عید اور مسلم نوجوانوں کی بے راہ روی

پچھلے کچھ سالوں سے نہ جانے کہاں سے مسلمانوں میں کچھ نہ مناسب اور غیر ضروری باتیں در آئی ہیں اور وہ انھیں بہت اہتمام سے کرتے ہیں ۔اس کے لیے انھیں چاہے کسی بھی حد سے گذرنا پڑے۔یہ لوگ تو اپنے من کی بھڑاس نکال جاتے ہیں اور جو نقصان ہوتا ہے وہ مسلمانوں کے متحدہ ڈھانچے کو اٹھانا پڑتا ہے ۔ کبھی کبھی اس کا نقصان اتنا شدید ہوتا ہے کہ جانیں تک چلی جاتی ہیں اور قومی سلامتی کا جو نقصان ہوتا ہے وہ جدا۔

اس خیال کی تصدیق کے لیے بہت سی مثالیں ہیں اورتازہ ترین واقعہ وہ ہے جو شب برات کے موقع پر دہلی میں پیش آیا۔تقریبا ً5گھٹنے تک آمد و رفت کے عام راستے بند رہے جس کے سبب مسافروں اور راہگیروں کو شدید دقتوں کا سامنا کر نا پڑا۔مگر اس کی نوجوانوں کو کیا پر واہ تھی وہ تو سڑکوں پر کر تب دکھا رہے تھے۔نعرے بازیاں ہورہی تھیں ‘خرمستیاں تھیں۔خواتین کو چھیڑا جارہا تھا اور ان سے نازیبا کلمات بولے جارہے تھے۔ بے لگامی اس قدر تھی کہ انتظامیہ بالکل بے بس ہو کر رہ گئی ․․․․․․اس کی بے بسی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ اگر اس رات لاٹھی چارج ہوتا تو نام نہاد ملّی تنظیمیں اور مسلمانوں کے زخموں پر ہمیشہ رونے والی تنظیمیں اسے دہلی پولیس کی یکطرفہ کارروائی کانام دیتی اور دہلی پولیس کا داغدار چولا مزید داغدار ہوجاتا۔ یہ احساس پولیس کو تھا مگر مسلم نوجوانوں کو نہیں تھا جنھوں نے قومی راستوں پر ڈیرا ڈال رکھا تھا ۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ وہ رات جس میں انسانوں کی تقدیروں کے فیصلے ہوتے ہیں ․․․․اس رات عبادت کر نے اور اپنے رب کو منا نے کے بجائے دہلی میں کچھ بد قسمت اﷲ پاک کی ناراضگی مول رہے تھے ۔ یہ واقعہ ہوا اور دوسرے دن اس کی چوطرفہ مذمت ہو ئی اور مسلمانوں کی ملک کے آئین کے تئیں ’’وفاداری‘‘ پر بھی سوال اٹھے۔یہ صرف ایک دہلی کا ہی المیہ نہیں ہے اور نہ ہی شب برات کا موقع ہی اس کے لیے خاص ہے بلکہ یہ کام ہراس شہر میں انجام دیے جاتے ہیں جہاں مسلمانوں کی بڑی تعداد ہوتی ہے اورہر مذہبی دن اور عیدکے مقدس ایام میں ایسے بدنما کام کیے جاتے ہیں ۔اس وقت تو حد ہوجاتی ہے جب نماز عید ادا کر تے ہی نوجوان ٹولیاں بنا بنا کر سنیما گھروں کو آباد کر دیتے ہیں۔ذرا احساس کیجیے ایک وہ قوم جو کل تک روزے سے تھی اور گناہوں سے بچ رہی تھی آج جیسے ہی روزہ کھلا پھر گناہوں اور حرام کاریوں میں ملوث ہو گئی ۔ یہ کتنے دکھ افسوس کی بات ہے ․․․․مگر نوجوانوں اس کی پر اہ نہیں ہے ‘کسی کا دل روئے تو روتا رہے ‘ہم تو فلم دیکھیں گے ۔ شاید یہ برادران وطن کی دیکھا دیکھی ایسا کرتے ہیں جن کا کام ہی مستیاں کر نا اور خرافات کر نا ہے ۔

