برداشت ا ور عفوودرگزرہی معراجِ انسانیت ہیں ....!!عدم
برداشت تباہی اور بربادی ہے
آج یہ بات ہراِنسان کو اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ ہماراکوئی بھی
اچھااور نیک عمل رائیگاں نہیں جاتاہے، اوراِ س کا (دنیا اور آخرت میں)صلہ
ضرورملتاہے، بس اِنسان کو عالمِ انسانیت کے لئے ہر اُس اچھے اورنیک کاموں
کے لئے متحرک رہناچاہئے،جس سے بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچے،اِس جذبے سے
مزین ہر اِنسان اپنے آپ کویقینی طور پرخُوب صورت اور خو د کو خُوب سیرت بھی
بناسکتاہے،جب کسی بھی معاشرے کا اِنسان اپنے اندار بنی نو ع انسان کو فائدہ
پہنچانے کی سوچ اخیتارکرلے گاتو پھروہ خود کو خُوب صورت اورخُوب سیرت بنانے
کا بھی عزمِ صمیم کرے گا، تو جہاں یہ ایساکرے گے تو وہیں دنیا کے ہر معاشرے
میں فلاح و بہود کا عنصر بھی غالب آجائے گا، اوروہیں معاشرے بھی ا من و
سکون کا گہواربن جائیں گے، اورجب معاشرے امن و سکون کا گہوارہ بن جائیں گے
تواِنسانیت راحت و سکون کے اُس عظیم مقصد کو پالے گی، جس کی تلاش میں یہ
روزِ اول سے خاک چھان رہی تھی۔
آج اگرعالمِ انسانیت یہ بات بھی سمجھ لے کہ اِس کی اصل کیا ہے...؟اور
موجودہ حالات میں یہ بھٹک کر کس سمت میں جارہی ہے...؟ جہاں سے ذلت و رسوائی
اورکشتُ خون کے سوااِس کے ہاتھ کچھ نہیں آرہا ہے، تو ایسے میں اِسے چاہئے
کہ یہ اِس معاملے کو فوقیت دے ، جس سے دنیا میں خوشگوار تبدیلی رونماہو،اور
ایساکرنے کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ یہ اُن چھوٹی چھوٹی برائیوں کو دفن
کرکے زیادہ سے زیادہ اچھے و نیک اوربھلائی کے کاموں کو ترجیح دے،جس سے اِسے
سکون و راحت نصیب ہوں، اوراپنے اندر صبروبرداشت اور عفوودرگزر کا وہ جذبہ
بیدارکرے ، جسے اپنانے سے اِنسان کو معراج نصیب ہوتی ہے۔
ایک بات جو میں اکثرسوچتاہوں وہ یہ ہے کہ جب اِنسان کے ارادے اور
بلندمقاصداِس کے کردار حصہ بن کر اِس کی ذات کی عکاسی کرنے لگیں تواِسے
اپنے آپ کو بہت سنبھالنا پڑتاہے اور جو اِس اُترجائے تو پھر یہی اِنسان بعض
موقعوں پر عدم برداشت کے باعث منہ کے بل گرپڑتاہے ، اِس کے ساتھ ایساکیوں
ہوتاہے..؟اِس ایک نقطے کو سمجھنابہت ضروری ہے ،کیا اِس کی وجہ اِس کی
نفسیاتی کوئی بیماری ہے..؟یا یہ اِس کی عادت کاکوئی شرارتی حصہ ہے..؟جس کا
نقصان نہ صرف اِسے پہنچتاہے بلکہ جس معاشرے میں یہ رہتاہے،اِس کے منفی
اثرات اِس پر بھی مرتب ہوتے ہیں ،اگر یہ دونوں چیزیں کسی معاشرے میں رہنے
والے کسی اِنسان یا ایک جیسے کئی لوگوں میں پائی جائیں تو اِس کا ضرورپتہ
لگایا جائے کہ یہ ایسے لوگوں کی نفسیاتی بیماری ہے یایہ اِن کی عادت تونہیں
ہے...؟اور جب معلوم ہوجائے تو پھر کیوں ناں اِن کا کوئی ایسا ممکن علاج
ڈھونڈاجائے کہ کسی ایک شخص یا گروپ کی وجہ سے مُلک اور معاشرے اخلاقی،
سماجی، مذہبی، سیاسی اور اقتصادی تباہ کاری سے بچ جائیں۔
