خوش ہے زمانہ ۔ آج پہلی تاریخ ہے

جمشید خٹک

کئی دہائیوں قبل ریڈیو سیلون سے صبح صبح سات بجے پرانے مقبول فلمی نغمے نشر ہوتے تھے ۔ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو سب سے پہلا یہ نغمہ نشر ہوتا تھا۔ ’’ خوش ہے زمانہ آج پہلی تاریخ ہے ‘‘ میں اُس زمانے میں طالبعلم تھا ۔مجھے اس دن کی اہمیت کا کوئی اندازہ نہیں تھا۔مجھے تو سکو ل جانے کیلئے جیب خرچہ دو آنے ملتے تھے۔اگر اس کی اہمیت معلو م تھی ۔تو میرے والد صاحب کو کہ وہ پور ے مہینے کا بجٹ تیار کر کے حساب کتاب لگاتا تھا۔اُس زمانے میں خرچ و آمدنی کا تخمینہ لگانا آسان ہوتا تھا۔کیونکہ مہینے کے شروع میں جو ریٹ ہوتے تھے ۔وہ کم وبیش مہینے کے آخر تک وہی رہتے تھے ۔ یہی وجہ تھی ۔کہ انفرادی بجٹ ، ادارے کا بجٹ یا قومی بجٹ مہینے کیلئے یا سال کیلئے آسانی سے بنایا جا سکتا تھا۔مختصر عرصے کے دوران قیمتوں میں اضافے کا تصور نہیں تھا۔گزارہ آسانی سے ممکن تھا۔کیونکہ زیر گردش نوٹوں کی تعداد اتنی زیادہ نہیں تھی۔افراط زر کی شرح بھی کنٹرول میں تھا۔ قیمتیں مستحکم ہوتی تھیں۔ایک عام مزدور ، کلرک اور آفیسر کے تنخواہ کا حساب سونے کے بھاؤ سے منسلک ہوتا تھا۔1960 اور 70 کی دھائی میں ایک تولہ سونے کی قیمت 75 روپے ہوتی تھی۔ جبکہ ایک کلرک کی تنخواہ 65 , 70 روپے ماہانہ ہوتی تھی۔جس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک کلرک کی تنخواہ ایک تولہ سونے کی برابر تھی ۔جبکہ اب ایک کلرک کی تنخواہ تقریباً 9000 سے 10000 روپے ماہانہ ہے ۔جبکہ ایک تولہ سونے کی قیمت 65000 روپے ہے ۔جس کا مطلب یہ ہوا۔کہ تنخواہ اور سونے کی قیمت میں تقریبا 6 , 7 گنا فرق ہے ۔

مہنگائی کا جو طوفان برپا ہے ۔روزانہ کے حساب سے قیمتوں میں اُتار چڑھاؤ بے یقینی کی فضا پیدا کردی ہے ۔نہ حکومت کے تخمینے بجٹ بنانے میں صحیح ثابت ہو تے ہیں ۔نہ انفرادی طور پر ایک گھر کا بجٹ یا ادارے کا میزانیہ آمد ن و اخراجات کے مطابق تیار کیا جاسکتا ہے ۔انرجی کے بحران نے سب قیمتوں کو آسمان پر اُٹھا لیا ہے ۔گیس کی قیمتوں میں اضافہ جاری ہے ۔تیل کا بھی یہی حال ہے ۔خوردنی تیل کی بھی قیمتیں چڑھ رہی ہیں۔روزانہ عام استعمال کی اشیاء کی قیمتیں بھی بلندیوں کو چھور رہی ہیں ۔جس کی وجہ سے مزدور کار اور تنخواہ دار طبقہ مہنگائی کے اس چکی میں بری طرح پس رہا ہے ۔خورد ونوش کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے ۔چکن کی قیمت 180 روپے فی کلو تک جا پہنچا ہے ۔بڑا گوشت 280 روپے اور چھوٹا تقریباً 400 سے 500 روپے فی کلو تک کے رینج میں ہے ۔کوکنگ آئل اچھی برانڈ والے فی لیٹر 180 روپے جبکہ زرا کم معیار کا گھی اور تیل 160 روپے فی کلو ہے ۔دودھ 80 روپے فی کلو ۔

حکومتی اعداوشمار Sensitive Price Indicator (SPI) کے مطابق سال 2012-13 کے پہلے سہہ ماہی (جولائی ۔ستمبر) میں پچھلے سال اس عرصے کے دوران قیمتوں میں 8.31 فی صد اضافہ ہوا ہے ۔جبکہ دوسرے سہہ ماہی (اکتوبر ۔دسمبر) میں 6.99 فی صد اضافہ ہے ۔جب کہ قیمتوں میں حقیقی اضافہ اس سے کہیں زیادہ ہے ۔سرکاری جائزے کے مطابق ششماہی سال 2012-13 (جولائی ۔ دسمبر) میں پچھلے ششماہی 2011-12 کے مقابلے میں 7.46 فی صد اضافہ ہوا ہے ۔یقینا یہ بھی تصویر کا مکمل رخ نہیں ہے ۔ان ساری قیمتوں میں اضافے کو بنیادی سال 2007-08 کے بنیاد کیا گیا ہے ۔اگر یہی جائزہ 2001 کو بنیاد بنا کر دیا جائے ۔تو یہ اضافہ کئی سو گنا تک جا سکتا ہے ۔

