تاریخ انسانی کا مطالعہ کیا جائے تو ہر ورق آپ کو رنگین
نظر آئے گا اور یہ رنگینی کسی دلکش منظر یا داستان محبت کی نہیں بلکہ
کروڑوں بے گنا انسانوں کے لہو کی وجہ سے ہی تاریخ رنگین نظارہ پیش کررہی
ہے۔چونکہ تاریخ ماضی ،حال اور مستقبل سب پر نظر رکھتی ہے اور جو کچھ دیکھتی
ہے قرطاس پہ ضبط کر لیتی ہے۔اﷲ کی بنائی ہوئی خوبصورت دنیا جو تمام انسانی
لوازمات سے پر ہے ۔جو انسان جہاں کہیں جس ملک ،جس سرزمین اور جس خطے میں
رہتا ہے خدا نے انہیں وہیں پر ہی ان کے لوازمات کا بندوبست کر رکھا ہے۔اس
کے باوجود یہ درندہ صفت انسان اپنے مفادات کے حصول کی خاطر دوسروں کی حق
تلفی میں اس قدر آگے بڑھا کہ اندھا ہوا اور اپنے جیسے جیتے جاگتے انسانوں
کو گاجر مولی کی طرح کاٹتا جارہا ہے۔مگر پھر بھی تاریخ سے سبق،عبرت حاصل
کرنے سے قاصر ہے۔ اس دنیا میں ،زر، زمین، اور مذہب کے نام پر جتنی
خونریزی(دہشت گردی) ہوئی ہے اتنی کسی اور وجہ سے نہیں ہوئی۔ماضی میں
سلطنتیں اور خراج حاصل کرنے کا دور تھا تو آج (ملٹی نیشنل کمپنیاں جو طاغوت
کے زیر اثر کام کر رہی ہیں کا عروج ہے)کہیں پر قرضے دے کر اپنے مقاصد حاصل
کرنے کی کوشش ہورہی ہے تو کہیں پر ہڈی کا ٹکرا پھینک کر کام لیا جاتا
ہے۔یعنی دلالی اور بکنے کے بھی’’ کٹگریز‘‘ ہیں کوئی شان کے ساتھ بکتا ہے تو
کوئی کتے کی مانند بکتا ہے پر بکتے سبھی ہیں۔مگر ہم خاص طور پر پاکستانی
مسلمان ہر بار بکنے کے باوجود بھی اب تک یہ نہیں سمجھ پائے کہ ہم بک رہے
ہیں یا یہ ہمارے اپنے جذبات ہیں۔خیر بات لمبی ہوجائے گی۔ملک عزیز پاکستان
کو جمہوریت کا ایسا’’کلمہ‘‘ پڑیا گیا ہے کہ بس جمہوریت ہی واجب ہے اسی میں
بقا ہے ۔خواہ اس جمہوریت میں ملک اور عوام فنا ہی کیوں نہ ہوں مگر جمہوریت
کا نام باقی رہنا چاہئے۔میں نے ملٹی نیشنل کمپنیوں کا جو ذکر کیا یہ کوئی
عام کمپنیاں نہیں ہیں یہ وہ طاقت ور بیماری ہے جو کئی ممالک میں اپنے مرضی
کے حکمران لاتے بھی اور گراتے بھی ہیں جو ملکوں کو توڑے بھی ہیں اور بناتے
بھی ہیں۔حال ہی میں آپ نے دیکھا کہ گلگت بلتستان سے نایاب قسم کے دھات کو
سمگل کیا جارہا تھا۔ حالامکہ یہ سلسلہ بہت سالوں سے رواں دواں ہے جبکہ
مقامی میڈیا نے بارہا اس پر آواز اُٹھایا مگر دھرتی کا کوئی حقیقی ولی وارث
نہ ہونے کی بنا پر ہر اُٹھنے والی آواز گلے میں ہی دب کر رہ گئی۔بلتستان،
دیامر، غذر غرض اس خطے کے ہر چپے سے قیمتی دھاتوں کو لوٹا گیا اور لوٹا
جارہا ہے ہے۔حالانکہ قدرت نے ہمارے پہاڑوں میں وہ نایاب دھات کا ذخیرہ عطا
کیا ہے جس کے باعث ہم پوری دنیا میں فخر سے اپنا تعارف کرواسکتے ہیں اور یہ
علاقہ قدرتی وسائل کے حوالے سے اتنا امیر ہے کہ اس کا مقابلہ پوری دنیا میں
کہیں نہیں ہوسکتا ہے۔ ہم وہ لوگ ہیں جو سونے کی بوری کے اوپر بھوکے سو رہے
ہیں۔ جبکہ کئی دہائیوں سے اس علاقے کی نایاب ترین قیمیتی جڑی بوٹیوں کو جڑ
سے اکھاڑ کے صفایا کیا جارہا ہے پھر ہمارا مقامی میڈیا ہی آواز اُٹھا رہا
