حنیف صاحب جب دعا مانگتے تو ان
کی کیفیت بڑی عجیب ہوتی۔ وہ مکمل سراپائے عجز وانکساری بن جاتے ۔ ایسا
محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ان کے جسم کا ہر حصہ ، ان کے بدن کا ہررواں التجا
بن گیا ہے ۔ یوں لگتا تھا کہ ان کے جسم کا ہر حصہ اﷲ کے سامنے سوالی بن گیا
ہے ۔ ان کے ساتھ دعا میں شریک ہونے والوں کو بھی عجیب کیفیت ہوتی۔ سب گڑ
گڑا رہے ہوتے ، توبہ کرتے، اﷲ کے سامنے اپنے عجزوانکساری ، اپنی کمزوریوں
کا اعتراف کرتے ۔ سب کو اپنے گناہوں کا احساس ہوتا، ندامت محسوس ہوتی ، عرق
انفعال کے قطرے پشانیوں پر موتی بن کر نمودار ہوتے اور ایسا محسوس ہوتا کہ
اﷲ کی رحمت نے سب کو ڈھانپ لیا ہے ۔ میں بہت سے لوگوں کی دعاؤں میں شریک ہو
چکا ہوں لیکن اس طرح کی کیفیت میں نے بہت کم لوگوں میں دیکھی۔ مجھے حنیف
صاحب پر رشک آتا تھا۔ اپنے آپ پر ندامت محسوس ہوتی تھی کہ مجھے تو اﷲ سے
مانگنے کا ڈھنگ اور سلیقہ بھی نہیں آتا۔ بے دلی یا نیم دلی سے دعائیں مانگ
لیتا ہوں پھر اﷲ سے شکوہ بھی خاکم بدہن کرتا ہوں کہ اﷲ میری دعائیں قبول
کیوں نہیں کرتا۔ ایک دن میں نے تنہائی میں حنیف صاحب سے ذکر کیا کہ جب آپ
اﷲ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہیں تو آپ پر ایک خاص کیفیت طاری ہو جاتی ہے ۔ آپ
باالکل کھو جاتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کے جسم کارواں رواں اﷲ
سے مانگ رہا ہے یہ کیفیت آپ میں کیسے پیدا ہوئی ، حنیف صاحب انکساری کا
مظاہرہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ سید صاحب! میں اﷲ کا عاجز اورگناہ گار بندہ
ہوں ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اﷲ تعالیٰ کو منانے اور راضی کرنے کی کوشش کرتا
ہوں اگر وہ راضی ہو جائے ، مان جائے تو سمجھ لیجئے کہ بیڑا پار ہو گیا ،
نہیں راضی ہوا، نہ مانا تب بھی اس کے سوا کوئی اور درنہیں کس سے مانگیں، کس
سے التجا کریں بس مانگتے رہیں گے ، اسے مناتے رہیں گے ۔ انہوں نے مجھے نہیں
بتایا کہ انہوں نے مانگنے کا یہ سلیقہ کہاں سے سیکھا ۔ اس کے بعدجب بھی ان
سے ملاقات ہوئی میں ان سے ضرور پوچھتا کہ انہوں نے اﷲ سے مانگنے کا یہ
طریقہ کہاں سے سیکھا وہ ٹال جاتے ۔ ایک دن انہوں نے مجھے بتایا کہ سید صاحب
مجھے معلوم ہے آپ رائٹر ہیں جو کچھ میں بتاؤں گا آپ اسے تحریری شکل میں لے
آئیں گے میں نہیں چاہتا کہ میرا نام لوگوں کے سامنے ظاہر ہو ۔ میں نے ان سے
وعدہ کیا کہ ان کا اصل نام ظاہر نہیں کروں گا اور نہ مقام بتاؤں گا تا کہ
ان کا راز افشاء نہ ہو ۔ کہنے لگے نہیں آپ میری زندگی میں اسے شائع نہیں
کریں گے ہاں میرے مرنے کے بعد آپ اسے لکھ سکتے ہیں۔ میں نے ان سے وعدہ کر
لیا پھر انہوں نے مجھے اپنی دعاؤں میں اس خاص کیفیت کا راز بتا دیا۔ عجیب
اتفاق ہے کہ اس رمضان المبارک کی 13ویں شب کو ان کا انتقال ہو گیا۔ ان ﷲ و
انا الیہ راجعون، اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے ۔ اﷲ والے لوگ اپنے نیک