ایسی خرافات کا ذمے دار کون ہے؟یہ ایک ایسا سوال ہے جو بہت ہی شدو مد سے اٹھایا جاتا ہے لیکن اس کا جواب آج تک نہیں مل سکا ․․․․سماج اور معاشرے کی اصلاح کی کوشش کر نے والے کہتے ہیں کہ ان حالات کے ذمے دار ’’ماں باپ‘‘ ہیں ۔یہ ناقابل انکار حقیقت بھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر وہ اپنے بچوں کو قاعدہ قانون سکھا کر رکھیں ‘انھیں ملک کے حساس اور نازک حالات سے باخبر رکھیں اور قومی اثاثوں کی اہمیت انھیں بتائیں تو ملک میں امن و سلامتی کی فضا بحال ہو جا ئے گی اورجرایم و حادثات میں قابل قدر کمی آئے گی ․․․․․مگر میرا احساس ہے کہ ماں باپ جیسی مخلوق خود ہی ان روایات سے واقف نہیں ہے ۔وہ خودایسے کارنامے انجام دے کر جوانی اور بوڑھاپے کو پہنچی ہے ۔بچہ ماں باپ سے ہی سیکھتا ہے ‘وہ جیسے ماں باپ کو کرتا دیکھتا ہے ویسا ہی کر تا ہے ۔یہ حقیقت ثابت کر تی ہے کہ ماں باپ ہی ان خرافات کے ذمے دار ہیں اور ان کے بچوں کے کیے ہو ئے گناہ ان کی گر دن پر ڈالے جائیں گے۔

ان حالات کے پیش نظر میں ہندوستان کے مسلمانوں سے چند بہت ہی حساس بات میں کہنا چاہتاہوں:
:-1میں نے مانا کہ ہم ہندوستان میں کرائے دار نہیں بلکہ حق دار ہیں۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ملکی اثاثوں اور اداروں ‘نظاموں ضابطوں اور قوانین کو توڑیں ۔ یاد رکھیے !ہم مسلمان ہیں اور ایک مسلمان جس قدر اپنے دین اور مذہب‘اﷲ ورسول سے محبت کر تا ہے ‘وطن‘اہلیان وطن‘وطن کے سرمایوں ‘وطن کے نفع و نقصان غرض ہر شے سے اسے ایسی ہی محبت کر نی چاہیے۔ملک میں رہنے والی اقوام اور ملِتوں کااحترام کر نا چاہیے اور ان کے ساتھ نیک سلوک کر نا چاہیے نیز ملک کے قوانین کا احترام کر نا چاہیے۔ یہ تعلیم ہمیں رسول اﷲ ﷺ نے دی ہے ۔جب آپ نے مدینہ منور کو اپنا وطن بنایا تو آپ نے وہاں کی اقوام کو اس وقت تک شہر سے باہر نہیں نکالاجب تک ان کی شرپسندیاں منظر عام پر نہ آگئیں اور ان کی شرارتوں سے خلق خدا پریشان نہ ہو گئی اور ان کی گستاخیاں حدود سے متجاوز نہیں ہو گئیں․․․․․․اس آئینے میں ہم اپنا منہ دیکھیں !ہمارے کرتوتو ں سے خلق خدا پر یشان ہے ‘ہمارے کارنامے ملک میں انارکی پھیلادیتے ہیں اور ہماری حرکتوں سے ملک کا عمل معطل ہو کر رہ جاتا ہے ۔ایسے میں اگر انتظامیہ اورحکومت کو ئی کارر و ا ئی کر یں تو اسے ناجائز کیسے کہا جاسکتا ہے۔

