اک ’’روائت ‘‘جو بہر حال زندہ ہے

ایک خاموش صبح ۔۔۔پرندوں کی آنکھ کھلنے کا وقت ہے۔خاموش فضا ؤں میں اکا دکا چڑیوں کی چوں چوں۔۔۔اور کہیں پھڑپھڑاہٹ۔۔ ۔ندیوں کی شائیں شائیں ،یہ سب ملکر بڑا ہی پر امن و رومان پرورماحول بنائے ہوئے ہیں ۔ہاں۔۔۔صرف انکے لئے جو آسودہ حال ہیں لیکن انکے لئے بڑا ہی دکھ دائیک و بے معنی جو زیر عتاب ہیں ۔۔۔ظلم و جبر کے ۔۔۔ایسے بیمانہ جبر جو انکی قسمت کا لیکھ نہیں مگر ۔۔۔سہنا ہے ۔۔۔جانے کب تلک ۔۔۔؟
انت ناگ ’’اسلام آباد‘‘کا ایک گاؤں ہے جس کے نکر پر ایک چھوٹی سی مسجد ہے جسکے کشادہ صحن میں کچھ لوگ جنمیں مرد عورتیں بچے بوڑھے سب جمع ہیں اور آہستہ آہستہ انمیں اضافہ ہو رہا ہے ۔عورتیں ایک طرف ہیں جو رو رہی ہیں ۔۔۔ان میں سے کچھ خامشی سے آسمان کوگھور رہی ہیں اور کچھ انہیں ڈھارس بندھا نے کی کوشش میں مشغول ہیں ۔۔۔بچے سہمے ہوئے ہیں اور بزرگ سب خاموش ہیں۔۔۔پریشان ہیں کوئی کسی سے کچھ نہیں کہتا ۔۔۔گم سم۔۔۔ایک طرف کچھ سامان جسمیں ایک پرانے کپڑے کی پوٹلی میں سوکھی روٹیاں ،ایک کپڑے کی گدی جسے بوجھ اٹھانے کیلئے کندھے پر رکھا جاتا ہے ،ایک لکڑی کا فریم اور رسی جس سے اسے کمر کے ساتھ باندھا جاتا ہے،ایک اضافی گھاس کا جوتا ہے۔۔۔’’ شائد کوئی بہت دور کا مسافر ہے جو آج الودع ہو گا‘‘۔

اس ہجوم میں ایک طرف تمام لوگوں کی توجہ کا محور’’ دو نوجوان‘‘ ہیں جو ا نتہائی افسردہ بیٹھے ہیں ۔۔۔ سوکھے ہونٹ ۔۔اتنے مایوس کہ زباں سے بول نہیں پاتے۔وہ کبھی لوگوں کو کبھی بہن بھائیوں کو کبھی گاؤں کی فضاؤں کو گھورتے ہیں اور بس۔۔۔اس کے کچھ ہی فاصلے پر ایک مندر ہے وہاں بھی کچھ ایسا ہی منظر ہے اور لوگ جمع ہیں ۔۔۔مسجد اور مندر ۔۔۔پجاری بھجن کر کے اور ملاّ وعظ نصیحت سے ماحول کو قابو کرنے میں لگے ہیں۔۔۔اتنے میں کسی نے آواز دی ،چلیں جانے کا وقت ہو گیا۔۔۔بوڑھے عبداﷲ کے جواں بیٹے’’ رمضان اور رحمن‘‘ اٹھے اپنا اپنا سامان اٹھایا اور قدم بڑھایا ہی تھا کہ ان کے معصوم بچے ان کی ٹانگوں سے لپٹ گئے بہنوں کی چیخیں نکل گئیں اور گاؤں بھر میں کہرام مچ گیا۔۔۔ جوانوں کی رخصتی ہو رہی تھی، کون جانے دوبارہ ملاقات ہوگی ۔۔۔؟دیدار ہو گا۔۔۔؟کیونکہ جس راہ پہ وہ چلے تھے وہاں سے شازونازر ہی کوئی لوٹ کر آیا ہوگا۔اور اس وقت جانیوالوں کے دل پہ کیا گزر رہی تھی۔۔۔؟انکے بچے ۔۔۔بیوی ،بہن بھائی ،والدین اور انکے خوبصورت خواب ۔۔۔۔ان کا کیا ہوگا؟

یورپ سے کسی این جی او کے ساتھ آئے ہوئے ’’ڈاکٹر آرتھریو‘‘ کہتے ہیں !! اس علاقے میں ایسے انسانیت کو جھنجھوڑنے والے مناظر اکثر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ جب حکومتی اہلکار ریاستی نوجوانوں کو جبراً سرکاری کاموں کے لئے پکڑ کر دور دراز علاقوں میں لے جاتے ہیں اور انکے اپنوں سے جدا ہونے کے مناظر اس قدر کرب ناک ہوتے کہ مضبوط سے مضبوط دل انسان بھی مشتعل ہو جائے۔

