نوجوان قوم کے معمار ہوتے ہیں
اور ان معماران کی بہترین تعمیر میں جہاں والدین، معاشرہ اور استاد کردار
ادا کرتے ہیں وہیں نصاب تعلیم کا کردار بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہوا
کرتا ہے۔ کیوں کہ نصابِ تعلیم ذہنی کشادگی اور فکری تشکیل کے ساتھ ساتھ
شخصیت کی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ بچے کے ناپختہ اور صاف
ذہن میں جو تصویر درسگاہ میں ابتدائی سال سے اپنے نقش و نگار ابھارنا شروع
کرتی ہے تعلیم سے فراغت تک وہ تصویر اس حد تک پختہ ہو جاتی ہے کہ اس کے
نقوش انمٹ ہو جاتے ہیں۔اس لیے کسی بھی ملک میں نصاب سازی کے کام کو بنیادی
اہمیت دی جاتی ہے۔ نصاب سازی کا کام پختہ، تجربہ کار اور ماہرین نفسیات کو
سونپا جاتا ہے تا کہ ایسا نصاب تیار ہو جو ملکی و ملی مفاد سے ہم آہنگ ہو
اور مطلوبہ افراد کار کی تیاری میں ممد و معاون ہو۔ لہذا یہ کہنا کسی طور
غلط نہ ہو گا کہ تعلیم کا اہم ہدف انسان سازی ہے۔ جس نے اس صنعت پر توجہ دی
اس نے دنیا سے اپنا لوہا منوایا اور جس نے اس معاملے میں نا اہلی اور عدم
دلچسپی کا مظاہرہ کیا غلامی اس کا مقدر ٹھہری۔یوں تو وطن عزیز میں اس وقت
درجن بھر کے لگ بھگ نظام ہائے تعلیم رائج ہیں لیکن اگر ہم اپنی سہولت کے
لیے کسی بڑی اور واضح تقسیم پر قناعت کرنا چاہیں تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ
ہمارا نظام تعلیم تین بڑے نظاموں میں منقسم ہے۔ ایک حکومتی یا سرکاری نظام
تعلیم، دوسرا پرائیویٹ نظام تعلیم جس میں بیشتر برطانیہ اور امریکہ کا تیار
کردہ نصاب رائج ہے۔ اور تیسرا دینی نظام تعلیم جو کہ مدارس کی صورت میں ملک
کے طول و عرض میں رائج ہے۔ ان تینوں نظاموں سے تیار ہونے والے افراد کے
رویے، طرز عمل ، ذہنی ساخت اور انداز فکر ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوتے
ہیں، کیوں کہ ان تینوں نظام ہائے تعلیم کے نصابات ایک دوسرے سے یکسر مختلف
ہیں۔اگر سرکاری نظام تعلیم کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ انسان
سازی کی یہ صنعت اپنی پیداواری صلاحیت کے لحاظ سے بانجھ پن کا شکار ہے۔
کہیں نہ کہیں کوئی ایسی کمی ضرور ہے جس کی وجہ سے یہ تعلیمی ڈھانچہ ملکی و
ملی تقاضوں اور معاشرتی اقدار سے اہم آہنگ رجال کار فراہم کرنے سے قاصر ہے۔
اس سے نکلنے والے بیشتر افرا د فکری و عملی طور پر کمزور ہونے کے ساتھ ساتھ
ذہنی مرعوبیت کا شکار ہوتے ہیں۔ اور علمی بالغ نظری کے فقدان کے ساتھ ساتھ
حب الوطنی کے جذبہ مطلوبہ سے عاری بھی ہوتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں پرائیویٹ
یا نجی تعلیمی نظام کے فارغ التحصیل جن کے شب و روز آکسفورڈ اور کیمبرج کے
نصاب ہائے تعلیم کو پڑھتے ہوئے گزرتے ہیں ، اور جن کی فکری و ذہنی کشادگی
اسی خاص ماحول میں ہوتی ہے وہ علمی طور پر مضبوط اور پر اعتماد تو ہوتے ہیں
لیکن ملکی مفاد اور جذبہ حب الوطنی کے فقدان کا شکار ہوتے ہیں۔یہی لوگ برسر
اقتدار آتے ہیں اور بیرونی آقاؤں کی خوشنودی کے لیے ملکی مفاد اور خود
مختاری تک کو داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ اول الذکر جو کام مرعوبیت کی وجہ سے کر
تے ہیں وہی کام ثانی الذکر خوشنودی کے لیے کر گزرتے ہیں۔ الغرض دونوں ہی
طرح کے افراد ہمارے معاشرتی اور ملکی مزاج کے لیے سود مند نہیں ہیں۔اس ساری
صورتحال کی اصل وجہ یہی ہے کہ ان نصاب ہائے تعلیم کی تیاری ہماری قومی و
معاشرتی نفسیات اور ضرورتوں کے مطابق نہیں ہوئی۔ سرکاری نظام تعلیم لارڈ
