ہم 21 ویں صدی میں پہنچ گئے ہیں ہمارا رہن
سہن تبدیل ہوگیا لباس بدل گیا۔ طور اطوار بدل گئے مگر سوچ آج بھی وہی ہے۔
ذہنیت آج بھی زمانہ جاہلیت کو شرماتی ہے۔ چاہے دھوتی کرتے اور پاجامے کی
جگہ پینٹ کوٹ اور جینز نے لے لی ہو۔ کچے مکانوں اور جھونپڑوں کی جگہ پر
شکوہ اور بلند وبالا جدید عمارات بن چکی ہوں۔ بھلے انسان پاتال کے نیچے اور
چاند و مریخ پر پہنچ گیا ہو۔ مگر آج بھی گھر سے باہر نکلنے والی عورت اکثر
کم ظرف مردوں کو شکار ہی نظر آتی ہے۔ وہ اسے بھوکے بھیڑیے کی مانند للچائی
ہوئی خباثت بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔ شہر شہر گلی کوچے چوراہے پر دن دہاڑے
اور رات کی تاریکی میں ریپ کی وارداتیں اور واقعات اس بات کی گاہی دیتے ہیں
کہ اب بھی ماضی کی جو اقدار باقی تھیں ہ بھی جدیدیت کی آندھی می کہیں گم ہو
چکی ہیں۔معاشرے میں تبدیلی سے اخلاقی دباؤ ختم ہوگیا ہے۔پس ترقی کی اڑان
بھرنے والے ہم لوگوں نے عورت کو اس کے مقدس مقام سے محروم کردیا ہے۔ سچ تو
یہ ہے کہ آج بھی مرد حاکم ہے اور عورت محکوم۔اور یہی وہ سوچ ہے کہ عورت کو
ایک آئیٹم(شے) بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ اشتہارات میں عورت کو پیش کرکے
attraction (دلچسپی)کو فروغ دیا جارہا ہے۔ سگریٹ کی ایڈ ہو کہ موٹر سائیکل
کی ،صابن کا اشتہار ہو کہ شیو کا سامان،کمپیوٹر کو متعارف کرانا ہو کہ گھڑی
کی نمائش،فرنیچر کی بات ہوکہ گارمنٹس کا میلہ عورت کی نمائش کو لازمی جزو
سمجھ لیا گیا ہے۔ رہی سہی کسر مغربیت کی تقلید اور فیشن کی بہتات نے پوری
کردی ہے اور ان چند عورتوں کی وجہ سے معاشرے کی دوسری خواتین کو اس کا
خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے کہ ماں بہن کا درجہ پانے والی عورت جو کہ رابعہ
بصری،فاطمہ جناح مدر ٹریسا بن سکتی تھیں فیشن اور دولت کی ہوس نے اسے
ویناملک،سنی لیون ودیابالن اور نہ جانے کیا کیا بنا دیا ہے ۔
گذشتہ چند برسوں میں میڈیا کے ذریعے سے فحاشی کا جو طوفان بدتمیزی امڈکر
آیاہے اس نے سماج اور روایات کی ساری قدروں کو پامال کرکے رکھ دیا ہے اور
اس کی ساری ذمہ داری میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیاپر عائد ہوتی ہے۔ کیونکہ
جب سے ہمارا ٹی وی اور فلم انڈسٹری نے جدیدیت کی آڑ لی ہے وہ اس قدر بے باک
اورننگا ہوگیا ہے کہ اکثر اوقات مردوں کو بھی اپنی نگاہیں شرم سے جھکانی
اور چرانی پڑ جاتی ہیں۔ ٹی وی اور فلم نے ہمارے معاشرے کواس قدر متاثرکیا
ہے کہ ہماری آج کی نسل بلا سوچے سمجھے مغرب اور انڈیا کی اندھی تقلید میں
پاگل ہورہی ہے۔آج کا بچہ جسے کلمہ ،آیات یا کوئی بھی اسلامی مواد یاد و
ازبر ہونا چاہئے تھا وہ صبح اٹھ کر بے خیالی میں بھجن گا رہا ہوتاہے یا پھر
رام کو رام کرنے کی سعی کررہا ہوتا ہے ۔اور والدین بجائے منع کرنے اور
سمجھانے کے خوشی کا اظہار کررہے ہوتے ہیں کہ ان کے سپوت نے کس قدر جلد اس
گھٹیا کلچرکواپنالیا ہے ۔ٹی وی جو کبھی معاشرے میں سدھار اور تربیت کے درس
کے طور پر جاناجاتا تھاآج وہی ٹی وی فحاشی و بے باکی کو عام کرنے کا سب سے
بڑا ذریعہ اور منبع ہے۔ ٹی وی چینلز پر چلنے والے بے شمار پروگرام اپنے
