ہم بحیثیت قوم اس وقت کئی طرح کے مسائل کا شکار ہے جن میں
سے کچھ تو یقینا غیروں کی مسلط کردہ ہیں جن سے پوری قوم متاثر ہے لیکن
ہمارے اپنے پیدا کردہ مسائل بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ جن میں سب سے بڑا مسئلہ
اکثریت کے خیال میں کرپشن ہے بلکہ میں تو اسے ’’ام المسائل‘‘ خیال کرتی ہوں
کیونکہ اس نے پورے معاشرے کو جس طرح جکڑا ہوا ہے اس نے خرابیوں کا ایک نہ
ختم ہونے والا سلسلہ چلا رکھا ہے جس میں اوپر سے نیچے تک ہر ایک بقدر ہمت
اوست کے مطابق مصروف عمل ہے اور شخصی زندگی سے لے کر ریاستی عوامل تک اس کے
زیر اثر ہیں ۔حق بات یہ ہے ہم بحیثیت قوم راشی ترین قوم کا خطاب بڑی خوشی
سے قبول کر چکے ہیں اور ہر طرح سے اس عالمی ٹائٹل کی حفاظت کر رہے ہیں ۔
ہماری اکثریت ایک دوسرے کی کرپشن کے متاثرین ہیں اور شاید کچھ ایسے بھی
ہیںہم میں سے، جو اس عفریت سے نجات حاصل کرنے کے لیے دل سے کوشاں ہیں لیکن
ان کو ششوں کو کامیابی تب مل سکے گی جب اسے کرنے والا اپنی راہ درست رکھے۔
آج کل میڈیا میں جن بڑے بڑے کرپشن کیسز کا ذکر خیر چل رہا ہے اُن میں ایک
ای او بی آئی اور ڈی ایچ اے کا کیس ہے۔ ڈی ایچ اے ایک ادارہ ہے جو ملک میں
معیاری رہائشی سکیمیں بنانے کے لیے خاصی اچھی شہرت رکھتا ہے اور ای او بی
آئی ریٹائرڈ پرائیویٹ ملازمین کے لیے کام کرنے والا ادارہ ہے اس ادارے نے
ڈی ایچ اے سے بائیس ارب روپے کے کمرشل پلاٹس خریدے ، یہ سودا ستمبر 2011
میں کیا گیا اور بقول ڈی ایچ اے کے یہ پلاٹ سستے داموں دیے گئے جبکہ ای او
بی آئی کے مطابق یہ زمین زیادہ قیمت پر دی گئی یعنی ترقیاتی کام ہونے کے
بعد کی قیمت پر جبکہ یہ ساری زمین بنجر اور بیابان پڑی ہوئی ہے اور کوئی
ترقیاتی کام نہیں ہوا ۔ بات عدالت تک پہنچی اور عدالت نے فیصلہ دیتے ہوئے
ڈی ایچ اے کو دو دن کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ وہ یہ رقم ای او بی آئی کو
واپس کرلے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں اس کے اثاثے ضبط کرنے کا حکم دے
دیا ۔ عدالت کے فیصلے کے بعد بھی ڈی ایچ اے اپنے موقف پر قائم ہے کہ یہ
کمرشل پلاٹس مکمل طور پر قابل استعمال ہیںیہاں ترقیاتی کام ہو چکے ہیں
اوراسے کم قیمت پر فروخت کیا گیاہے۔ معاملہ جو بھی ہے لیکن عدالت کو فیصلہ
دیتے وقت کچھ باتوں کا خیال ضرور رکھنا چاہیے تھا کہ ڈی ایچ اے سے ہزاروں
افراد کا رزق وابستہ ہے اور رمضان اور عید کے مہینوں میں انہیں اپنے اور
اہل خانہ کے لیے رقم درکار ہوگی جس کا انکی تنخواہ کے علاوہ ان کے پاس کوئی
دوسرا ذریعہ نہیں ہے اور اگر ادارے نے کوئی غلط کام کیا بھی ہو تو اُس میں
ان تنخواہ دار ملازمین کانہ تو مشورہ شامل ہوگا نہ معاونت یہ عام آدمی تو
ویسے ہی مہنگائی کا مارا ہوا ہے جس کی تنخواہ بمشکل اُس کی ایک ماہ کی
ضروریات پوری کر سکتی ہے اور چھوٹے ملازمین تو یقینا مہینے کے آخر میں
کھاتوں پر چلتے ہیں اور اگلے مہینے کی تنخواہ میں سے ایک بڑا حصہ پرچون
والے کا پچھلے ماہ کا بل ادا کرتے ہیں لہٰذا اُن کا لحاظ اور خیال انتہائی
ضروری ہے کیونکہ انصاف سب کے لیے برابر ہونا چاہیے ۔ اور یہ مسئلہ اتنا
کنجلگ بھی نہیں ہے کیونکہ زمین اسکی پلاٹنگ اور وہاں ہوئے ترقیاتی کاموں کا
جائزہ لے کر عوام کو اس سے آگاہ کیا جا سکتا ہے اور یوں مدعی اور مدعاعلیہ
میں سے درست اور غلط کا با لکل صحیح اور مبنی بر انصاف تعین کیا جا سکے گا۔
ڈی ایچ اے سے بہت سے لوگوں کو بہت سی شکایتیں ہونگی لیکن اس بات سے کسی کو
انکار نہیں کہ وہ ترقیاتی کاموں کے لیے لی گئی رقم سے اپنی ہاوسنگ سو
سائیٹیوں کی بہتری پر خرچ کرتے ہیں اور اپنے کسٹمرز کو صاف ستھرا ماحول اور
ضروریات مہیا کر کے انہیں مطمئن رکھتے ہیں لیکن اگر اس کے اثاثے منجمد
ہونگے اور اُس کے لیے تنخواہیں دینا ممکن نہ رہیں گی تو وہ اپنے معیار کو
کیسے قائم رکھ سکے گا اور کچھ ہی عرصے میں ان سوسائیٹیوں کے حالات بھی کسی
بھی عام ہاوسنگ سکیم جیسے ہو جائیں گے اور ایک تجارتی عمل بھی رک جائے گا۔
اس معاملے کی تحقیقات کو اگر کسی تعصب کے بغیر از سر نو کیا جائے توشاید
معاملے کو کسی بہتر انداز میں سلجھا یا جا سکے اور نہ ڈی ایچ اے سکیموں کے
رہائشی متا ثر ہوں اور نہ ہی اسکے تنخواہ دار جو صرف اور صرف اپنی رزق روزی
کے لیے اس ادارے سے وابستہ ہیں اور نہ اس کے فیصلوں میں شامل ہیں نہ بزنس
میں۔ ہاں طرفین میں جو بھی مجرم ہو اُس کو ضرور سزا دی جانی چاہیے کیونکہ
کرپشن پیسے کی صورت میں ہو یا کسی اور فعل اور عمل کی صورت میں اس کو
معاشرے سے نکالنا ہوگا اور ذمہ داروں کو سزا بھی دینا ہوگی لیکن اس کام کو
اس قدر شفاف طریقے سے ہونا چاہیے کہ سزا صرف ذمہ دار کو ملے اور چاہے وہ
کوئی بھی ہو جس ادارے میں ہو اورجس عہدے پر متمکن ہو تاکہ ملک کو کرپشن کی
عفریت سے نجات دلائی جا سکے اور ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل کو ممکن بنایا
جا سکے۔ |