ہے باقی سب خاموش، جو بھی نیچے سے آتا ہے تو دل بے رحم مال بے گانہ کی طرح
ہماری وجود کے تمام اعضاء کو نکال لے جانے میں ذرہ برابر بھی پروا نہیں
کرتا ہے،البتہ کسی غیر کو کیا پروا جب گھر والے اتنے بے حس ہوں تو اس گھر
کے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ الغرض ہماری دھرتی کا سینہ چیر کر اس کے اندر
سے ساری کا آمد اور نایاب چیزیں نیلام کیا جارہا ہے اور ہم خاموش تماشائی
بنے بیٹھے ہیں۔کیا ہ واقعی ہم کوئی قوم ہیں؟ کیا ہم اپنی دھرتی ماں کے
رکھوالے ہیں یا دشمن؟ کیا ہم قوم پرست ہیں؟ کیا ہم واقعی کوئی مذہبی لوگ
ہیں؟ ہم کچھ بھی نہیں ہم محض ایک بکاؤ مال بن چکے ہیں۔ہمار شمار کم از کم
زندوں میں تو نہیں ہوسکتا ہے۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں
بے ضمیروں کوخرید کر دہشت گردی کیلئے ہڈی پھینک دیتی ہیں نتیجے میں علاقہ
تباہ و برباد ہورہا ہے۔کوئی بھی ذی شعور انسان یہ برداشت کرے گا کہ اس کے
گھر کے سارے قیمتی اشیاء کوئی لوٹ کر لے جائے ہر گز نہیں کرے گا اگر وہ
خاموش رہا تو کل اسے اپنے گھر سے بھی بے دخل ہونا پے گا۔میں اپنی دھرتی
گلگت بلتستان کے اُن افراد سے مخاطب ہوں جو دہشت گرد ذہن رکھتے ہیں۔یاد
رکھیں اگر آپ نے اب بھی اس انٹرنیشنل گیم کو نہیں سمجھا تو ایک دن اس خطے
میں کسی اور کا راج ہوگا۔ جب کچھ قیمتی اشیاء یہاں سے غیر اُٹھا ئیں گے تو
۔ اس کے بعداگر واقعی ریلوے ٹریک بنا اتو یہاں کے نوجوان ریل گاڑی میں
ٹھنڈا پانی اور خوبانی کی ٹوکری لے کر ریل گاڑی کے مسافروں کو فروخت کر یں
گے بس اس سے زیادہ حیثیت ہماری نہیں ہوگی۔میرے دیس کے نوجوانو میران شاہ
میں ٹریننگ کرکے خدا کی مخلوق کا قاتل بن کر خود کو جہنم کا نوالہ بننے کی
بجائے علم حاصل کر کے اپنے والدین اور اپنے علاقے کی خدمت کیوں نہیں کرتے،
یا کوئی ہنر سیکھ کر اپنی زندگی کو بہتر کیوں نہیں بناتے۔یاد رکھیں جو لوگ
ہمارے جوانوں کو دہشت گرد بناتے ہیں در حقیقت میں وہی لوگ امریکہ و اسرائل
کے دلال اور ایجنٹ ہیں یہ بکنے والے ضمیر فروش لوگ ہیں؛۔کلام پاک میں اول
سے تا آخر کہاں لکھا ہے کہ تم مسلک کی نیاد پر قتل کرو؟ بلکہ ایک انسان کا
قتل پوری انسانیت کے قتل کے برابر قرار دیا گیا ہے ،خدا نے قتل کی انتہائی
مذمت اور درد ناک سزا رکھا ہے۔در حقیقت یہ ضمیر فروش لوگ عالمی لٹیروں کے
ایجنٹ ہیں یہ ہمیں باہم لڑا کر ہمارے وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنا چاہتے
ہیں۔تاکہ ہم آپس میں انتقام کی آگ سے اندھے ہوجائیں اور ہمیں یہ خبر تک نہ
ہو کہ ہمارا علاقہ نایاب چیزوں سے خالی ہورہا ہو یہ عالمی لٹیروں کی ایک
بڑی سازش ہے۔آج یہاں پر ایف سی، اور رینجرز ہیں اگر خدا نخواستہ ایک دو
دھماکے ہوجائیں تو یہاں پر نیٹو کی فورس جو صرف موقع کی تلاش میں ہے یہاں
برا جمان ہوگی پھر کیا صورت حال اس خطے کی ہوگی آپ نے اس بات کا انداز ہ