اعمال کی پبلسٹی اور شہرت نہیں چاہتے ۔بس خاموشی سے اپنا کام کرتے رہتے ہیں
حالانکہ یہ دور تو مارکیٹنگ اور پبلسٹی کا ہے ۔ اب تو نیکی کے کاموں کے لئے
بھی خصوصی مارکیٹنگ کی جاتی ہے ۔ اب حنیف صاحب کی کہانی خود ان کی زبا نی
سنیئے ۔ نہایت کم عمری میں ہی گھریلو حالات کی وجہ سے مجھے ملازمت کرنی پڑی
میٹرک کا امتحان دینے کے فوراً بعد ہی میں ملازمت کرنے لگا۔ والد صاحب
بیمار تھے اور گھر میں کمانے والا کوئی نہ تھا۔ ملازمت کے ساتھ ساتھ میں
جزوقتی طالب علم کی حیثیت سے پڑھتا بھی رہا اور پرائیویٹ امیدوار کے طور پر
گریجویشن کیا ۔ مجھے ایک فیکٹری میں کلرک کی جاب مل گئی اور میں خوب محنت
سے کام کرنے لگا۔ میں اپنے باس کو ہر ممکن خوش کرنے کی کوشش کرتا ۔ چھٹی کے
علاوہ بھی فاضل وقت کام کے لئے دیتا اسطرح میرا باس مجھ سے بہت خوش تھا پھر
میں فیکٹری کے سیٹھ کی نظروں میں آگیا ۔ اس نے میرے کام سے خوش ہو کر مجھے
مینجر کے عہدے پر ترقی دے دی میں اپنا کام نہایت ایمانداری اور محنت سے
سرانجام دیتا ۔ سیٹھ مجھ سے بہت خوش تھا۔ وہ مجھ سے اضافی کام لیتا میں
خوشی خوشی اس کا کام کرتا اب وہ مجھ سے اپنے ذاتی کاموں کا بھی کہنے لگا
اور میں اس کے ذاتی کام بھی خوشی خوشی کرنے لگا۔ سیٹھ مجھے اچھی تنخواہ
دیتا تھا اور اس نے گاڑی بھی دی ہوئی تھی۔ میں دن رات اس کی خوشنودی کے لئے
کام کرتا رہا ۔ میں اپنے گھر ، اپنی ذات اور اپنے بیوی بچوں کو بہت کم وقت
دیتا تھا ۔ میں ان کی ہر طرح کی ضروریات پوری کرتا لیکن میں دین کے لئے وقت
نہیں نکال سکتا تھا ۔ میں سیٹھ کو ہر طرح راضی رکھنے کے لئے ہر ممکن کوشش
کرتا ۔ اس کے کہنے پر مزدوروں کی تنخواہیں کاٹ دیتا۔ لوگوں سے سخت رویہ
اختیار کرتا اور سیٹھ کی طرف سے ملنے والی ہر داد پر بے حد خوش ہوتا ، سیٹھ
کی جانب سے تعریف کا ہر جملہ میرے لئے کامیابی کی کسی بڑی سند سے کم نہ
ہوتا۔ وقت اسی طرح گزرتا رہا ۔ میں نے اس سیٹھ کے ساتھ بیس سال تک کام کیا۔
اپنی جوانی ، اپنی زندگی کا بہترین وقت اس کے لئے ، اس کی فیکٹری اور اس کے
گھر کے لئے وقف کر دیا۔ پھر سیٹھ کے ساتھ ساتھ اس کے بیٹے بھی فیکٹری کے
معاملات سنبھالنے لگے ۔ اس طرح میرے اختیارات میں کمی آنے لگی ۔ جو معاملات
پہلے میں دیکھتا تھا اب وہ سیٹھ کے بیٹے دیکھتے تھے یہ بات مجھے محسوس ہونے
لگی ۔ سیٹھ کے بیٹے بات بات پر مجھے ڈانٹنے لگے میں ذہنی دباؤ کا شکار ہو
گیا۔ سیٹھ کے بیٹوں کا خیال تھا کہ سیٹھ نے مجھے زیادہ ہی سر پر چڑھا رکھا
ہے ۔ اب سیٹھ بھی اپنے بیٹوں کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتا تھا۔ پھر ایک
دن ایسا ہوا کہ میں پروڈکشن کے اوقات میں ایک جونیئر مینجر کو چھوڑ کر جمعے
کی نماز پڑھنے چلا گیا اور جونیئر مینجر کو تاکید کی کہ پروڈکشن کا خیال
رکھنا کہیں غلطی نہ ہو جائے میں نماز پڑھ کر آتا ہوں پھر تم دوسری مسجد میں
جہاں نماز ذرا دیر سے ہوتی ہے وہاں چلے جانا۔جونیئر مینجر نے کہا کہ تم فکر
