معاشرہ میں ایسے بہت سے لوگ ہیں
جو خود کو بَدصورت خیال کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں احساسِ کمتری میں مبتلا
ہیں اور اس احساسِ کمتری سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیئے نت نئے فیشن، کریمیں،
اور ٹوٹکے استعمال کرتے ہیں اور بے بہا روپیہ و وقت خرچ کرتے ہیں لیکن پھر
بھی بات وہیں پہنچتی ہے یعنی ‘جتھوں دی کھوتی اوتھے آن کھلوتی‘- یہ سطور
ایسے اشخاص کے لیے بطور خاص پیش کی جا رہی ہیں جو خود کو بدصورت خیال کرتے
ہیں اور دوسروں کے سامنے اپنے حُسن کا مانند پڑتا محسوس کرتے ہیں-
پہلی بات تو یہ ہے کہ انسان کی شکل و صورت اسے اللہ تعالٰی کی طرف سے عطا
کی جاتی ہے، اس شکل و حلیہ میں بندہ کسی کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتا-
شکل و صورت و حلیہ و ڈیل ڈول معاملات میں کسی کو بُرا کہنا، کسی کو بدصورت
کہنا اور خود کو بدصورت محسوس کرنا، مختلف القاب مثلاً سیاہ رنگ والے کو
کالو، چھوٹے قد والے کو ٹھینگنا وغیرہ وغیرہ سے کسی کو نوازنا دراصل اللہ
تعالٰی کی تخلیق پر، خدا کے ذوقِ جمال پر عدم اعتماد کی سی بات ہے جو کہ نہ
ہی مذہبی طور پر درست ہے اور نہ ہی انسانی و اخلاقی طور پر-
بہت سے قارئین کے ذہن میں اب یہ سوال پیدا ہو رہا ہو گا کہ جب ایک شخص کالا
ہے، اسکی ناک چہرے کی مناسبت سے بڑی ہے، سر، دھڑ کے مقابلے میں چھوٹا ہے،
یا مجموعی طور پر وہ نظر ہی بَدصورت آتا ہے تو اسکو بَدصورت نہ کہنا حقیقت
سے آنکھیں چرانے والی بات ہو گی- ٹھیک ہے مان لی بات کہ واقعی ایسا ہی ہے،
لیکن ذرا دیر کو ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ تمام انسان چونکہ ایک دوسرے سے
مختلف ہیں اور وہی کچھ دیکھتے ہیں جو وہ دیکھنا ‘چاہتے‘ ہوں، لہٰذا ان کی
رائے بھی مختلف ہوگی، اگر ایک کی نظر میں آپ کلموہی ہیں تو عین ممکن ہے کہ
دو کی نظر میں آپ شہزادی ہوں- اصل میں آئینہ ہمارا بہترین جج ہے، اسے جھوٹ
بولنے کی ضرورت نہیں ہوتی، اگر اس کا فیصلہ یہ ہے کہ آپ بدصورت، بھدے بلکہ
مکروہ ہیں تو یہاں قابل ذکر و لطف بات یہ ہے کہ آئینہ بھی ہمیں اپنی پسند
کے سوا کچھ نہیں دکھاتا-
اب بدصورتی اور حُسن کا تقابلی جائزہ لیا جائے گا تاکہ احساسِ کمتری کو
مدہم کرنے کی تدبیر ہو سکے-‘چمکنے والی ہر شے سونا نہیں ہوتی‘، انگریزی کا
یہ مقولہ بھولے بھٹکوں کو راہ پر لانے میں کتنا اثر رکھتا ہے، یہ راہ پر
آئے ہوئے ہی جان سکتے ہیں- حُسن بھڑکیلا ہونے کے سبب پُرکشش ہوتا ہے لیکن
وہ بھڑک ملمع کی مانند مصنوعی اور عارضی ہوتی ہے، خوبصورتی صرف جوانی کی
ساتھی ہے، بڑھاپے میں یہ آنکھیں چُرا لیتی ہے- جبکہ بدصورتی زندگی سے عمر