لگایا ہے کیا؟۔یہ بین الاقوامی مفادات کی جنگ ہے جس میں ہم بیگانہ شادی میں
عبداﷲ دیوانہ کی مانند استعمال ہورہے ہیں۔امریکہ بہادر آج کل اس خطے پر
نظریں مکمل جما کر بیٹھا ہے کیوں کہ چین کی قربت ان سے دیکھی نہیں جارہی ہے
اور اس لئے دہشت گردی کا بہانہ بنا کر کسی طرح اپنے اتحادیوں کو یہاں
بیھجنا چاہتا ہے اور ہم ان کے مکرو عزائم میں برابر استعمال ہورہے ہیں۔یہ
وسائل ، یہ مفادات یہ لوٹ مار کی جنگ ہے اور ہمارے اپنے ہاتھو ں سے ہی
ہماری تباہی ہورہی ہے۔آج میں کھل کر اور آسان طریقے سے لکھ رہا ہوں تاکہ
بچہ بھی پڑھے تو سمجھ جائے۔ دیکھیں جہاں تک شیعہ، سنی کی بات ہے تو ۔غور سے
سنیں ان دونوں کا ہدف بھی ایک ہے الگ ہدف الگ مقصد نہیں ہے۔’’ اہل تشیع‘‘اﷲ
کو ایک اور حضر ت محدﷺ کو آخری بنی مانتے ہیں اس کے بعد کوئی نبی آنے
والانہیں ہے۔آذان، نماز، حج،خمس ، روزہ، ذکاۃ، باقی تمام چیزیں ایک ہیں۔اہل
تشیع حضور اکرمﷺ کے بعد یعنی نبوت کے بعد امامت کے قائل ہیں اور12اماموں کے
ماننے والے ہیں اور آخری امام مہدی پر سب کا اتفاق ہے۔حضور اکرمﷺ سمیت تمام
اماموں کی ولادت میں خوشی اور شہادت میں غم مناتے ہیں۔ اہل تشیع کے عقید کے
مطابق ان کا یہ راستہ درست اور حقیقت پر مبنی ہے اس راستے پر چل کر وہ خدا
کی قربت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اور اس راستے کا انتخاب کر کے خود کو نار
جہنم سے بچانا یعنی قہر الٰہی سے جنات اور رحمت خداوندی حاصل کرنا چاہتے
ہیں۔یعنی نار جہنم سے بچنا اور جنت میں جانا اور خدا کی خوشنودی حاصل کرنا
ان کا مقصد ہے۔’’اہل سنت‘‘خدا کو ایک مانتے ہیں۔ حضور پرنور ﷺ کو آخری بنی
مانتے ہیں ان کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا نبوت
کا آخری تاجدار آپ ﷺ ہیں۔ آذان، نماز، روزہ، حج،زکاۃ باقی تمام عبادتیں
تقریباً ایک ہیں۔اہلسنت آپ ﷺ کے بعد صحابہ کرام کو مانتے ہیں اور صحابہ
کرام کی پیروی کرتے ہیں۔ان کے عقیدے کے مطابق یہ درست ہیں اور اس راستے پر
چل کر ہی وہ خدا کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ان کے خیال کے مطابق اگر
ہم اس راستے پر اپنی زندگی گزاریں گے تو ہم عذاب الٰہی سے بچ جائیں گے اور
رحمت خداوندی حاصل ہوگی اور عذاب یعنی نار جہنم سے بچ جائیں گے اور جنت میں
داخل ہونگئے۔ اب آپ بتائیں کہ ان دونوں کے مقصد دونوں کا ہدف ایک ہے کہ
نہیں۔اگر کوئی صحابہ کو نہیں مانتا ہے تو وہ سنی نہیں ہوسکتا ہے مگر وہ
مسلمان ہے اسی طرح اگر کوئی اماموں کو نہیں مانتا ہے تو وہ شیعہ نہیں
ہوسکتا ہے مگر وہ مسلمان ہے۔یہ حق ہمیں کس نے دیا کہ ہم زبردستی ایک دوسرے
کو منوائیں نہ ماننے کی صورت میں قتل کیا جائے یہ تو اسلام میں کہیں نہیں
لکھا ہے۔سب کے سب مسلمان ہیں سب اس کلمہ طیبہ کے ماننے والے ہیں۔جب کفر اور
اسلام کی جنگ ہوتی ہے تو کیا یہ دیکھا جاتا ہے کہ یہ شیعہ ہے یا یہ سنی
ہے۔البتہ ہمارے ان مسلمانوں میں کچھ کو طاغوت نے اپنا ہمنوا ضرور بنالیا ہے