اندر ننگا پن اور فحاشی سموئے ہوئے ہمارے معاشرے کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔
کئی ملکی و غیر ملکی چینلز پر ریئلٹی شوز کے نام پر جس طرح عورت کی تذلیل
کی جارہی ہے یا اسے جس انداز میں پیش کیاجارہا ہے اس سے نسل نو بالخصوص کچی
عمرکے نوجوان(لڑکے اور لڑکیاں) بے راہ روی کا شکا ر ہورہی ہیں اور معاشرے
کو ڈسٹرب کرنے کا اپنا رول پلے کررہی ہیں۔ اگر کچھ باقی رہ گیا تھا تو وہ
کسر موبائل اور انٹرنیٹ نے پوری کردی ہے اور یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا
کہ نئی نسل کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کرنے میں سب سے زیادہ رول موبائل
اوررانٹر نیٹ کا ہے کہ جس میں کسی قسم کی کوئی روک ٹوک نہیں۔ اس حقیقت سے
بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ بلاشبہ موبائل اور انٹر نیٹ نے انسان کو
کمال عروج بھی بخشا۔ اسے عظمت کی بلندیوں پربھی پہنچایا۔ مگر اس کے misuse
نے انسانی اخلاقیات کا بھی بیڑہ غرق کردیا ہے۔قصور ان کے صحیح اور پراپر
استعمال کے بارے معلوم نہ ہونے کا ہے۔علاوہ ازیں سوشل سائٹس نے جہاں لوگوں
کو ایک دوسرے سے متعارف کرایاوہیں اس نے بے راہ روی کو بھی فروغ بخشا۔جس کی
بناپر لڑکیاں دوستی کی آڑ میں اپنی سب سے قیمتی شے بھی گنوا بیٹھتی ہے اور
پھر اپنے ساتھ ساتھ ایک پوری کیمیونٹی کو متاثر کرنے کا موجب بنتی ہیں جو
کہ نہایت ہی خطرناک ہے
آج کی ایلیٹ کلاس کی تو بات ہی نرالی ہے کہ مال(Mall) کلچر اس قدر رچ بس
گیا ہے کہ ا لامان۔ہر لڑکی مال کی دیوانی ہے وہ اچھے لباس خریدنا اور پہننا
چاہتی ہے جدید اور مغربی لائف سٹائل اپنانا چاہتی ہے اس کیلئے کوئی بھی حد
کراس کرنا چہ معنی دارد۔ اب ان کی دیکھا دیکھی مڈل کلاس کے دل میں بھی یہ
سب کرنے کا خیال انگڑائی لیتا ہے مگر پیسے کی کمی آڑے آتی ہے پھر شارٹ کٹس
تلاش کئے جاتے ہیں حتی کہ تحصیل علم کیلئے ہوسٹلز میں رہنے والی طالبات بھی
اس کا شکار ہوتی دکھائی دیتی ہیں اس قسم کی اکثر لڑکیاں کم وقت میں زیادہ
کمانے کی خاطر بدترین اور گھناؤنے راہ کی مسافر بن جاتی ہیں اور پھر ان کا
واپس لوٹنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری نسل اسی راہ پر چل پڑی
ہے یہی ڈگراپنا رہی ہے۔مگر افسوس انہیں نہیں معلوم کہ یہ سب بڑے طبقے (اپرکلاس
)کے مشاغل ہیں ان کیلئے سب جائز ہے کیونکہ ہمارے معاشرے کی فارمیشن(بناوٹ)
اس قسم کی ہے کہ جہاں امیر کا ہر گناہ معاف ہوجاتاہے جہاں امیر کا ہرقابل
مذمت فعل بھی قابل تحسین ہوتا ہے اور اسے فیشن یا ماڈرن ازم کا نام دیا
جاتا ہے جبکہ غریب اور عام عوام میں بے گناہ بھی گناہگار کے زمرے میں آتا
ہے ان کی نیکی بھی ان کیلئے سزا بن جاتی ہے۔ ارباب اختیار و ارباب
اقتدار،ٹی وی مالکان ہوں یا کہ اینکرز انہیں بھی چاہئے کہ بطور مسلمان اور
پاکستانی کے اپنی حدود و قیود میں رہیں۔ اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے نہ
چھوڑیں۔ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں جائزو ناجائز صحیح وغلط کو ملحوظ خاطررکھیں
اور ایسے نہ بنیں کہ بقول اقبال جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود۔ |