دکھ درد بٹانے والے، مصیبت کے
وقت کام آنے والے ، آنسوؤں کا سبب بننے والے حالات کے آگے کسی کی خاطر بندھ
باندھنے والے اور سب سے بڑھ کر کسی کے لئے آسانی پیدا کرنے کی خاطر خود کو
مصیبت تک میں ڈالنے والے کو ہمدرد کہتے ہیں۔ کسی کی ہاں میں ہاں ملادینا یا
چند گھڑیاں پاس بیٹھ کر گزرار دینا ہمدردی نہیں کہلاتا۔ ایک مصیبت زدہ کے
ساتھ خود بھی دن اور رات خود کو مصیبت میں مبتلا کر لینا ہی حقیقتََا ہمدرد
ہوتا ہے۔ بعض اوقات مجبوریاں اور بندشیں ایسی ہوتی ہیں کہ ایک شخص کسی
کیلئے کچھ نہیں کر سکتامگر اندر ہی اندر کڑھتا ضرور ہے۔ وہ بھی تو ہمدردی
میں ہی ایسا کر رہا ہوتا ہے ایک شخص ظاہراََ تو کہیں نظرنہیں آ رہا ہو تا
مگر مظلوم کو ڈھارس بندھا رہا ہوتا ہے۔ بچے کی اس جہانِ فانی میں آمدکے
ساتھ ہی اس کے ساتھ کچھ ہمدرد سامنے آنا شروع ہوتے ہیں کسی کو دادا ، دادی
،چچاؤں سے زیادہ ہمدردی ملتی ہے اور کسی کے لئے نانا، نانی ،خالہ اور ماموں
دید ہ دل فرش راہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔سکول میں کسی استاد کی شفقت اس
کیلئے ہمدردی کا روپ دھارتی ہے اور شباب کاعالم سامنے آ جاتا ہے۔ یہ ایسا
جذبہ ہوتا ہے جس کی نہ تو کسی سے فرمائش کی جا سکتی ہے اور نہ حد سے زیادہ
توقع یہ ربِّ عظیم کی طرف سے کسی کے دل میں کسی کیلئے ڈال د ی جاتی ہے۔ سفر
کی تیزی میں اور حالات کی دھند میں ہمیں اپنے ہمدرد وں کو کبھی نہیں بھولنا
چاہئے۔ ہمدرد سے ملنا روزضروری نہیں ہوتا۔ آپ جب بھی سالوں بعد ،کبھی کبھار
بھی مل جائیں تواس کا چہرہ خوشی سے کھِل اٹھے گااور سالوں کے فاصلے اس کی
مسکراہٹ میں حل ہو جائیں گے، ربِ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اورجسے چاہے ذلت
، رزق تک کا ذمہ خود لے رکھا ہے تو ہمارا کام توصرف اورصرف ہمدردی ہی رہ
جاتا ہے۔ آج ہم نے عیب جوئی ، غیبت اور خواہ مخواہ کسی کی ترقی خوشحالی اور
دولت مندی کو موضوع بحث بنایا ہوا ہے درحقیقت ہم نے ہمدردی کو موضوعَ سخن
بنانا تھا۔ کسی کے راستے کے کانٹے چننے کی تدبیریں سوچنے کیلئے وقت کو صرف
کرنا تھا۔ آہوں سسکیوں کو خوشیوں میں بدلنے کیلئے کام کرنا تھا۔ کیونکہ
علامہ محمداقبال ؒنے بھی انسان کا مقصد یہی بیان کیا ہے۔
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ اطاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
حال ہی میں یورپ سے آئے ایک دوست نے چند ماہ یہاں گزارے اور ان کی اس بات
نے مجھے چونکا دیا کہ دیارِ غیر میں ہم بم دھماکوں ، فائرنگ اوردہشت گردی
کے واقعات میں ہم وطنوں کی جانوں کے نذرانے دینے پر ہر وقت متفکر رہتے ہیں
مگر یہاں آ کر تو ہم نے کسی کو بھی حیران و پشیمان نہیں دیکھا ہر ایک اپنے
کاموں میں جتا ہوا ہے اور خوشی والا خوشی کر رہاہے اور کسی کو کسی حد تک
کوئی پرواہ نہیں ہے۔ جب دو ہزار پانچ کو زلزلہ آیا تو ساؤتھ افریقہ سے آئے
ہوئے ڈاکٹر کے اس سوال نے ہمیں دم بخود کر دیا کہ کنٹونمنٹ جنرل ہسپتال صدر
راولپنڈی کے آپریشن تھیٹر میں و ہ تو کام کیلئے اتنے دور سے یہاں آگئے تھے
مگر یہاں کے کلینکس کھلے ہوئے ہیں اور ڈاکٹرز پرائیویٹ پریکٹس میں مصروف
ہیں کیا یہ لوگ اپنے ہم وطنوں کے لئے وقت نہیں نکال سکتے تو یقیناًاس کا
جواب یہ ہی ہو سکتا ہے کہ ہم وطنو ں کی خدمت
بھی ہمدردی کے جذبے کے بغیر نہیں ہوتی اور یہ جذبہ بھی رب عظیم کی طرف سے
ہی انسان کو ملتاہے۔ |