بھر دامن گیر رہتی ہے، بےوفائی اسکا شعار نہیں ہوتی، وہ دکھ سکھ، خوشی غمی
میں بے لوث جذبے سے آپ کے ساتھ رہتی ہے- مزید برآں، خوبصورتی کے حق میں بہت
سی چیزیں زہر ثابت ہوتی ہیں- محبت سے کئے گئے کام کے آگے خوبصورتی بہت حد
تک ماند پڑ جاتی ہے، دھوپ کی تمازت اسے کند کر دیتی ہے، موسم کی تبدیلی
حُسن کو پھیکا کر دیتی ہے- اور تو اور زندگی کے مصائب و جدوجہد کے نتائج اس
خوبصورتی پر ہمیشہ کے لیے اپنے نشان چھوڑ جاتے ہیں- یہ وہ نمائشی چیز ہے جو
کام میں لاتے ہی بیکار اور بے نور ہو جاتی ہے- خوبصورتی کو محفوظ رکھنے کے
لیے ہمیں دوسروں کا سہارا لینا پڑتا ہے، بیوٹی شاپس کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں،
احتیاطی تدایبر اختیار کرنا پڑتی ہیں- جب کہ دوسری طرف بدصورتی میں اپنی
طاقت پر کھڑے ہونے کا جذبہ ہوتا ہے، اس میں خوداعتمادی اور زندہ رہنے کا
جذبہ نظر آتا ہے-
حقیقت تو یہ ہے کہ ظاہری خوبصورتی سے اندرونی خوبصورتی زیادہ قیمتی ہوتی
ہے- انگریزی پھولوں کو ہی دیکھ لیں، ان میں رنگ برنگی خوبصورتی ہوتی ہے،
مگر خوشبو ان میں نام کو نہیں ہوتی- خوبصورتی میں غرور و تکبر و آکڑ ہوتی
ہے لیکن بدصورتی میں ‘کچھ نہیں‘ کا پاک جذبہ نہاں ہوتا ہے- عام مشاہدہ کی
بات ہے کہ بدصورت آدمی اکثر اوقات عادتوں کا اچھا اور بول چال میں نرم
طبیعت کا مالک پایا جاتا ہے- بیری کے بیر ہی کو دیکھ لیں، بیر میں باہر چمک
اور ملائمت ہوتی ہے لیکن اندر سخت گھٹلی ہوتی ہے- بادام کو دیکھیں، اس کا
چھلکا خوبصورت اور چمک دار تو نہیں ہوتا مگر اس کے اندر میٹھی اور مقوی گری
ہوتی ہے-
تاریخ گواہ ہے کہ عظیم شخصیات خوبصورت نہیں تھیں- ہندوستان میں سنہری دور
لانے والے مہاراجہ اشوک بدصورت تھے، رانا سانگا، مہاراجہ رنجیت سنگھ وغیرہ
میں سے کوئی بھی خوبصورت نہیں تھا- ایکٹروں کو دیکھ لیں، اوم پوری، سمیتا
پاٹل، اشوک کمار، بھی خوبصورت نہیں تھے لیکن کروڑوں دلوں پر یہ راج کرتے
ہیں- بادلوں کو دیکھیں جو دو قسم کے ہوتے ہیں ایک سفید اور دوسرے کالے-
کالے اور بے ڈھنگ بادلوں کو دیکھ کر ہر ایک خوشی سے ناچ اٹھتا ہے کیونکہ وہ
لوگوں کے لیے سکھ چین کا پیغام لاتے ہیں، ان کے کھیتوں، پیلیوں کو پانی
دیتے ہیں- جبکہ سفید رنگ کے ہلکے پھلکے خوبصورت سے روئی کے گچھوں جیسے بادل
تصورات کی طرح اڑتے رہتے ہیں، کسی کے دل کو سکون بخشنا ان کا کام نہیں-
‘اچھی صورت بھی کیا بُری شے ہے
جس نے ڈالی بُری نظر ڈالی‘
خوبصورتی کا ایک اور نقصان یہ بھی ہے کہ جب گھر میں کوئی حسین لڑکی ہو تو
والدین کو چوکنا ہونا پڑتا ہے، دن رات راکھی کرنی پڑتی ہے، ویسے بھی وہ
محلے بھر کی عورتوں کے آنکھ کا تنکا بن جاتی ہے- کسی کی بیوی خوبصورت ہو تو