نہ کرو میں سب سنبھال لوں گا لیکن میرے جانے کے بعد وہ گپ شپ میں مصروف ہو
گیا اور پروڈکشن میں خرابی آگئی۔ لاکھوں کا نقصا ن ہو گیا۔ اتفاق سے سیٹھ
کا بیٹا بھی آگیا ۔ اس نے یہ نقصان دیکھا تو وہ آگ بگولہ ہو گیا اور اس نے
کہا یہاں کس کی ذمہ داری تھی۔ جونیئر مینجر اور کچھ دوسرے لوگوں نے جوپہلے
ہی مجھ سے حسد کرتے تھے میرا نام لے لیا۔ سیٹھ کے بیٹے جسے سب چھوٹے سیٹھ
کہ کر پکارتے تھے اس نے کہا کہ جب حنیف آئے تو اسے میرے سامنے حاضر کرو میں
نماز پڑھ کر واپس آیا تو مجھے سیٹھ کے بیٹے کا پیغام ملا ۔میں اس کے دفتر
میں گیا تو وہ شدید غصے کی حالت میں تھا اس نے مجھے سخت سنائیں، خوب میری
بے عزتی کی اور کہا کہ ایک مہینے کی تنخواہ لو اور دفع ہو جاؤ میرے پاؤں
تلے سے زمین سرک گئی میں نے اس فیکٹری کو اپنی زندگی کے بیس سال دیئے تھے۔
اپنی جوانی دی تھی او رآج مجھے میری خدمات کا صلہ یہ مل رہا تھا۔ میں روتا
ہوا بڑے سیٹھ کے پاس گیا ۔ بڑے سیٹھ میرے ساتھ گئے اپنے بیٹے سے تاکہ میری
سفارش کر سکیں اور میری طویل خدمات کا حوالہ دے سکیں۔ سیٹھ کے بیٹے نے کہا
ڈیدی جو فیصلہ میں نے کر لیا ہے وہ حرف آخر ہے اب اگر میں اسے بدل دوں گا
تو میرے حکم کی کوئی وقعت نہیں رہے گی اور باقی ملازمین پر سے میرا رعب و
دبدبہ ختم ہو جائے گا۔ اس طرح مجھے ایک ماہ کی تنخواہ دی گئی اور میری چھٹی
ہو گی۔ ان دنوں میری بیٹی کی شادی کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ میں شدید دباؤ
کا شکار ہو گیا کیوں کہ اب میرے جسم میں پہلے جیسی توانائی نہیں تھی۔ اب
میرے لئے نئی ملازمت حاصل کرنا بھی مشکل تھی۔ میرے لئے سب سے بڑی مشکل یہ
تھی کہ مجھے اپنی بچی کے ہاتھ پیلے کرنے تھے اور میں بیروزگار ہو گیا تھا ۔
میں سوچ سوچ کر پاگل ہو رہا تھا۔ ذہنی دباؤ اتنا بڑھا کہ مجھے ہسپتال داخل
ہونا پڑا ۔اسی ہسپتال میں ایک مہربان اور دیندار ڈاکٹر نے میرا علاج کیا۔
وہ اکثر میرے پاس آتا۔ بہت ہی ادب سے مجھے سلام کرتا اور میرا حال پوچھتا
میں نے اسے اپنا سارا حال بتایا۔ اس نے مجھے کہا کہ حنیف صاحب! جب ہم اﷲ کو
بھول کر مخلوق کو راضی کرنے میں لگ جاتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ مخلوق
کو راضی رکھنا بہت مشکل کام ہے ۔ آپ کے آنسو ، آپ کی التجائیں آپ کی منتیں
سیٹھ کے دل کو نرم نہ کر سکیں لیکن اب ذرا اپنے رب کے پاس جا کر دیکھئے ۔
اسے منائیے پھر دیکھئے کہ اﷲ کی رحمت کی بارش آپ پر کیسے برستی ہے ۔ بس سید
صاحب!و ہ دن اور آج کا دن میں نے اپنی طرز زندگی تبدیل کر دی۔ میرے شب و
روز بدل گئے ۔ اس کے بعد میں نے جہاں بھی ملازمت کی میں نے یہ شرط رکھی کی
عصر کے بعد باالکل نہیں بیٹھوں گا کیوں کہ عصر سے عشاء تک چار دن میں اﷲ کے
لئے اسے منانے ، اسے راضی کرنے کے لئے صرف کرتا ہوں جبکہ تین دن اپنے بچوں
، اپنے گھر والوں کو دیتا ہوں،مجھے تنخواہ پہلے کے مقابلے میں کم ملتی ہے ۔
صرف بنیادی ضروریات ہی بمشکل پوری ہوجاتی ہیں لیکن میں مطمئن ہوں۔ سید صاحب!
