خطروں سے کھیلناحضرتِ انساں کا مشغلہ رہا ہے۔ پہاڑی
چوٹیاں سر کرنا ہو،یا خطرناک مقامات پر اسکیٹنگ کرکے گہری کھائیوں کو عبور
کرنا، شیر،ہاتھی، گینڈوں،مگرمچھ اور سانپوں سے دو دو ہاتھ کرنا ہویا پھر
آسمان کی بُلندیوںسے ہوا میں چھلانگ لگانا، مُکے بازی کا کھیل ہو یا ریسلنگ،
خون بہائے یا خون بہے ، ان تمام خطرات میںحضرتِ انسان نے کبھی اپنی جان کی
پروا نہیں کی۔اس طرح کے خطرناک کھیلوں میں سے ایک، بل فائٹنگ بھی ہے،جسے
خونی کھیل بھی کہا جاتا ہے۔ اس کھیل میں ہر لمحہ موت انسان اور بھینسے کے
ساتھ محوِ رقص رہتی ہے۔ بل فائٹنگ کا آغاز اسپین سے ہوا، جہاں جیل میں جب
کسی خطرناک مجرم کو سزا دینی ہوتی، تو اُسے خطرناک جنگلی بھنسے کے آگے ڈال
دیا جاتا اور بھینسا اسے ٹکریں مار مار کر ہلاک کردیتا۔ مجرم اگر لڑنے
بھڑنے کا ماہر ہوتا، تو بھینسے سے بھڑ جاتا۔ اگر وہ اس پر قابو پالیتا، تو
رہائی مل جاتی، لیکن زیادہ تر مجرم زندگی ہی سے رہائی پا جاتے اور بے چارے
مرنے سے پہلے زخموںکی اذیت الگ اُٹھاتے۔ دیکھنے والوں کے لیے یہ محض ایک
تماشا ہوتا، لیکن مجرموں کی موت خود ان کے لیے تماشا بن جاتی۔ وقت گزرنے کے
ساتھ ساتھ اس نے ایک کھیل کی شکل اختیار کرلی۔ بل فائٹنگ، میکسیکو، فرانس
اور پرتگال میں بھی بہت مقبول ہے، لیکن اس کا اصل مرکز، اسپین ہی کو کہا
جاتا ہے، جہاں سارا سال، اس کے مقابلے ہوتے رہتے ہیں۔ جنگلی بھینسے اور
انسان کے درمیان ہونے والے خون ریز مقابلے کا نتیجہ بھینسے کی موت یا انسان
کے زخمی ہونے کی صورت میں نکلتا ہے، لیکن دیکھنے والوں کے لیے یہ صرف ایک
تماشے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ بل فائٹنگ کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے، تواس
کا آغاز قرون وسطیٰ سے ہوا، جب 711 قبلِ مسیح میں یونان میں کھیل کی شکل دے
کر اسے لوگوں کی تفریح کے طور پر شروع کیا گیا۔ ابتدائی دور میں، بھینسوں
کا سامنا ماہر تلوار زن کیا کرتے اور مقابلے کُھلے میدان میں منعقد کیے
جاتے تھے، جہاں شائقین کی ایک بڑی تعداد انہیں دیکھنے کے لیے موجود ہوتی۔
پُرانے زمانے میں یہ خونی تماشے سپاہیوں کو خاص طور پر دکھائے جاتے تاکہ
میدان میں ان کا خون گرم رہے۔ یعنی، اس طرح کے خونی مقابلوں کا مقصد،
سپاہیوں کو میدانِ جنگ کے لیے تربیت فراہم کرنا تھا۔ اسپین میں بل فائٹنگ
کا آغاز سب سے پہلے شہنشاہ الفانسو ہشتم کی تاج پوشی کے موقع پر ہوا۔
ابتدائی ادوار میں، بل فائٹنگ گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر کی جاتی تھی اور
اُمراء خاندان سے تعلق رکھنے والے ہی اس میں دل چسپی رکھتے تھے۔ شہنشاہ
ہفتم کے دور میں اس کھیل کو خونی قرار دے دیا گیا اور کافی عرصے تک اس کھیل
پر پابندی رہی۔ بعد میں آنے والے بادشاہ نے یہ پابندی ختم کردی۔ چوں کہ یہ
کھیل شروع میں گھوڑوں اور ہتھیاروں کی مدد سے کھیلے جاتے تھے، اس لیے عام
لوگوں کو اس میں قطعاً دل چسپی نہ تھی۔ یہ کھیل، اُس وقت عوامی توجّہ کا
مرکز قرار پایا، جب اسے ہتھیاروں اور گھوڑوں کے بغیر کھیلا جانے لگا۔ 1726ء
میں یہ خواص سے نکل کر عوامی کھیل کا روپ دھار چکا تھا اور پھر دیکھتے ہی
دیکھتے یہ اتنا مقبول ہوا کہ پورے یورپ میں اس کی دھوم مچ گئی اور اس نے
وہاں بھی اپنی مقبولیت کے جھنڈے گاڑ دیے۔ اسے بغیر ہتھیاروں اور گھوڑوں کے
جس شخص نے مقبول ہونے میں مدد دی، اُس کا نام تھا، فرانسسکو رومیرو۔ اس کا
تعلق اسپین سے تھا۔ یہ بڑا بہادر اور دلیر نوجوان تھا، اس نے بل فائٹنگ کے
کھیل کو نئے آہنگ سے روشناس کروایا اور اس میں نت نئے انداز کے ذریعے لوگوں
کو اس کھیل کی طرف راغب کیا۔ اسپین کی شناخت بل فائٹنگ ہی ہے۔ یہاں بل
فائٹنگ کا آغاز مارچ کے مہینے سے ہوتا ہے اور اکتوبر تک اس کے مقابلے جاری
رہتے ہیں۔ مقابلے شروع ہونے سے پہلے ہی اس کی تشہیر ہونے لگتی ہے اور دنیا
بھرمیں اس کھیل کے شائق کثیر تعداد میں اسپین کارُخ کرتے ہیں،جہاں وہ ان
مقابلوں کے خونی مناظر سے پوری طرح لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس کھیل میں بھینسے
کو تو مرنا ہوتا ہی ہے، کہ کھلاڑی اس کے جسم میں چھوٹے چھوٹے نیزے گاڑ دیتے
ہیں، لیکن غصّے میں بھرا ہوا بھینسا اپنا بدلہ اس طرح لیتا ہے کہ کئی
کھلاڑیوں کو اپنے نوکیلے سینگوں سے لہولہان کردیتا ہے اور مرنے سے پہلے کئی
ایک کی جان بھی لے لیتا ہے۔ |