اس کا گھر آستین کے سانپ نما دوستوں کا اڈہ بن جاتا ہے، خاوند صاحب کو ہر
وقت کی چوکیداری سے ہی نجات نہیں ملتی- دوسری طرف بدصورت لڑکی یا عورت کے
والدین اور خاوند کو چوکیداری کی زیادہ ضرورت نہیں رہتی- آدمی تو قدرت کے
حُسن تک کو نہیں بخشتا، جہاں کوئی خوبصورت پھول دیکھا، جھٹ ہاتھ بڑھا کر
توڑ لیا، پھلوں کو چھید کر ان سے ہار تیار کیے جاتے ہیں- صرف یہیں پر اکتفا
نہیں بلکہ ان پھولوں کے پودوں کو بھی جنگل کی کھلی فضا سے اکھاڑ کر گملوں
میں قید کر دیا جاتا ہے- خوبصورت پرندے، تتلیاں، مھچلی وغیرہ ایسی کونسی
چیز ہے جو انسان کے چنگل سے بچ سکی ہے؟ ہاں، کوے، اور بھنورے کو کوئی قید
نہیں کرتا کیونکہ وہ بدصورت ہوتے ہیں-
جس طرح بیوقوف آدمی چاہے کتنے ہی قیمتی کپڑے کیوں نہ پہن لے لیکن وہ پھر
بھی بیوقوف ہی کہلائے گا- اسی طرح حُسن چاہے کتنا ہی دل کش کیوں نہ ہو،
خطرناک ہی کہلائے گا- کتنے ہی سانپ خوبصورت بھی ہوتے ہیں مگر ان میں زہر
بھرا رہتا ہے- بدصورتی کی تعریف اس سے بڑھ کر کیا ہوگی کہ کسی دانا نے کہا
ہے کہ ‘ تو تصور کی اڑان میں بہت اونچا اڑ سکتا ہے اگر کسی کی چشم آہو کے
دلفریب جال میں نہیں پھنسا ہے‘- ایک صاحب کہتےہیں کہ اگر ہماری بیوی بدصورت
ہے تو دنیا کے بہت سے لوگ ہم سے ہمدردری کرنے لگتے ہیں- دوسرے صاحب کہتے
ہیں کہ ہماری بیگم بہت سندر ہے، جب سڑک پر چلتے ہیں تو سب بیگم کو ہی
دیکھتے ہیں، ہمیں کوئی نہیں دیکھتا، سب لوگ خوبصورت بیوی کو گھور گھور کر
دیکھتے جاتے ہیں اور ہم نوکروں کی طرح ساتھ ساتھ دو قدم پیچھے چلتے رہتے
ہیں- کہنے کا مقصد یہ کہ بَدصورتی کے ساتھ ہماری عزت برقرار رہتی ہے اس
حسین دوشیزہ کے ساتھ ہم چھوٹے بن جاتے ہیں-
جس طرح اب تک مقابلہ حُسن ہوتے رہتے ہیں، اسی طرح بدصورتی کے مقابلے بھی
ہونے چاہیے تاکہ حُسن کو یہ پتہ چل جائے کہ اسکا وقت گیا، اب بدصورتوں کی
باری ہے، اب انسان دل کی بدصورتی کو پہچاننے لگا ہے- مُکدی گل، اصلی
خوبصورتی تو انسان کی شخصیت کے اندر ہوتی ہے جو کہ جسمانی بدصورتی کو بھی
حُسن اور نزاکت بخش دیتی ہے، اگر وہ نہیں ہے تو جسمانی خوبصورتی بیکار ہے-
اگر بدصورت اور خوبصورت کے پیار کو کسوٹی پر کسا جائے تو بدصورت کا پیار
اٹل اور امر ثابت ہوگا- حُسن تو یکسر بےوفائی کا پُتلا ہوتا ہے اور بدصورت
میں خلوص اور پیار- پروانے شمع کے حُسن پر فدا ہو کر گرتے ہیں اور حُسن
انہیں ختم کر دیتا ہے- بھنورا پھول کو پیار کرتا ہے اور وہی پھول اسے قید
کر لیتا ہے- حُسن سے انکساری و عاجزی و تابعداری کی امید کرنا ایسے ہی ہوگا
جیسے زہر سے آبِ حیات کی امید رکھنا-
‘ گُلوں سے خار بہتر ہیں
جو دامن کو تھام لیتے ہیں‘ |