میکالے کے ‘‘سنہری اصولوں’’ پر کاربند ہے تو پرائیوٹ نظام سارا کا سارا ہے
ہی درآمد شدہ۔ان دو نظاموں کے مقابلے میں رائج دینی نظام تعلیم کا جائزہ
لیا جائے تو وہ ایک اور انتہا پر ہے۔ لب و لہجہ اور انداز و اطوار پانچ
صدیاں قبل والے، اپنے سوا کسی کو خاطر میں نہ لینا ، اپنا کلام پیش کر دینا
اور جواب آں غزل سننے کا روادار نہ ہونا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بہت سے ایسے
معاملات جو افہام و تفہیم اور مذاکرے و مکالمے سے حل ہو سکتے ہیں ان میں
بھی نوبت دست و گریباں ہونے تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ حال تو اپنے ہم مذہب افراد
کے ساتھ ہے۔ جہاں تک غیر مسلموں کا تعلق ہے تو وہ اس قابل ہی نہیں کہ ان کے
ساتھ مکالمہ کیا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مدارس میں رائج نصاب اس زمانے کا
ہے جب مسلمان حاکم اور طاقت ور تھے۔ لہذا نصاب وہ نفسیاتی پہلو رچا بسا ہے
جو ایک حکمران قوم کا ہوا کرتا ہے۔مدارس میں رائج موجودہ نصاب اورنگزیب کے
زمانے میں نظام الدین فرنگی محلی کا ترتیب دیا ہوا’’ درس نظامی’’ ہے۔ اس
وقت مسلمان اقتدار میں تھے اور مقتدر قوم کی فکری و ذہنی ساخت نفسیاتی طور
پر محکوم سے کئی لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔ اسی کے پیش نظر ‘‘درس نظامی’’ کی
تیاری میں اْس وقت اور حالات کے تقاضوں کو پیش نظر رکھا گیا، ان ضرورتوں کو
پورا کرنے کی کوشش کی گئی جو ایک حکمران قوم کی ہوا کرتی ہیں اور ایسا نصاب
تیار کیا گیا جس سے نکلے ہوئے افراد نہ صرف معاشرتی بلکہ انتظامی و حکومتی
ذمہ داریاں بھی بانداز احسن ادا کر سکیں۔ جبکہ آج کے دور میں مسلمانوں کی
حالت کا اگر جائزہ لیا جائے تو ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد کے بعد سے اب تک ہم
کبھی ذہنی، کبھی جسمانی اور کبھی دونوں طرح کی غلامیوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔
آج کے دور کے تقاضے اس دور سے یکسر مختلف ہیں، اب معاملہ حاکم اور محکوم کا
نہیں رہا، بلکہ کہیں مسلمان مغلوب ہیں اور کہیں معاملہ برابری کی سطح کا ہے۔
ایسے میں مذاکرات ، مکالمہ، کچھ دو اور کچھ لو کے اصولوں کو اپنانا ناگزیر
ہے لیکن طبقہ علماء میں یہ خو بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔کسی بھی ملک کا
نظام تعلیم جن مقاصد و اہداف کے حصول کے لیے کوشاں ہوتا ہے مذکورہ بالا
نظام ہائے تعلیم ان مقاصد و اہداف کے حصول میں مطلوبہ کامیابی حاصل کرنے سے
تا حال قاصر ہیں۔ اس ناکامی میں جو عنصر کلیدی کردار ادا کر رہا ہے وہ نصاب
تعلیم ہے۔ نصاب کا نفسیات کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہوتا ہے۔ نصابِ تعلیم طلبہ
کی ذہنی پرداخت پر نفسیاتی پہلو سے اس طرح اثر انداز ہوتا ہے کہ ان کی
ظاہری و باطنی شخصیت میں غیر محسوس انداز سے ایک خاص نفسیاتی طرز عمل غالب
آ جاتا ہے اور اس نفسیاتی طرز عمل کا رنگ معمولات حیات میں جا بجا نظر آتا
ہے۔ان معروضات کے پیش نظر ہمارے ارباب اقتدار کو اس جانب توجہ دینے کی
ضرورت ہے۔ بطور خاص موجودہ ملکی حالات میں ہم جس قدر قحط الرجال کا شکار
ہیں ایسے میں یہ ناگزیر ہو گیا ہے کہ موجودہ نصاب کی اساسی کتب اور بنیادی
مضامین کو برقرار رکھتے ہوئے ایسا نصاب تیار کیا جائے جو ملکی تقاضوں اور
ہماری معاشرتی اقدار سے ہم آہنگ ہو اور جس کے تیار کردہ رجال کار اپنی
مطلوبہ ذمہ داریاں باانداز احسن ادا کر سکیں۔ |