انسا نیت کا درد

جب سے یہ دنیا وجود پذیر ہوئی ہے انسان کا دوسرے انسانوں کیلئے ایثار اور قربانی کا جذبہ ایک اٹل حقیقت رہا ہے۔قرن ہا قرن کے سفر میں ان سچے جذبوں کے اظہار کو ہر ذی روح محسوس بھی کرتا ہے اور ان سے خو د میں راحت اور توانائی کی دنیا بھی بساتا ہے۔ دوسرے افراد کی خا طر اپنا وقت اور متاع قربان کر دینا کارِ ہر دیوانہ نیست والا معاملہ ہوتا ہے لہذا انسانیت کے درد کو اپنے دل میں جگہ دینے والے انسانوں کو انکے انہی لافا نی جذبوں کی بدولت انسانیت کی ایسی بلند و بالا مسند عطا ہوتی ہے جس پر ہم بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں۔انسانوں کی بے لوث قربانی انسان دوستی کے بیش قیمت جذبوں کی ترجمانی کا فریضہ سر انجام دیتی ہے اور انھیں دوسرے انسانوں سے ممیز کرتی ہے ۔انسانیت کی خدمت ہر انسان کی ازلی خوا ہش تو ضرور ہوتی ہے لیکن اسکے اظہار کی اسے جرات،ہمت، اور ا ستطاعت نصیب نہیں ہوتی کیونکہ وہ ذاتی مفادات کا اسیربن کر دوسروں کی خدمت کی بجائے ارتکازِ دولت میں جٹا رہتا ہے اور یوں اس عظیم مقصد سے دور ہوجاتا ہے جس کیلئے اسکی تخلیق کی گئی تھی۔اگر انسان صرف ذاتی خوا ہشات کا غلام بن جائے تو اس دنیا کا سارا حسن ماند پڑ جائے ۔دوسرے انسانوں کیلئے انسانوں کا ایثا رہی اس دنیا کا حقیقی حسن ہے اور یہ اعزا زصرف دل والوں کا ہی مقدر بنتا ہے کیونکہ اس راہ پر چلنا عام انسانوں کے بس میں نہیں ہوتا۔
ہیں وہی لوگ جہاں میں اچھے۔۔۔۔۔۔آتے ہیں جو کام دوسروں کے

انسانوں کی خد مت کا تصور مذاہب کا عطا کردہ ہے جس میں ثو اب کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے ۔اگر خدا کے حضور جوابدہی کا جذبہ محرکہ موجود نہ ہو تو انسان ذاتی خو اہشات کا غلام بن کر رہ جائے اور یوں دوسروں کی خدمت کے سارے جذبے اپنی موت مر جائیں۔سیکو لر معاشروں میں چونکہ بعد از مرگ جواب دہی کا عنصر مفقود ہوتاہے لہذا وہاں دوسروں کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر ترجیح دینے کا تصور ناپید ہو تاہے ۔مادیت پرست افراد کی ساری تگ و دو کا نقطہ ماسکہ صرف دولت کا حصول ہوتا ہے لہذا حصولِ دولت کی خا طر وہ ہر ضا بطے اور اصول کو روندھتے چلے جاتے ہیں ۔ زندگی کی آسا ئشات اور نعماء کا حصول ہی ان کی پہلی اور آخر ی ترجیح ہوتی ہے لہذا اس کی خاطر وہ کسی بھی ضابطے، قانون اور روائت کودر خورِ اعتنا نہیں سمجھتے ۔انھیں کسی بھی اخلاقی قدر کی کوئی پرواہ نہی ہوتی کیونکہ قدروں پر ان کا یقین نہیں ہوتا۔وہ قدروں کی بجائے دولت کے پچاری ہوتے ہیں کیونکہ ان کی نظر میں دولت ہی سکہ رائج الوقت ہوتاہے جس سے ہر شہ کو خریدا جا سکتا ہے۔خریدنے کی اسی خو سے وہ اپنی من پسند دنیا بساتے ہیں اور یوں جھوٹے نگوں کی مینا کاری سے زندگی کے اصلی مقصد سے بہت دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔انسان کا درد،اس کی چاہت،اس کی خوشی ،اس کی خو شحالی اور اس کی فلاح سے اس قبیل کے انسانوں کو کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہوتا کیونکہ ا نسانی خدمت کی سوچ ان کے دلِ مضطر میں جنم نہیں لے سکتی حالانکہ اصلی اور حقیقی زندگی یہی ہوتی ہے کہ انسان دوسرے انسانوں کے کام آئے اور ان کی خو شیوں کی خا طر اپنی خو شیوں کی قربانی دے ڈ الے۔دوسروں کی حا جات اور ضروریات کی خا طر قربانی دینے کا صلہ بہت بڑا ہوتا ہے لیکن کم مایا ،کوتاہ نگاہ اور کم ظرف انسانوں کو اسکا ادراک نہیں ہوتا تبھی تو وہ ایک ایسی شہ کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں جو اپنے اندر کوئی خوبی نہیں رکھتی۔انسان سے انسان کا تعلق اور اس تعلق کی پاسداری ہی انسانیت کا منتہی و مقصود ہوتا ہے اور جو اسے حا صل کر لیتا ہے وہی حقیقی زندگی کو پا لیتا ہے۔۔ بقولِ شاعر
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو۔۔۔ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں (میر تقی میر)

