کراچی کے شہری جس طرح آج
کل ٹوٹی پھوٹی بسوں کی چھتوں پر اور بسوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح سفر کرتے
ہیں۔ ان کے لئے انڈر گراونڈ ٹرین چلانے کی خوشخبری ایک مذاق کی حیثیت رکھتی
ہے۔ کراچی کے شہریوں سے کراچی کو لندن اور پیرس اور نیو یارک بنانے کے وعدے
کوئی نئی بات نہیں ہے۔ گذشتہ شہری حکومتوں اور صوبائی حکومت نے بھی ماضی
میں ایسے وعدے کئے ہیں۔ کروڑوں روپوں کے خرچ سے فیزیبیلیٹی رپورٹ بنی ہیں۔
ایک بار پھر نئی حکومت آئی ہے، جو کراچی کے شہریوں کو نئے سبز باغ دکھا رہی
ہے۔
کراچی کو لندن پیرس بنانے والوں نے کراچی کو کراچی بھی نہ رہنے دیا، کراچی
کی سڑکیں کبھی دھلا کرتی تھیں ، یہاں ٹرام وے چلتی تھی، یہاں پارک اور
باغات تھے، یہاں صفائی سھترائی اس وقت تھی جب یہاں تانگے، بگھی،اور گدھا
گاڑی چلتی تھی۔ کراچی میں تقسیم کے وقت بھارت سے آنے والے مسلمانوں کی بڑی
تعداد پڑھی لکھی اور تعلیم یافتہ تھی ۔ جنہوں نے پاکستان کی ترقی اور فلاح
و بہبود کے لئے واضح اور نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کراچی میں ایک مختصر دورے کے دوران اہل کراچی
کو یہ خوشخبری سنائی ہے کہ بہت جلد کراچی میں چین کی مدد سے میٹرو سروس
شروع کی جائے گی۔ اور اس سلسلے میں حال ہی میں چین سے معاہدے ہوئے ہیں۔
کراچی کے شہری جس طرح آج کل ٹوٹی پھوٹی بسوں کی چھتوں پر اور بسوں میں بھیڑ
بکریوں کی طرح سفر کرتے ہیں۔ ان کے لئے انڈر گراونڈ ٹرین چلانے کی خوشخبری
ایک مذاق کی حیثیت رکھتی ہے۔ کراچی کے شہریوں سے کراچی کو لندن اور پیرس
اور نیو یارک بنانے کے وعدے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ گذشتہ شہری حکومتوں اور
صوبائی حکومت نے بھی ماضی میں ایسے وعدے کئے ہیں۔ کروڑوں روپوں کے خرچ سے
فیزیبیلیٹی رپورٹ بنی ہیں۔ ایک بار پھر نئی حکومت آئی ہے، جو کراچی کے
شہریوں کو نئے سبز باغ دکھا رہی ہے۔ چند دن پہلے عالمی بنک کے نمائندوں نے
وزیر اعلی سندھ کو ایک بریفینگ دی ہے۔ جس میں کراچی کو عالمی معیار کا شہر
بنانے کیلئے شہری حکومت کو علیحدہ نظام سمیت متعدد تجاویز پیش کی گئیں۔
عالمی بینک نے کراچی کو ایک ورلڈ کلاس سٹی بنانے کے لیے یہاں شہری حکومت کا
الگ نظام نافذ کرنے ، یہاں کی اراضی پر سرکاری کنٹرول کو کم کرنے، بدامنی
اور مجرمانہ سرگرمیوں کے لئے ’’ زیروٹالرینس‘‘ اختیار کرنے، شہری ترقی کے
لیے عالمی معیار کا ایک الگ محکمہ قائم کرنے، انفرااسٹرکچر، ٹرانسپورٹ اور
پانی کی قلت کو دور کرنے کے لیے ان شعبوں میں مستقل سرمایہ کاری کا نظام
وضع کرنے اور آبادی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے نجی شعبے میں لینڈ اور
ہاو?سنگ مارکیٹس کو متحرک کرنے کی تجاویز دی ہیں۔ یہ تجاویز عالمی بینک کی
ایک پریذینٹیشن میں شامل ہیں، جو حالیہ دنوں گورنر سندھ کو دی گئی۔ عالمی
