اچھی بات سب کو اچھی لگتی ہے اور ہر کوئی یوں کہتا ہے میں
نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔
تمام انسان انسانی اقدار کے لحاظ سے ایک جیسے ہوتے ہیں گو یا ایک ہی خاندان
کے افراد ہیں۔
دیکھو، جب ہم کوئی کتاب یا کالم پڑھتے ہیں، یا ٹی وی پر کوئی مکالمہ یا کسی
اینکر پرسن کا تجزیہ سنتے، یا کسی اخبار، یا کسی میگزین میں کوئی اچھی بات
پڑھتے ہیں، یا کسی محفل میں بیٹھے کسی بزرگ آدمی کی کوئی اچھی بات سنتے ہیں
تو ہم کہتے ہیں کہ اس نے ٹھیک کہا ہے، سچ کہا ہے، بہت اچھی بات کہی ہے۔ اس
وقت ہم ایسے سمجھتے ہیں کہ گویا یہ بات ہمارےبھی دل میں تھی۔ اور اس نے وہ
بات کی ہے جو ہم کہنا چاہتے تھے اور جسے ہم پسند کرتے تھے۔ تو گویا جو اچھی
اور سچی بات دوسروں کے دل میں ہوتی ہے وہ ہمارے دل میں بھی ہوتی ہے۔ اور ہم
دانائی میں کسی طرح بھی دوسروں سے کم نہیں ہوتے۔ فرق صرق اتنا ہوتا ہےکہ ہم
اپنےدماغ کو اچھی طرح استعمال نہیں کرتے۔ وہی ضمیر ہمارے اندر ہے جو دوسروں
کے اندر ہے۔ ہمارا ضمیر یا روح ایک بہت بڑا عالم ہے اور بہت بڑا جج ہے۔ جو
ہمیں اچھا برا، نیک بد بتلاتا اور عقلمندی و بے وقوفی اور نیکی و بدی میں
تمیز کرنا سکھلاتا ہے۔ اسی لیے ہر شخص اچھی اور سچی بات کو پسند کرتا ہے کہ
یہی حق ہے اور وہ یہ کہتا ہے :
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔
سائنس دان کہتے ہیں کہ ہر انسان کے دماغ میں تقریبا ۲ ارب خلیے ہوتے ہیں جن
میں سے ذہین ترین انسان زیادہ سے زیادہ ایک کروڑ خلیے استعمال کرتا ہے۔
جبکہ مذہبی مفکروں، نبیوں، رسولوں، اماموں، ولیوں، گرووَں اور اوتاروں نے
ان کو زیادہ سے زیادہ استعمال کیا ہے اور غیب کی باتیں مثلا خدا، شیطان،
فرشتوں، جنوں، آخرت اور جنت دوزخ کے متعلق بتایا ہے۔ اور انہوں نے پودوں،
کیڑوں مکوڑوں، جانوروں، پرندوں حتی کہ پہاڑوں وغیرہ کے احساسات کو بھی
محسوس کیا ہے۔ یہ اس لیے کہ انسانوں کو عقلِ سلیم دی گئی ہے۔سو اُنہوں نے
ہمیں ایسی ایسی باتیں بتلائی ہیں جنہیں ہم غیب کی باتیں کہتے ہیں۔ حالانکہ
ان کیلئے ایسی باتیں غیب نہیں تھیں بلکہ مثلِ حاضر کے تھیں۔ ان کے اس ملکہ
کو روحانی طاقت کہہ سکتے ہیں جو انہیں قدرت سے حاصل ہوتی ہے۔ بعض لوگ اسے
چھٹی حس بھی کہتے ہیں ۔ بعض روحانی لوگ اسے ہاتفِ غیبی یا روح کی آواز بھی
کہتے ہیں او ر بعض کہتے ہیں کہ ان کا دل بولتا ہے۔ اور بعض عامل لوگ کہتے
ہیں کہ یہ باتیں فرشتوں، جنوں یا موکلوں نے بتائی ہیں۔ لیکن یہ وہ باتیں
ہیں جو انہیں ان کے دل، ذہن یا روح نے بتائی ہیں اور حق سچ ہیں۔ اور بعض
لوگ مستقبل کی خبریں بھی دیتے ہیں۔ یہ ان کے علم اور تجربے سے ہوتی ہیں یا
انہیں ان کا ذہن، روح اور دل بتلاتا ہے کہ ایسا ہو جائے گا اور ویسے ہی ہو
جاتا ہے۔ اس لیے نبیوں، رسولوں،اماموں،ولیوں،گرووَں اور اوتاروں کی باتیں
سچی ہوتی ہیں اور لوگ ان کی عزت کرتے اور ان کی باتیں مانتے ہیں اور ان کی
پیروی کرتے ہیں۔
خدا نے انسان کو اس لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ جنگلوں میں رہے، شادی نہ کرے۔
ماں باپ، استاد، بیوی بچوں، بھائی بہنوں، ہمسایوں اور دوسروں کے کام نہ آئے۔
نیکیاں، بدیاں نہ کرے اور رونقِ زندگی میں حصہ نہ لے اور کسی قانون، اصول
کی پابندی نہ کرے۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔
دیکھو، نبیوں، رسولوں،اماموں،ولیوں،گرووَں اور اوتاروں نے ہمیں تعلیم دی ہے
کہ ایک خالق، مالک، رازق کو مانو،اسی کی عبادت کرو۔ اسی سے ڈرو، اور اسی سے
مدد مانگو۔وہ ہر وقت تمہارے ساتھ ہے بلکہ تمہارے دل میں بیٹھا ہوا ہے۔ سچ
بولو۔ پیار محبت، خلوص، ہمدردی، سچائی، ایمانداری، دیانتداری سے آپس میں
تعلقات رکھو۔ حلال کما کر کھاوَ۔ انصاف کرو۔ جھوٹ نہ بولو، چوری چکاری نہ
کرو۔ ڈاکے نہ مارو، ظلم زیادتی نہ کرو۔ قتل و زنا نہ کرو۔ ملک اور قوم سے
غداری نہ کرو۔ فرقے نہ بناوَ اور ایک دوسرے کے دشمن ہو کر نہ رہو۔ اور آپس
میں بھائی بھائی بن کر رہو۔ یہ ایسی باتیں ہیں جن کو ہر کوئی اچھا اور سچ
مانتا ہے۔ کیونکہ نبیوں رسولوں، اماموں، ولیوں، گرووَں اور اوتاروں نے غیب
سے وہ چیزیں دیکھیں اور وہ باتیں سنیں جنہیں عام لوگ بھولے ہوئے تھے۔ انہوں
نے بندوں کا خدا سے تعلق بنانے کے ساتھ ساتھ انسانوں کی تربیت بھی کی۔
انسانی معاشرے سے برائی اور ظلم ختم کیے اور نیکی بھلائی کو پھیلایا اور
دنیا میں امن و سکون قائم کرنے کی کوشش کی اور انسانوں کو حیوانیت سے نکال
کر صحیح انسان بنانے کی کوشش کی۔ یہی تحریکِ انسانیت کا بھی مقصد ہے۔
اندازِ بیاں اگرچہ بہت شوخ نہیں ہے شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات |