ہم بحیثیت پاکستانی کس کس بات کا
رونا روئیں؟ہم ہر لحاظ سے نان پروفیشنل ہوتے جا رہے ہیں۔اس موضوع کا آغاز
سب سے پہلے کرکٹ سے کیا جائے توبہتر ہے۔ ایک دور تھا جب ہماری کرکٹ ٹیم دو
’’ڈبلیوز‘‘ یعنی وقار اور وسیم کی وجہ سے فاسٹ باؤلنگ میں ٹاپ پر تھی۔ہماری
ٹیم میں عمران خان،اعجاز احمد،سعید انور،رمیز راجہ،محمدیوسف،عامر سہیل اور
سلیم یوسف جیسے بیٹسمین تھے تو ہم نامور رہے ۔شاہد آفریدی اگر ایک میچ میں
سکور کرتا ہے تو کوئی احسان نہیں کرتا اسے ہر میچ میں اچھا کھیلنا
چاہئیے۔ہماری ٹیم کے ہر کھلاڑی کو انفرادی کھیل دکھانا چاہیئے کیونکہ ان
کھلاڑیوں کو نہ صرف اچھا بھلا معاوضہ ملتا ہے بلکہ پوری قوم انہیں نہ صرف
کندھوں پر سوار کرتی ہے بلکہ ان کا راج قوم کے دل و دماغ پر بھی ہوتا
ہے۔شاہد آفریدی کی طرح جس کھلاڑی کو ریڈ کارڈ ملنے والا ہوتا ہے وہ کسی ایک
میچ میں پرفارمنس دیکر کئی اہم میچز میں ملک وقوم کے اعصاب پر سوار ہو جاتا
ہے۔ہمارے سلیکٹرز بھی کتنے بے حس ہیں جنہیں مصبا ح الحق کی ٹُک ٹُک نظر
نہیں آتی ،ایک ایسا کھلاڑی جو ایک سو بالز کھیل کر پچیس سکور بنائے کیا وہ
بڑا کھلاڑی ہے ؟ہر گز نہیں یہ ایک کھلاڑی نہ صرف پوری ٹیم بلکہ بورے میچ کا
بیٹرہ غرق کرتا ہے۔ویسٹ انڈیز کے خلاف حالیہ تیسرا جیتا ہواون ڈے میچ بھی
نہ صرف مصباح الحق کے عدم توازن کی وجہ سے خراب ہوا بلکہ وہاب ریاض کی گندی
باؤلنگ اور عمر اکمل کی خراب تھرو کا شکار ہوا۔میچ ٹائی ہونے پر بھی کئی
افراد خوش ہوگئے اور بڑی ہی بے وقوفانہ گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ شکر
ہے میچ ہارنے سے تو بچ گئے۔سچ کہوں تک ہمارے کھلاڑیوں سے لیکر،ٹیم سلیکٹرز
اور شائقین تک نان پروفیشنل ہیں۔جب تک ہماری ٹیم میں ایماندار اور اہل
سلیکٹرز اپنا رول نہیں دکھائیں گے تب تک اہل کھلاڑی ملکی ٹیم کا حصہ نہیں
بن سکتے۔شائقین کو بھی مصباح الحق کو داد دینے کی بجائے اسے ٹیم سے باہر
کرنے کی بات نہ کرنا بھی کھلا تضاد ہے۔ناصر جمشید،عمر اکمل اور محمد حفیظ
کی فلاپ بیٹنگ کے بعد بھی ٹیم کا حصہ ہونا بھی کرکٹ سے بہت بڑی زیادتی ہے۔
جو حکومت آتی ہے اپنے خاص لوگوں کو اتنی تیزی سے نوازتی ہے کہ نان پروفیشنل
لوگ ہر فیلڈ میں گھس جاتے ہیں۔نااہل اور نالائق افراد گیس و بجلی کے محکمہ
میں رشوت کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں،جن کو پکڑنا دل گردے کا کام ہے۔گیس و
بجلی کی چوری پکڑنا درست ہے لیکن اس سے پہلے ناجائز گیس پمپ مالکان کی پکڑ
دھکڑ بھی ضروری ہے ۔ایسے مالکان جنہوں نے رشوت دیکر شہری آباد ی میں گیس
پمپ کھولنے کے ناجائز اجازت نامے لئے نہ صرف ان کو بھاری جرمانہ ضروری ہے
بلکہ انہیں اپنا پمپ آبادی سے دور شفٹ کرنے کی وارننگ بھی دینا ایک قومی
فریضہ ہے۔گیس جنریٹر چلنے سے بھی ملک میں گیس کا بہت بڑا ضیاع ہوتاہے،اس کے
تدارک پر کام کرنا بھی حکومت کا ہی فرض ہے۔یقین کرنے ہمارے ملک میں اتنے
ترقی یافتہ دور اور میڈیا کی اتنی کثیر میں ہونے کے باوجود محکمہ واپڈا
سمیت محکمہ گیس عوام سے بھاری رشوت لیکر کر کنکشن جاری کر رہی ہے۔ہمارے پاس
