رب نے زندگی کے اصول متعین کر دیے ہیں ،ہم ان اصولوں سے
تجاوز نہیں کر سکتے ،یہ رب کی قدرت ہے کہ اس نے د نیا کو پھولوں اور کانٹوں
سے سجایا ہے ہم زندگی کو صرف آسانیوں اور آسائشوں سے مزین نہیں کر سکتے
،جب ہماری خواہشات حد سے بڑھتی ہیں،ہمارے اعمال اصول زندگی کو فراموش کر
دیتے ہیں تو اس کا انجام تبائی کی صورت ہی نکلتا ہے۔جب سمند راپنی حدیں
توڑتا ہے تو سونامی کی شکل اختیار کرتا ہے ، جب آگ اپنی حد سے نکلتی ہے
انسان کے لیے کھانا بنائے کی بجائے انسان کو اپنا کھانا بنا لیتی ہے، لیکن
جب انسان اپنی حدیں توڑتا ہے تو اس کی زندگی سے سکون ختم ہوجاتا ہےاور رات
کے طویل سائے زندگی کو اپنے حصار میں جھکڑ لیتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ اب
کبھی صبح نہیں ہوگی ،لیکن قدرت نئی شروعات کا انتظام کر رہی ہوتی ہے،اپنی
خدائی کو قائم رکھنے کے لیے رب کونئے انسان لانے سے کوئی گریز نہیں،جب
بادشاہ رب کی برابری پر اُتر آتے ہیں تو وہ غلاموں کو بادشاہ بنا لیتا ہے۔
قرآن مجید میں رب نے زندگی گزارنے کے اصول متعین کر کے صاف الفاظ میں
تنبیہ کر دی کہ
یہ ہیں رب کی حدیں ان کے پاس بھی نہ پھٹکناؔ
پوری دنیا جہاں اسلام قبول کیے بغیر قرآن کے اصولوں کو اپنا رہی ہے ہم اِن
اصول سے دور ہوتے جا رہے ہیں ،ہمارا معاشرہ ہو یا گھرہر کوئی اپنی مرضی
چلانے کا اس قدر خواہاں ہے کہ بڑے وثوق سے کہتا ہے ،اسلام پر عمل کرنا اس
معاشرے میں ممکن نہیں،یہ وہ دور ہے کہ آپ کسی کا راستہ کاٹ کر آگے نہیں
بڑھوگے تو کوئی آپ کا راستہ کاٹ لے گا،ترقی کا معیار یہ ہے کہ کون پہلے
دھوکا دیتا ہے،اکثر سب یہی کہتے نظر آتے ہیں کون سا اصول پیسہ ہی اصول
متعین کرتا ہے،پیسہ سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کر سکتا ہے۔ہمارے معاشرہ
میں رب کی حدیں نظر انداز کر دی گئی ہیں ،یہی وجہ ہے کہ ناحق بچوں کا قتل
کیا جاتا ہے ،روز نہ جانے کتنے معصوم لوگ قتل ہو جاتے ہیں لیکن محض ایک دن
کی خبر بن کر دوسرے دن فراموش کر دیے جاتے ہیں،ایسا کیوں ہو رہا ہے؟یہ وہی
پاکستان ہے اس کا خواب دیکھا گیا تھا،آج ہمارا ملک سود پر چل رہا ہے ،رب
نے صاف فرما دیا تھا کہ سود کا کاروبار کرنے والا اللہ اور اس کے رسول کا
دشمن ہے،لیکن ہم سوچنے کو تیار نہیں کہ ہم اپنی تبائی کا انتظام خود کر رہے
ہیں۔
ہر کوئی سیاست دانوں کو کرپٹ ،جھوٹا کہتا دیکھائی دیتا ہے،سیاست دان کون
ہیں،کہاں سے آئے ہیں ،کیا آگر ہم اُن کی جگہ ہوں توآن کی طرح رقوم جمع
کرنے اورخود کو مراعات دلانے کی نہ سوچیں۔جیسی پرجا ہوتی ہے ویسا ہی راجہ
ہوتا ہے۔یہ ہمارے لوگ ہیں ہم اِن سے اور یہ ہم سے ہیں۔ہمیں اپنا جائزہ لینا
ہو گا۔ہم باتوں میں ہر چیز کو پورا کرنے کے عادی ہیں لہذا ہر جیز کا بہانہ
ہمارے پاس ضرور ہوتا ہے۔انسان کی خوبی ہے کہ وہ کوئی کٹپتلی نہیں اس میں
فیصلہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے ہمیں جو وراثت میں برائیاں ملیں ہیں ہم ان
سے پیچھا چھڑا سکتے ہیں۔ایسا کرنا مشکل ہے ناممکن نہیں۔ اگر ہم بہانے
تراشنے میں مصروف رہیں گے تو قدرت اپنے طریقے سے انتقام ضرور لیتی ہے۔جس
طرح ایران کے ایک بادشاہ نے اپنے ایک ممعار خپل سے اس کے جھوٹ، مکاری اور
کام چوری پر لیا۔جو ہر اس انسان کے لیے سبق ہے جو اپنی حدوں کو توڑتا ہے
اور اصول زندگی کو فراموش کئے دیتا ہے ۔
