتال کے انچارج کے رشتہ داروں نے میڈیسن کی دکان ہسپتال کے سامنے کھول رکھی ہے اور صرف اسی شخص کو فائدہ پہنچانے اور مخصوص دکانداروں سے خریداری کا موقع دینے کیلئے سرکاری ہسپتال کا گیٹ بند کروا دیا گیا حالانکہ گیٹ کی بندش کے باعث وارڈ میں آنیوالے سینکڑوں مریض خوار ہورہے ہیں لیکن چونکہ روزانہ کی بنیاد پر ہسپتال کے عملے کو حرام کا" شوڑا" مل رہا ہے اسی لئے انہوں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور مریضوں کیساتھ ساتھ ان کے لواحقین بھی خوار ہورہے ہیں لیکن یہ کسی کو نظر ہی نہیں آتا-

تبدیلی کے نام پر آنیوالوں نے رمضان میںاپنے کو بخشوانے کیلئے 9کروڑ40 لاکھ روپے جو اس غریب قوم کا مال تھا کو ہسپتال میں مریضوں کی افطاری کے نام پر لٹانے کا سلسلہ شروع کردیا ہے مزے کی بات تو ہے کہ ابتدا ء میں مریضوں کو جوکھانا دیا گیا وہ الگ قسم کا تھا کیونکہ ان دنوں سرکاری افسران نے ہسپتال کا وزٹ کرنا تھا اور اب جو افطاری کے نام پر مریضوں کو دیا جارہا ہے وہ الگ قسم کا ہے سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ ہسپتالوں میں مریض تو بہت ہی کم فائدہ اٹھا رہے ہیں البتہ ہسپتالوں میں تعینات طبی عملے سمیت نچلے طبقے کے کلاس فورملازمین کی بھی چاندی ہوگئی ہے سب سے حیران کن بات کہ تبدیلی کے دعویداروں نے اسی پارٹی سے تعلق رکھنے والے رہنماء کے رشتہ دار کو ہسپتالوں میں مریضوں کو افطاری کے نام پر دئیے جانیوالے کھانے کا ٹھیکہ دیا ہے جس میں بہت سارے لوگ فیض یاب ہوگئے ہیں اب تبدیلی والے یہ ڈرامہ کرینگے کہ ہم نے ہسپتالوں میں مریضوں کو افطاری دی لیکن کوئی یہ تو پوچھے کہ ٹھیکہ کس کو دیا کس طرح کی افطاری دی جارہی ہے کن بنیادوں پر دی جارہی ہے لیکن پوچھنے والا تبدیلی کے دعویداروں سے کون ہوگا -افطاری کے بجائے اگریہی رقم ہسپتالوں کی حالت زار بہتر کرانے پر استعمال کی جاتی اور مسیحائوں کے نام پر لوگوں کو قصائیوں کی طرح ذبح کرنے والے ڈاکٹروں کے منہ بند کئے جاتے تو کم از کم حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں ہونیوالے واقعات تو رونما نہ ہوتے لیکن اے کاش تبدیلی والے!

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 422145 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More