جب معاشرے انصاف کوجنم
دیناچھوڑدیتے ہیں توبے حسی ‘لاپرواہی اورظلم کوبرداشت کرنے کی قوت بڑھ جاتی
ہے ۔پھر ایسے ان گنت واقعات بھی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں جن کی کہانی کاایک
ایک لفظ ظلم ‘بربریت‘کمینگی اوربھیانک مناظرکامنہ بولتاثبوت ہوتاہے۔ایسی
کہانی تخلیقی نہیں بلکہ حقیقی ہوتی ہے۔یہ کسی کاغذپرنہیں بلکہ انسان کے
احساسات‘خوشیوں اورمعصوم خواہشات کی قبرپررقم ہوتی ہے۔سامع کومتاثرکرنے
کیلئے اس کہانی کوکسی دردبھری آوازکی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ یہ اپنے
اندراتناکرب‘غم ‘درد اورسسکتی آہیں لیئے ہوتی ہے کہ سننے والے کوایسے
لگتاہے جیسے یہ منظر اس کے ساتھ بیت رہاہے یاپھر کوئی اس کی قوت سماعت کے
راستے اس کے اندرسیسہ پگھلاکرانڈیل رہاہے۔ہمارے گردوپیش میں ایسی کہانیاں
روزجنم لیتی اورروزتڑپ تڑپ کرجان دے دیتی ہیں۔لیکن ہمارے اندربے حسی اورخوف
نے فولادی مزاحمت پیداکردی ہے۔ایسی کہانیاں ہرلمحہ ہرسوہم سے ٹکراکرایسے
لوٹ رہی ہیں جیسے کوئی نحیف شخص لوہے کے باٹ پرجب سرمارتاہے توپرانادکھ
بھول جاتاہے۔اگر بھولے سے کوئی بشراپنے کسی حق کیلئے کسی منصف کادروازہ
کھٹکابیٹھتاہے توپھروہ اپنی بچی کھچی پونجی گنواکرنئے غم میں مبتلا ہوجاتا
ہے۔ہاں مگرجب کسی کہانی کولکھاری کے الفاظ مل جائیں یاکیمرے کی آنکھ توبس
اتناہوتاہے کہ متاثرہ شخص معروف ہوجاتاہے۔شاذونادرہی انصاف ملتاہے اوراگرمل
بھی جائے توبہت دیرسے یابہت مہنگا۔آج ایک ایسی ہی کہانی ہم بیان کرنے لگے
ہیں جس نے ہمارے انگ انگ میں کھلبلی مچادی ہے ۔ہماراقلم آزردہ ہے۔اورآنکھ
شاید اسلیئے نم نہیں کہ وہ ورطہ حیرت میں مبتلاہے کہ ہم اکیسو یں صدی میں
بھی قرون وسطی کے مظالم سہہ کرخاموش ہیں۔ظلم کے خلاف جتنی دیرسے اُٹھاجائے
اتنی ہی قیمت اداکرنی پڑتی ہے۔
20جولائی کو اخبار میں خصوصی جگہ لیئے یہ خبرنمایاں تھیں کہ سرگودھاکی
تحصیل بھلوال میں زمیندارنے اپنے ملازم کے دس سالہ بچے کوپانی نہ پلانے کے
جرم میں انتہائی بہیمانہ اندازسے کلہاڑیاں مارمارکے ادھ مواکرنے کے
بعدٹریکٹرکے روٹرمیں ڈال کرہمیشہ کیلئے سلادیا۔بچے کے والدین کوتاحال
دھمکایاجارہاہے کہ اگرتم نے زبان کھولی توتمہاری نسل ختم کردی جائے گی‘‘۔اس
سے قبل ملتان کاایک واقعہ منظرعام پرآیاتھاکہ جگ توڑنے کی پاداش میں بچے
کوانتہائی کربناک اندازمیں نیندکی وادی میں ہمیشہ کیلئے بھیج دیاگیا۔حضرت
علی فرماتے ہیں’’لوگوں سے ایسامیل جول رکھوکہ اگرتم مرجاؤتووہ تم پرروئیں
اوراگرجیؤتوتمہاری طرف مائل رہیں‘‘۔اگرہمارے حکمران چاہیں تواس زریں قول
پرمسلسل عمل کرکے اپنے آپ کودائمی حیات عطاکرسکتے ہیں۔پچھلے چندماہ میں
اکثرگھرپرکام کرنے والے بچوں پرتشددکے واقعات سامنے آئے ۔چندلمحات کیلئے
کھلبلی مچتی ہے مگرمستقل حل تلاش نہیں کیاجاتا۔ہم اس کالم کے توسط سے خادم
اعلی پنجاب سے اپیل کرتے ہیں کے بھلوال کے واقعہ کانوٹس لے کرذمہ داران کے
خلاف کاروائی کرائی جائے‘ اس ضلع کامعصوم چہرہ انصاف مانگ رہاہے جہاں سے
حکمران جماعت کی قیادت کوایک لاکھ سے زائد ووٹ ملے۔اورایسااہتمام کیاجائے
کہ شفاف تحقیق ہواور متاثرہ فریق کوسستااورفوری انصاف میسرہوسکے۔نیز اس ضمن
میں ایک بہترین اورمربوط حکمت عملی تشکیل دی جائے ۔تاکہ معصوم کلیوں
کوکھلنے سے پہلے مسلنے والوں کوعبرت کانشان بناکرایسے واقعات کاتسلسل
توڑکریہ باب ہمیشہ کیلئے بندکیاجاسکے۔بچے سب کے سانجھے ہوتے ہیں۔اگرحکومت
نے ایسے واقعات سے اغماض برتااورفاترالعقل مشوروں پرچلی تونتیجہ اچھانہیں
نکلے گا۔لوگ متنفرہوجائیں گے اورکل کوکوئی قوت اگرحکومت کے خلاف کھڑی ہوتی
ہے تویہی لوگ اسے خوش آمدید کہیں گے۔اور پھروہی ہوگاجس کی تمنانہ ہم کرتے
ہیں اورنہ ہی اہل جمہوریت۔ |