ایران کی ایک لوگ داستان میں ایک بادشاہ نے اپنے محل کی تعمیر کا حکم اپنے
ایک معمار کو دیا جسے تمام سامان اور مزدور مہیا کر دیے گئے،اسے دوسال کا
وقت دیا گیا لیکن اس نے وہ وقت مزدوروں کے ساتھ خوش گپیاں کرتے گزار
دیا،بادشاہ نے جب دوسال چار ماہ گزرنے پر اس معمار خپل کو بلایا اور محل کو
پوچھا تو وہ بادشاہ کی تعریفوں کے پل باندھتے ہوئے محل کی تعمیر کا بتانے
لگا کہ بادشاہ سلامت بس تھوڑا کام رہتا ہے ۔ایک دو ماہ میں مکمل ہو جائے
گا،بادشاہ نے محل دیکھنے کا ارادہ کیا ،جب بادشاہ کو سخت مایوسی ہوئی تو
بادشاہ نےخپل کو سزا دینے کی ٹھانی ،ایسی سزا جو باقی لوگوں کے لیے سبق
ہو،بادشاہ نے خپل سے کہا کہ وہ اسے اپنے محل کی سیر کروائے۔
خپل نے پھر اپنی چرب زبانی کا سہارا لیا اور بادشاہ کو محل دیکھانا شروع
کیا،باغ کی جگہ محض جھاڑہاں اور کانٹے تھے، پول کی جگہ ایک گھڑا تھا جس میں
بارش کا پانی بھرا تھا،دربار کی جگہ بادشاہ کے بیٹھنے کی کوئی جگہ نہ
تھی۔بادشاہ نے خپل کو حکم دیا کہ پول میں نہائے ،جو کہ گندے پانی کا گھڑا
تھا اور جب تک کہا نہ جائے پانی سے سر اوپر نہ کرے ،بہت دیر تک پانی میں
رہنے کے بعد بُری حالت میں جب خپل باہر نکلا تو اسے حکم دیا گیا کہ وہ باغ
سے ایک خوبصورت گلد ستہ بنائے اور اسے اپنی محبوبہ کو دے کر آئے ،کانٹے
اور جھاڑیوں سے بنا ہو گلد ستہ جب خپل اپنی محبوبہ کو دینے کے لیے جانے لگا
تو بادشاہ سلامت نے خپل سے کہا اس گل دستہ کی خوشبو سونگھتے ہوئے جانا اور
سپائیوں کو حکم دیا کہ یہ اگر ناک کُھجائے تو اسے جان سے مار دینا،خپل کو
جھاڑیاں اور گندی گھاس ناک پر لگانے سے شدید کھجانے خواہش پیدا ہوئی لیکن
وہ ناچار اور بے بس تھا۔جب واپس آیا تو بادشاہ نے خپل کو حکم دیا کہ وہ
خود کو تین دن کے لیے بادشاہ سمجھے اور بادشاہ کی کرسی پر بیٹھ جائے ،جو
حقیقت میں وہاں پر موجود ہی نہیں تھی،خپل نے بہت کہامیں آپ کی جگہ نہیں
نہیں ،کہاں آپ کہاں نا جیز مگر بادشاہ نے فیصلہ کر لیا،سپائیوں کو حکم دیا
کہ اگر یہ کرسی سے اُٹھے تو اس کی پوزیشن تیروں سے درست کی جائے ،اسے باغ
سے پھل اور پول سے شفاف پانی پلایا جائے۔خپل اس طرح بیٹھ گیا جس طرح کہ
کرسی پر بیٹھتے ہیں،مگر درد اور تکلیف کے باعث ہلنے پر تیروں سے سپائی اس
کو سلامی دیتے تین دن میں اُسے گندہ بارش کا پانی اور کھانے کو گھاس دی
گئی،لوگ اسے آ آ کر دیکھتے وہ نہ نظر آنے والی کرسی پر بیٹھا اپنے کیے
پر آنسو بہا رہا ہوتا،اس کے مزدور اس پر ہنستے۔ وہ اپنے کیے پر نہائت
شرمندہ تھا۔ہماری قوم میں ہر کوئی آج خپل کی طرح ہے،رب کی طرف سے جب
سزائیں ملتی ہیں تو ہم چیختے ہیں،لیکن یہ سزائیں کیوں ہمارا مقدر ہیں اس کے
متعلق سوچنے کو تیار نہیں۔ہم وہ اصول بھول چکے ہیں،جو ہماری حدیں متعین
کرتے ہیں،تاریخ گواہ ہے کہ جو لوگ حدوں کو پار کرتے ہیں ہے وہ عبرت بن جاتے
ہیں، ہمیں عبرت بننا ہے یا قابل عمل نمونہ یہ ہمیں طے کرنا ہے۔جب ایک آدمی
پوری دنیاسنوارنا چاہتا ہے تو یہ اس کے لیے ممکن نہیں ہوتا لیکن جب ایک
آدمی خود کو ٹھیک کرنا چاہتا ہے تو اس کی دنیا ضروربہتر ہو جاتی ہے،بلکل
اس گلاب کے پھول کی طرح جو پوری دنیا میں تو اپنی خوشبو نہیں بھر سکتا لیکن
اس کے اردگرد خوشبو لازمی ہوتی ہے۔ہمیں اپنے اندر کی خوشبو کو ابھارنا ہو
گااور رب کی حدوں کو قائم رکھنا ہو گا،ورنہ ہماری جگہ وہ لوگ لے لیں گے جو
رب کی حدوں کے پاس بھی نہیں جاتے۔ |