ہم سالہا سال تک دفتروں ، اپنے محکموں، فیکٹریوں ، اپنے باسوں، اپنے سیٹھوں
کو وقت دیتے رہتے ہیں، ان کی خوشنودی اور رضاکے لئے ہر وقت سرگرم رہتے ہیں
۔ ہم سب کچھ بھول جاتے ہیں لیکن ہمارے سیٹھ، ہمارے باس بعض اوقات ہماری ایک
خطا پر ہماری ساری عمر کے تجربے، محنت اور خدمات کو فراموش کر کے ہمیں
دھتکار دیتے ہیں جبکہ ہم اپنے پیارے رب ، اپنے اﷲ ، اپنے معبود کی ہر وقت
نافرمانیاں کرتے ہیں، اسکے حکم کو نظر انداز کر دیتے ہیں، اس کے حبیبﷺ کی
سنتوں کا مذاق اڑاتے ہیں، دنیا میں مگن رہتے ہیں لیکن جب بھی اﷲ کے سامنے
ہاتھ پھیلاتے ہیں، اس کے سامنے عاجزی اور انکساری سے اپنی بے بسی کا اظہار
کرتے ہیں، اپنے آنسوؤں کا ٹوکن ڈال دیتے ہیں تو اس کریم ، رحیم رب کی ذات
ہمیں معاف کر دیتی ہے ، ہماری خطاؤں کو درگزر فرما دیتی ہے ۔ بس جب بھی اﷲ
تعالیٰ سے دعا مانگتا ہوں یہی سوچ کر مانگتا ہوں کہ وہ خطا کار اورگناہ گار
بندوں کا بھی رب ہے ، وہ شہ رگ سے زیادہ قریب ہے ، وہ دلوں میں چھپے بھید
جانتا ہے ، وہ ہماری نیتوں سے واقف ہے بس ہمیں ذرا اس سے مانگ کر تو دیکھنا
چاہیے ، اس کا درکھٹکٹا کر تھوڑا سا انتظار کرنا چاہیے ۔ آج ہم پر جو
اجتماعی مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں، ملک پر جو آفات اور مصیبتیں آرہی ہیں،
جس طرح ہر شخص پریشان ہے اس کی وجہ سے بھی یہی ہے کہ ہم اﷲ کو راضی کرنے کے
سوا باقی سب کو راضی کرنے میں مصروف ہیں، ہم ورلڈ بینک ، آئی ایم ایف اور
عالمی طاقتوں کو راضی کرنے میں مصروف ہیں اور وہ ہیں کہ ہم سے ’’ڈومور‘‘ کا
مطالبہ کئے جا رہے ہیں ایک دفعہ پوری قوم مل کر اﷲ کو راضی کرنے میں لگ
جائے ، اس کی منتیں کرے ، عاجزی، انکساری اور بے بسی کا اظہار کرے ۔ پوری
قوم سود سے توبہ کرے ، اﷲ کی نافرمانیوں سے توبہ کر کے اس کی مان کر چلنے
کا ارادہ کرے تو اﷲ کی رحمت کی گھٹا فوراً ہی برس پڑے گی ، ہمارے مسائل حل
ہونا شروع ہو جائیں گے ۔ بس پوری قوم اﷲ کو راضی کرنے میں لگ جائے ، اسے
منانے کی فکر کرنے ، اگر وہ راضی ہو گیا تو اقتصادی راہداری سمیت سارے
منصوبے کامیاب ہو جائیں گے لیکن اگر اسے راضی نہ کر سکے تو پھر کوئی
کامیابی کامیابی نہیں رہے گی۔ |