ابھی بھی وقت ہے کہ ہماری حکومت چائنا اور ایران سے بجلی میں معاونت لیکر
جلد از جلد بجلی پیدا کرنے کے منصوبے جاری رکھے تاکہ ان کے پانچ سال پورے
ہونے تک نہ صرف ملکی بجلی پیدا کرنے کے منصوبے مکمل ہوں بلکہ ملک میں لوڈ
شیڈنگ کا خاتمہ ہو جائے۔انڈیا سے کسی بھی قسم کی معاونت لینا احقر کے خیال
میں حکومت کی بے وقوفی ہوگی کیونکہ یہ ایک ایسا ملک ہے جو ہمیں کسی بھی وقت
ڈاج دے سکتا ہے یا بلیک میل کر سکتا ہے۔
چھوٹے موٹے گھروں کے فرش بنانے والے مزدوروں اور مستریوں کو بڑی بڑی سڑکیں
بنانے کے ٹھیکے نواز دیئے جاتے ہیں۔پھر ان کے ذریعہ بنائی جانے والی گلیاں
اور سڑکیں پانچ چھے ماہ یاایک سال سے زیادہ نہیں نکالتیں۔ یوں نہ صرف قومی
پیسے کا ضیاع ہوتا ہے بلکہ ان نام نہاد ٹھیکیداروں کی جعل سازی کی وجہ سے
بڑے بڑے حادثات جنم لیتے ہیں۔گلی محلوں میں راشی،زانی اور بے ایمان لوگ
منتخب سیاسی جماعتوں کے کارندے بن کر عوامی خدمت کے نام سے نہ صرف علاقائی
ترقی کا کوٹہ ہضم کر جاتے ہیں بلکہ منتخب حکومت کے سیاسی دباؤ سے گلی محلوں
کا بیٹرہ غرق کرتے ہوئے اگلے پانچ سالوں میں مزید اپنی پارٹی میں ترقی کرنے
کی طرف رواں دواں ہوتے ہیں۔
تعلیمی اداروں میں تعمیراتی کام او ر سٹیشنری سپلائی میں بہت بڑے گھپلے
ہوتے ہیں جن کا کوئی آڈٹ نہیں ہوتا۔سرکاری اداروں میں خریدو فروخت میں بہت
ہی ’’بے ایمان‘‘ افراد بہت ہی ایمانداری سے اپنا فرائض سر انجام دیتے ہیں
اور سالہا سال قومی سرمائے کے خورد برد میں ملوث ہونے کے باوجود ’’پوتر ‘‘
ہوتے ہیں۔سرکاری دفاتر میں ایڈمنسٹریشن میں موجود نا اہل لوگ پروموشن اپ
گریڈیشن میں ریکارڈ ساز بے ایمانیاں کرتے ہیں مگر ان کو ماسوائے اﷲ کے زمین
پر کوئی پکڑنے کی جرات نہیں کرتا۔
ہر سال مون سون کی بارشیں پورے ملک میں بے تحاشا نقصان کرتی ہے مگر مجال ہے
جو کسی نے سیوریج کا اچھا سسٹم بنوایا ہو۔پورے ملک میں کئی جگہ دریاؤں اور
نالوں کے بند ٹوٹ کر سیلاب میں جانی و مال نقصان کرتے ہیں مگر اس کے لئے
کوئی سپیشل ٹاسک تک نہیں بنایا جاتا۔
دنیا کے تمام ممالک میں ان کے خاص ایام یا دنوں میں اشیائے صرف سستی کر دی
جاتی ہیں تاکہ کوئی عام یا غریب فرد بھی اسے خرید سکے لیکن ہمارے ملک میں
عید یا رمضان میں تمام اشیاء اس قدر مہنگی کر دی جاتی ہیں کہ کہیں کوئی
غریب یا عام آدمی کوئی چیز خریدنہ سکے۔حالانکہ ہم ایک مسلمان قوم ہیں اور
مذکورہ ممالک غیر اسلامی ممالک لیکن ہماری سوچ اور ہمارے دل میں اس بات رتی
برابر احسا س تک اجاگر نہیں ہوتا۔احقر نے اس رمضان میں 22نمبروالے سستے
بازا ر کا رخ کیا سروے کرنے پر پتہ چلا کہ وہاں نہ صرف تمام اشیاء مہنگی
ہیں بلکہ جو سستی ہیں وہ خریدنے کے قابل نہیں۔ہمیں سستے بازار لگوانے والے
وزیراعلیٰ پنجاب کی نیت پر کوئی شک نہیں لیکن ان سستے بازاروں کی انتظامیہ
اور نگرانوں کی کرپشن اورنان پروفیشنل ہونے کا یقین ضرور ہے۔
پاکستان کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ یہاں زندگی کے ہر شعبہ میں پروفیشنل
افراد کا جال بچھا دیا جائے تاکہ ملک دن دگنی رات چوگنی ترقی کرے۔ |