اور ان کی وجہ سے مسلمانوں کے مابین دوریاں پیدا ہورہی ہیں جو طاغوت کی
ضرورت ہے۔ چونکہ دنیا مین جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں خدا نے انہیں اچھی
زمین، اچھے وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے۔طاغوت کو خوف اس بات کا ہے کہ اگر
یہ مسلمان متحد ہوئے تو ہماری خیر نہیں اس لئے وہ ہمارے اندر سے ہی ایسے
افراد کی تربیت کرتے ہیں جو ان کے عزائم کے لئے کام کرے۔ ہمیں ایسے افراد
سے ہوشیار رہنے کی ضرور ت ہے۔اس جنت نظیر خطے میں وہ کیا شئے ہے جو موجود
نہیں ہماری اوقات سے بڑھ کر خدا نے ہمیں نوازا ہے ان وسائل کی حفاظت کرنا
ہمار فرض ہے۔ہم اس صورت میں اپنے وسائل کی حفاظت کرسکتے ہیں جب ہم ایک ہوں،
جب ہمار اندر ایثار، وفاداری برادری اوراخلاص پیدا ہو ہم متحد ہوئے تو کوئی
میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکے گا۔ہمیں بین الاقوامی تغیرات کا ادراک کرنا
ہوگا، ہمیں بیدار ہونا پڑے گا ۔ہماری آپس کی چپقلشوں کی وجہ سے ہی طاغوت کا
خونی پنجہ ہمارے گریباں تک پہینچ چکا ہے یہ سب ہماری اپنی ہی کوتاہیاں
ہیں۔خدا نے ہمیں واقعی جنت میں پیدا کیا ہے اور ہمیں اپنے کردار سے ہی یہ
ثابت کرنا ہوگا کہ ہم بھی جنتی ہیں۔ ابھی تو ہم اس جنت نظیر وادی میں جہنم
کی خصلت رکھنے والے مخلوق بنے ہیں۔ خدا را ہمیں اپنے آپ کو بدلنا ہوگا۔اس
دہشت گردی کے پس پردہ جو محرکات ہیں ان سے جانکاری حاصل کرنا چاہئے۔ایک اور
توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ جب تک اس دھرتے کے سینے میں تھوڑے بہت بھی وسائل
موجود ہیں ہمیں کہیں نہ کہیں سے ہڈی ملتی رہے گی کہ اسے مار اِسے مارو جب
خدا نخوستہ وسائل ختم ہوئے تو وہ ہڈی پھینکنے والے سب سے پہلے اپنے پالتو
کتوں کہ ہی ماریں گے اور علاقے پر مکمل قابض ہوجائیں گے۔گلگت بلتستان کے
عظیم روایات ہیں، ہم نے اپنے روایات کو زندہ رکھنا ہے اور علاقے کو غیر کی
لوٹ مار سے بچانا ہے۔اس کے لئے ہمیں اندر کے کالی بھیڑیوں پر بھی نظر رکھنا
ہوگا۔ہم گلگت پولیس کو بھی مبارکباد دیتے ہیں کہ انہوں نے اپنی حکمت عملی
سے گلگت میں دہشت گردی کا ایک بڑا منصوبہ ناکام بنایا۔خدا نخواستہ اگر یہاں
کچھ ہوجاتا تو یہ کراچی نہیں ہے گلگت ہے معاملہ فقط دھماکے تک محدود نہیں
ہوتا پھر پورے علاقے میں قتل غارتگری کا بازار پھر سے گرم ہوتا اور دشمن کی
یہ چال کامیاب ہوجاتی۔دشمن یہ چاہتا ہے کہ یہاں کے باسی جو ہزاروں سالوں سے
بھائھیوں کی طرح رہ رہے ہیں یہ ایک دوسرے کوکاٹ ڈالیں یہ آپس میں خون
خرابہ کریں تاکہ ان کا کام آسان ہو۔اس لئے ہمیں ہوش کے ناخن لینا ہوگا اور
امن کیلئے ہر ایک کو باہر نکلنا ہوگا امن سبکی ضرورت ہے،عالمی سازشوں کو
سمجھتے ہوئے ماضی کی طرح اس گلگت کو امن کا گہوارہ بنانا پڑے گاحصہ بقدر
جسہ یہ ہم سب کا فریضہ ہے۔پروردگار عالم ہم سب کو عالمی سازشوں سے باخبر
اور آپس میں متحدہونے کی توفیق عطا فرمائے (آمین) |