آج میرے مشاہدات میں یہ بات باکثرت آئی ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک اور خطوں
کی نسبت میرے خطے وطن پاکستان میں بسنے والوں میں عدم برداشت کا عنصر کچھ
زیاہ ہی غالب ہے،اورآج یوں پاکستان کے چارصوبوں سمیت وفاق میں جتنے بھی لوگ
آباد ہیں،وہ ایک دوسرے کی ہلکی پھلکی بُری بات تو کیا کسی کی اچھی بات بھی
جلدی سے برداشت کرنے کو تیارنہیں لگتے ہیں، اِن کی مزاجِ میں خوشگواری ،
نرم گوئی ، شگفتگی و چاشنی، محبت اور اُلفت جیسے دوبول کا فقدان پیداہوگیا
ہے، میرے دیس کا ہر فرد عدم برداشت کی اُس سطح پر پہنچ چکاہے، جہاں کے بعد
صرف پاگل پن کی حدشروع ہوجاتی ہے، میری بات پر کسی کو یقین نہیں آتاہے تو
خود ہی آزماکر دیکھ لے...! کہ آج ہم اور ہمارامعاشرہ عدم برداشت کی کس حد
کو چھورہے ہیں۔
جبکہ آج میں پورے یقین سے یہ بات کہہ سکتاہوں کہ میرے اردگرد موجود شائد ہی
کوئی ایسادیدہ ور موجودہو، جو میری مندرجہ بالا اور اگلی سطور میں رقم کی
گئیں باتوں سے اتفاق نہ کرے ، مگرمجھے اِس بات کا بھی پورادراک ہے کہ وہ
بھی میری طرح یہ ضرورروزسوچتاہوگا، کہ کاش میرے دیس کے ہر شخص کواِنسا ن
اور اِنسانیت کے مقام کو سمجھنے کا موقع مل جائے، اور وہ اِس جانب ذراسی
توجہ دے ، تومیرے مُلک کا ہر فرد اپنے دل و دماغ میں بسے عدم برداشت کے
عنصر کو چھینک(منہ اور ناک کے راستے نکال) دے گا، اور میرے مُلک کابھی ہر
فرداِنسانیت کی اُس معراج کو پہنچ جائے گا، جہاں سے اِنسانیت عالمِ کل کو
امن و سکون کا گہوارہ بناسکتی ہے ۔
گزشتہ 66برسوں اور بالخصوص چنددہائیوں سے میرے مُلک میں قتل و غارت گری،
دہشت گردی، فرقہ واریت، لسانیت ، گروہ بندی، بم دھماکے، خودکُشی کے واقعات،
اور قدم قدم پر بھوک و افلاس اور تنگدستی کے رینگتے سانپوں کے درمیان
معاشرے کے لوگوں میں جو کرپشن اور لوٹ ماروبائی شکل اختیارکرگئی ہے، اس کی
بھی ایک بڑی وجہ عدم برداشت ہے۔
آج میرے مُلک کے قومی اداروں (جہاں قوانین بنتے ہیں، جہاں اِنسانیت کی فلاح
و بہود کے لئے لاز کی شکلیں نکھاری جاتی ہیں اُن سب )سے لے کر کسی دور دراز
صحراء اور پہاڑاورمیدان و جنگل کے ویرانوں میں بنی جھونپڑیوں میں بسنے والے
انسانوں تک میں عدم برداشت کا جادوسرچڑھ کر بول رہاہے ، تب ہی میرے مُلک کے
قومی ادارے اور غریب اِنسان بے راہ روی کے شکارہیں، آج ہمیں اپنی اصلاح
کرنی ہے ، تو پھر یہ بہت ضروری ہے ، کہ ہمیں جس قدر جلدممکن ہوسکے، اپنے
اندر پلنے والے عدم برداشت کے ناسور کونکال باہر پھینکناہوگا، جب تک ہم نے
ایسانہ کیا تو ہم یہ جانتے ہوئے بھی کہ برداشت اورعفوودرگزرہی اِنسان
اوراِنسانیت کی معراج ہے ہم اپنے سینوں میں بھرکنے والی فرقہ واریت، کہیں
لسانیت اور اِسی طرح کہیں گروہ بندی کی عدم برداشت کی آگ میں بھسم ہوتے
رہیں گے،اور ایک وقت ایساآجائے گا۔جب ہم اپنا نام و نشان صفحہ ہستی سے
مٹاچکے ہوں گے، تب ہمارے ہاتھ سوائے پچھتاوے اور ہاتھ ملنے کے کچھ نہیں آئے
گا۔ |