2۔:ہم اس ملک میں اخلاقی معاہدوں کے تحت مقیم ہیں ورنہ تقسیم کے وقت ہمارے لیے دروازے کھلے ہو ئے تھے ‘ہم پاکستان جاسکتے تھے ‘ہندوستان کو خیرآباد کہہ سکتے تھے․․․․․مگر نہیں !ہم نے اس مصیبت کی گھڑی میں بھی ایک بہترین فیصلہ کیا تھا اور اپنے ملک سے چمٹے رہے ۔ہم ہندوستان میں ہی رہے اور وطن دوستی کے دم بھرتے رہے۔لیکن یہ کہاں کی وطن دوستی ہے کہ سڑکوں پر جام لگادیا جائے ‘ انتظامیہ کو بے بس کر دیا جائے اور قانو ن کو ہاتھ میں لے کر اس کے تانے بانے بکھیر دیے جائیں ۔یہ وطن سے غداری نہیں تو اور کیا ہے؟پھر جب اس کی پاداش میں ہم پر مصیبت آتی ہے تو ہم ظلم و زیادتی ا ور ناانصافی کا رونا روتے ہیں ۔

یا درکھیے !یہ مصیبتیں خود ہماری ہی لائی ہوتی ہیں․․․․پاؤں پر خود پتھر ڈالنے کے بعد اس کا ذمے دار اگر ہم کسی دوسرے کو ٹھیرائیں تو سب ہمیں پاگل اور بے وقوف کہیں گے۔ہم اﷲ پاک کو ناراض کر کے خود ہی مصیبت بلاتے ہیں اور اس کا الزام پولیس ‘عدلیہ اور حکومتوں کے سر ڈال دیتے ہیں ۔یہ حماقت در حماقت ہے اور حماقتوں کی سزا فوری ملا کر تیہے ۔

3:۔مذہبی جنون کی آڑ میں ملک میں ہنگامہ کر نے کی کسی کو اجازت نہیں ہے نہ ہندو کو نہسکھ و عیسائی کو پھر مسلمان کیوں بے راہ رو ہوجاتے ہیں اور ان کا مطالبہ ہوتا ہے کہ آج کی رات‘دن ہمیں جی بھر کے خرافات کر نے دیجیے۔․․․․․․یہ عمل گناہ کبیرہ اور بعض حالات میں تو حرام بھی ہوجاتا ہے ۔مقدس راتوں اور دنوں میں اگر ہم ایسے حرام کام انجام دیں گے تو کیا ہمیں خاک جنت ملے گی؟ہمیں عبادت کا ثواب ملے گا ؟خاک ہمیں ہمارے گناہ معاف ہوں گے؟کو ئی ہمیں مسلمان تک نہیں کہے گا ۔ہاں!اسلام اور مسلمان کے نام پر بد نما داغ تو کہہ سکتا ہے۔

بہت سی تلخ باتیں ہیں جو اس وقت زیر قلم آنے کو بے تاب ہیں مگر میں سلسلۂ گفتگو کو طول دینے کے بجائے امت مسلمہ بالخصوص نوجوانوں سے یہی درد مند درخواست کر وں گا کہ ماضی میں جو کچھ ہوا سو ہوا‘ عہد کیجیے آیندہ ایسی خرافات نہیں ہوں گی بلکہ ہم ملک کے آئین‘قانون ‘انتظامیہ اور سلامتی کا احترام کر یں گے․․․․․سامنے عید الفطر کا مقدس دن ہے آئیے اس دن ہم عبادتوں میں غرق ہو جا ئیں اس طرح کہ اقوام وطن ہم سے عبادت کا طریقہ سیکھیں ۔

میرا احساس جہاں تک پہنچ رہا ہے میں وہاں تک تمام انسانیت کو عید الفطرکی پر خلوص مبارک باد دیتا ہوں اور میری دعا ہے کہ یہ عید ہمارے ملک ‘ملت اور پورے عالم کے لیے مبارک ثابت ہو۔
نہیں ہے شوخ میرا درد نہ انداز بیاں میرا
اترجائے دلوں میں بات یہ ہے بس فغاں میری
IMRAN AKIF KHAN
About the Author: IMRAN AKIF KHAN Read More Articles by IMRAN AKIF KHAN: 86 Articles with 62314 views I"m Student & i Belive Taht ther is no any thing emposible But mehnat shart he.. View More