CNG کی قیمتوں میں اُتار چڑھاؤ روز کا معمول ہے ۔حکومت اس کا قیمت بڑھا دیتی ہے ۔سپریم کورٹ قیمت کم کردیتی ہے ۔لیکن تاجر حضرات گیس کو بند کردیتے ہیں ۔حکومت دباؤ میں آکر ایک دفعہ پھر گیس کی قیمت بڑھا دیتی ہے ۔CNG کے مالکان پھر گیس محدود مقدار میں سپلائی کرتے ہیں ۔یا پریشر کا بہانہ لگا کر گاڑی میں گیس بھر دی جاتی ہے ۔لیکن عملاً اُس کی مقدار اُتنی نہیں ہوتی ۔ جتنی پیمانے کے حساب سے گیس بھر دی گئی ہے ۔یہ گتھی نہ سپریم کورٹ کے آرڈرسے نہ حکومت کی انتظامی حکمت عملی سے ابھی تک نہیں سلجھی ہے ۔آزاد ملک کے آزاد شہری ہیں ۔جو جی میں آئیں کریں ۔ گیس پیچیں تیل بیچیں جس قیمت پر بیچیں جس مقدار میں بیچیں کون پوچھ سکتا ہے ۔اگر حکومت پوچھتی ہے ۔تو پھر ہڑتال اور تالہ بندی کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔جب ہڑتال ہوتی ہے ۔تو مشکلات کا شکار تو غریب عوام ہوتے ہیں ۔ عوام ہی در بدر کی ٹھوکریں لگاتے پھرتے ہیں ۔عوام کی توشنوائی ہی نہیں ہوتی ۔حکومت بھی مجبور ہے ۔اور اس پر اکتفا کر لیتے ہیں ۔کہ عوام کو بالکل کچھ نہ ملنے سے بہتر ہے ۔کہ کچھ تو ملے ۔غریب عوام بھی بڑبڑاتے ہوئے خاموش ہو جا تے ہیں ۔اس لیے کہ اُن کے پا س کوئی دوسر ا چارہ ہی نہیں ہوتا۔

اسی وجہ سے ہر پہلی تاریخ کو صبح سرکاری بینکوں کے باہر ایک جم غفیر نظر آتا ہے ۔لمبی لمبی قطاریں لگی ہوتی ہیں ۔ایسا لگتا ہے ۔کہ کوئی مفت کی چیزیں بانٹ رہا ہے ۔یا کوئی NGO مفت آٹے کے تھیلے تقسیم کررہا ہے ۔جہاں لوگ بڑی بے تابی سے آگے جانے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں ۔اس بے پناہ رش میں زیادہ تعداد بوڑھے مردوں اور خواتین کی ہوتی ہے ۔جو کئی میلوں کا سفر طے کرکے ماہانہ پینشن لینے کیلئے نہایت کسمپرسی کی حالت میں بے یارومدد گار بینک کی کھڑکی کے سامنے اپنی پنشن کاپی لیے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں ۔اُن کی زبان پر آج خوش ہے زمانہ والا گانا نہیں آتا۔جو چند سال پہلے وہ مہینے کی پہلی تاریخ کو گنگناتے تھے۔ ’’ خوش ہے زمانہ آج پہلی تاریخ ہے ‘‘ اُس کی جگہ وہ اس نغمے کو گنگناتے رہتے ہیں ۔
؂ حلوہ پوڑی کھاتے تھے
اب صرف غم کے پاپڑ کھاتے ہیں

مہینے کی پہلی تاریخ کو تنخواہ یا پنشن کی بجائے چند دن بعد مقررہ دن پر پنشن لینے پر جب استسفار کیا گیا ۔تو پتہ چلا کہ اگر یہ پنشن یا تنخواہ دس تاریخ کوبھی وصول کی جائے ۔تو مہینے کے آخری دن سے پہلے پہلے مہینے کی رقم ختم ہو جاتی ہے ۔اس لیے دوبارہ یکم تاریخ کا بے چینی سے انتظار کرتے ہیں ۔اور جونہی پہلی تاریخ آتی ہے ۔تو بینکو ں پر یلغار شروع ہو جا تی ہے ۔وجہ اُس کی یہ ہے ۔کہ اُس ایک مہینے کے دوران قیمتوں میں اتنا اضافہ ہو جاتا ہے ۔کہ گھریلو بجٹ تہس نہس ہو جاتا ہے ۔اور ایک مہینے کی آمدنی تنخواہ یا پنشن کی رقم آناً فاناً ختم ہوجاتی ہے ۔گھریلو بجٹ بناتے وقت ساری منصوبہ بندی دھر ی کی دھری رہ جاتی ہے ۔

ضعیفی کی عمر میں حکومتوں نے پنشن اس لیے رائج کیا تھا۔کہ عمر رسیدہ لوگوں کو ضعیفی کی صعوبتوں سے نجات دلا کر گھر پر ڈاکخانے کے ذریعے کچھ رقم مہیا کی جائے ۔تا کہ وہ زندگی کی آخری ایام راحت سے گزار سکیں ۔مگر موجود دور میں اس قلیل رقم میں کہاں گزارہ ہوتا ہے ۔ایک مزدور کی پنشن EOBI سے صرف 3500 روپیہ ماہانہ ملتا ہے ۔اس قلیل پنشن میں کسی طریقے سے بھی ایک گھر کاماہانہ بجٹ
نہیں بنایا جاسکتا۔پنشن لینے کیلئے غریب مزدور پنشن یافتہ افراد میلوں پیدل اور بسوں میں سفر کر کے سرکاری بینک سے پنشن حاصل کرتے ہیں ۔قابل رحم ہے اُن لوگوں کی حالت جو پچیس سے تیس میل دور اُفتادہ علاقوں سے شہر میں آکر پنشن کی رقم وصول کرتے ہیں ۔
Afrasiab Khan
About the Author: Afrasiab Khan Read More Articles by Afrasiab Khan: 24 Articles with 24947 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.