ایک اور یورپی سیاح ’’نائٹ‘‘اپنے سفر نامے میں لکھتا ہے کہ ملک کی شمالی سرحد واقع گلگت بلتستان ،استور میں متعین افواج کو راشن اور دوسری ضروریات کی فراہمی کے لئے بڑی مقدار میں ٹرانسپورٹ کی ضرورت پڑھتی جو کہ کشمیری حکام اپنے عوام کے جذبات و احساسات کی پرواہ کئے بغیر گھروں سے گھسیٹ کر لے جاتے ۔۔۔کئی کئی مہینے ۔۔۔بنجر و بے برگ وگیاہ علاقوں میں مشقت کرواتے ،اکثر نوجوان بھوک و پیاس کی شدت سے راہ میں تڑپ تڑپ کر جان دے دیتے اور سینکڑوں کمزوری کے باعث برفانی دروں میں سردی سے مر جاتے ۔

یہ تھا بدنام زمانہ’’ڈوگرہ‘‘عہد کاظالمانہ انداز حکمرانی اور اس جبری مزدوری کو ’’بیگار‘‘کہا جاتا تھا اور ہے ،کہ جسے چاہے جب چاہے جبراً سرکاری کام پر لگا دیا جاتا ۔۔۔وہ جب چاہتے جنہیں چاہتے طلب کر لیتے ۔نا ں آنے کی صورت میں حکومتی اہلکار گھروں میں گھس کر انہیں گھسیٹ کرلے جاتے ۔یہ ایسا غیر انسانی انداز حکمرانی تھا کہ کسی کو اجرت کجا کھانا اور پانی تک نہ دیا جاتا۔

لوگوں کو دو گرہوں میں تقسیم کیا جاتا اور جوان گروہ پر بھاری اناج جانوروں کی طرح لاد دیا جاتا اور انہیں استور ،گلگت اور دوسرے پہاڑی علاقوں و صحراؤں میں سپاہی ہانک کر لے جاتے جو بڑا ہی درد ناک و کرب ناک منظر ہوتا ۔۔۔ایسا ظلم و ستم جو سائبیریا کے صحراؤں میں بھی نہ ہوا ہوگا ۔۔۔یہ لوگ قیدی ہیں نہ مجرم ہیں ۔۔۔فقط اس دیس کے راجہ کی رعایا ہیں ۔جب جب گاؤں والوں کو یہ خبر ملتی کے حکومتی اہلکار’’بیگار ‘‘کے لئے آدمی لینے آنے والے ہیں تو سب مرد چھپنے کی کوشش کرتے اور بعض اوقات اہلکار ’’رشوت‘‘ کے عوض بعضوں کو بری بھی کر دیتے ۔اس ظالمانہ دور کا آغاز 1846ء میں ریاست میں’’ ڈوگرہ‘‘دور حکومت کے قیام سے شروع ہوا ،جب ریاستی عوام کو چار صدیوں پر محیط طویل ترین غلامی سے نجات ملی اور دیس پھرسے آزاد اممالک کی صف میں شامل ہوا اورغیر ملکی حکمرانوں سے چھٹکارہ نصیب ہوا ۔لیکن شومئی قسمت کہ یہاں کے عوام اپنے راجہ کے بد ترین نظام سے ایک سو سال تک نبردآزما رہے تب جا کر اس جابرانہ نظام کیخلاف ایک تحریک چلی جو انجام تک تو نہ پہنچ پائی ۔۔۔البتہ ملک تقسیم ہو گیا اور ’’ڈوگرہ‘‘جبر بھی اختتام کو پہنچا ۔اس نظام کے خاتمے کو آج چھسٹھ برس بیت گئے ،وقت بدلا ضرور ہے لیکن لوگوں کی قسمت نہیں بدلی۔آج بھی وہ سب اسی آن بان شان سے ہو رہا ہے ۔۔بس انداز ہی تو بدلہ ہے ۔۔۔اس وقت جبراً گھروں سے لے جایا جاتا تھا تو آج بھی’’ رحمن و رمضان‘‘ جیسے نوجوانوں کی اکثریت حکومتی اہلکاروں کے حکم پر نہیں بلکہ حکمرانوں کے پیدا کردہ حالات سے مجبور گاؤں کی مسجد کے آنگن میں نہ سہی گاؤں کی نکر سے جب دیار غیر کے طویل سفر پہ نکلتے ہیں تو بچے انکی ٹانگوں سے لپٹ کر روتے ہیں اور مائیں بہنیں آہوں اور سسکیوں میں انہیں الوداع کرتی ہیں۔اس وقت لوگ اس راہ میں بھوکے پیاسے جان دیدیا کرتے تھے اور کسی کو خبر تک نہ ہوتی کہ انکے جگر کے ٹکڑے کہاں جان ہارے۔ لیکن آج کم از کم پردیسوں میں کوئی بھوکا نہیں مرتا ۔۔۔سانس ابھی باقی ہے۔۔۔ اپنوں کو با خبر رکھنے کی سہولت میسررہتی ہے ۔ہاں ۔۔۔اس وقت جانے والے کی واپسی کی کوئی امید نہ ہوا کرتی تھی ۔۔۔مگر اب ۔۔۔اتنا ضرور ہے کہ بیس برس بعد ۔۔۔تیس برس بعد ۔۔۔صندوق ہی سہی ۔۔۔ لیکن واپسی ضرور ہوتی ہے اور آج ’’ڈوگرہ‘‘ راج نہیں ہے مگر ایک ’’روائت‘‘ جو بہر حال زندہ ہے۔

Niaz Ahmed
About the Author: Niaz Ahmed Read More Articles by Niaz Ahmed: 98 Articles with 82368 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.