نفسا نفسی کے اس دور میں جہاں پر مفادِ عاجلہ نے ایک روگ کی شکل اختیار کر لی ہے دوسروں کی خدمت،صحت اور فلاح و بہبود کیلئے اپنی توانا نئیوں کو صرف کرنا ا نہونی سی بات لگتی ہے۔ہر انسان اتنا مصروف ہو گیا ہے کہ اس کے پاس دوسروں کیلئے وقت نہیں رہا ۔وہ اپنے مسائل اور ضروریات میں الجھ کر اپنے ہی ہم جنسوں سے دور ہو گیا ہے۔ وہ لوگ واقعی بڑے باہمت،بہادر اور قابلِ ستائش ہیں جو دوسروں کیلئے اپنا وقت نکالتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہیں۔اولیا،صوفی ۔حکما اور ڈاکٹروں کے ساتھ ساتھ خدمتِ خلق کے جذبوں سے لیس باہمت لوگ ہمیشہ انسانی خدمت کیلئے سامنے آتے ہیں۔انسانوں کی خدمت کایہ جذبہ انھیں خدا کی طرف سے ودیعت ہوتا ہے تبھی تو یہ سر پھرے انسان بے لوث خدمت کیلئے میدانِ عمل میں نکلتے ہیں اور انسانیت کے درد اور روگ کو اپنا روگ بنا لیتے ہیں اور دوسروں کی تکلیف انکی اپنی تکلیف بن جاتی ہے ۔عبدالستار ایدھی،عمران خان،ابرارا لحق اس طرح کی واضح مثا لیں ہیں جھنوں نے اپنے عزمِ مصمم اور اٹل ارادوں سے صحت اور تعلیم کے میدان میں بڑے کارہائے نمایاں سر انجام دئے ہیں۔ایسے لوگ دھن کے پکے ہوتے ہیں اور اپنے ہدف کے حصول میں کبھی بھی سر نگوں نہیں ہو تے ۔وہ نامساعد حا الات میں بھی امید کی شمع روشن رکھتے ہیں اور یوں ناممکنات کو ممکنات میں بدل دیتے ہیں۔۔

موجودہ دور اضطراب،ٹینشن،بے چینی،ہوس،لالچ اور حا سدانہ سوچ کا دور ہے جس میں اضطرابی کیفیت نے انسان سے اس کی صحت کو چھین لیا ہے۔ ٹینشن نے انسان کو شوگر جیسی جان لیوا بیماری کے حوا لے کر دیا ہے جس کی ماضی میں کوئی مثا ل نہیں ملتی ۔ دل کا مرض، بلڈ پریشر،گردوں کا مرض اور نظر کی کمزوری اسی شوگر کے تحفے ہیں۔۱۰ فیصد سے ۲۵ فیصد تک انسان شوگر کے مریض ہیں جس میں ہر روز مزید اضا فہ ہو تا ا جا رہا ہے۔شوگر کا مرض دنیا میں چو تھے نمبر پرہے اور پاکستان دنیا کا دسوا ں ملک ہے اور اگر یہی حا لت رہی تو ایک وقت ایسا بھی آ سکتا ہے جب اس مرض کے مریض سای دنیا میں سب سے زیادہ ہوں گئے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بڑھتے ہوئے مرض پر قابو پایا جائے اور اس کا سدِ باب کیا جائے تا کہ انسان سکھ اور چین کا سانس لے سکے۔اسی عظیم مقصد کے حصول کی خا طر میرے انتہائی قابلِ احترام دوست داکٹر اسجد حمید نے ذیا بیہطس کاا یک بہت بڑا مرکز اسلام آباد میں قائم کیا ہے جس کا بنیادی مقصد اس مرض میں مبتلا افراد کا علاج معالجہ ہے۔ایک انسان دوست شخص نے اسلام آباد میں دس کنال زمین کا عطیہ ذ یا بیطیس کے مرکز(ٹی ڈی سی)کے نام کر دیا ہے جس پر عمارت کی تعمیر کا کام شروع ہو چکا ہے ۔پہلے مرحلے میں سات دوکانیں تعمیر کی گئی ہیں جہاں پر مریضوں کی چیکنگ کا نظام قائم ہو چکا ہے۔پاکستان ایسو سی ایشن دبئی،امریکن ایمبیسی ابو ظبی ،پاکستان ایمبیسی ابو ظبی اور ریڈ کریسنٹ اس کارِ خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔انسانی خدمت کے اس عظیم مشن میں ڈاکٹر اسجد حمید کے ساتھ چوہدی ظفر اقبال، ڈاکٹر طلعت بٹ جس خلوسِ نیت کے ساتھ دامِ درمِ سخن ِکھڑے ہیں وہ انھیں نیا عزم اور حو صلہ عطا کر رہا ہے اور وہ تازہ دم ہو کر اپنے مشن کی تکمیل میں جٹ ہوئے ہیں ۔( ایڈریس)
PHONE.00971566083542([email protected].)WEBSITE.WWW.TheDiabetesCentre.Com

قطرہ قطرہ دریا میں شود کے مصداق فنڈ ریزنگ کیلئے کئی پروگراموں کا انعقاد ہو چکا ہے جس میں یو اے ای کے مخیر حضرات دل کھول کر عطیات دے رہے ہیں تاکہ اس نوبل مشن کو جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ ذیا بیطس کے اس مرکز (ٹی ڈی سی) کے قیام میں کسی کی ذاتی منفعت کا سوال نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد انسانیت کی خدمت ہے لہذا دردِ دل رکھنے والے افراد سے اس مرکز کی تعمیر و توسیع کیلئے دست بستہ چندے کی اپیل کی جاتی ہے۔ا ن کی اس نیکی کا اجر تو ربِ ذولجلال کے ہاں ہی ہو گا لیکن ان کے اس فعل سے انسانیت کا چہرہ تابناک ہو جائیگا اور انسانیت ان پر ہمیشہ فخر کرتی رہیگی اسی لئے تو اقبال نے کہا تھا ۔
۔۔ خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے۔۔۔میں تو اس کا بندہ بنوں گا، جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا ۔۔۔
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515656 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.