بینک نے اپنی پریذینٹیشن میں ورلڈ کلاس سٹی کے طور پر نیویارک کی ایک مثال
پیش کی، جہاں اعلیٰ ہنر مند اور جدید ورک فورس ہے، ٹیکنالوجی سے بھرپور
فائدہ اٹھایا جاتاہے، بہترین ٹرانسپورٹیشن اور انفرااسٹرکچر ہے۔ یہاں
خوشحال صحت مندانہ اور محفوظ ماحول ہے۔ اقتصادی سرگرمیوں اور کاروبار کرنے
کے لیے فضا انتہائی سازگار ہے۔آبادی کی درجہ بندی اور قابل رہائش ماحول ہے۔
پریزینٹیشن میں کہا گیا ہے کہ کراچی کو ورلڈ کلاس سٹی بننے کے لیے اہم
چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ اداروں کی تقسیم اور سرکاری سطح پر مربوط نظام
کا فقدان، شہری ترقی اور انتظامی صلاحیتوں کا محدود ہونا، بڑھتی ہوئی آبادی
اور لینڈ اینڈ ہاوئسنگ مارکیٹس کی طرف سے ضرورتیں پوری نہ کرنا،
ٹرانسپورٹیشن کا خراب نظام اور ناکافی انفرااسٹرکچر، جرائم اور عدم تحفظ
اور پانی کی قلت بڑے چیلنجز ہیں۔ ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے اداروں
کے مابین ایک مربوط اور موثر نظام وضع کیا جائے۔ زمنیوں پر سرکاری مالکانہ
حقوق کا اثر کم کیا جائے۔ شہری منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کے
صلاحیتوں کو بہتر بنایا جائے۔ لینڈ اینڈ ہاوئسنگ مارکیٹس کو زیادہ موثر
بنایا جائے تاکہ وہ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضرورتوں کو پورا کرسکیں۔ شہری ترقی
کا معیار بہتر بنایا جائے۔ٹرانسپورٹیشن، انفرااسٹرکچر، پانی کی فراہمی اور
امن وامان کو بہتر بنانے کے لیے سرمایہ کاری سے متعلق ایک بزنس پلان بنایا
جائے۔ پریذینٹیشن میں بین الاقوامی تجربات سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت پر زور
دیا گیا۔اداروں کے مابین رابطے کے مسائل پر قابو پانے کے لیے تجویز دی گئی
ہیں کہ کراچی میں دنیا کے بڑے شہروں کے چار گورنمنٹ ماڈلز میں سے کسی ایک
کو نافذ کیا جائے۔ایک ’’ یونٹری unitary))میٹروپولیٹن‘‘ گورنمنٹ کا ہے ، جو
شنگھائی، بیجنگ، شونگ چنگ، برلن، ہیمبرگ، نئی دہلی اور منی پولس میں نافذ
ہے۔ دوسرا ماڈل دو سطحی حکومت کا ہے، جو میڈرڈ، ٹورنٹو، اور لندن میں رائج
ہے۔ تیسرا ماڈل رضاکارانہ کوآپریشن کا ہے، جو سان فرانسسکو، بولوگنا،
مارسیلیز اور ساویپالو اے پی سی ریجن میں نافذ ہے۔ چوتھاماڈل حکومت کی
اعلیٰ سطحوں سے سروس کی فراہمی کا ہے،جو نیویارک کی پورٹ اتھارٹی، ممبئی
اور میلبورن میں رائج ہے۔ یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ کراچی میں ایک ٹاسک
فورس تشکیل دی جائے، جو سرکاری املاک کا شہری ترقی کے تناظر میں ازسر نو
جائزہ لے یا سرکاری زمینی اثاثوں کی نجکاری کرے۔ شہری منصوبہ بندی، مینجمنٹ
اور عمل درآمد کی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے پریزینٹیشن میں یہ تجویز دی
گئی ہے کہ کراچی میں ایک نیا ورلڈ کلاس اربن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ قائم کیا
جائے۔ شہری منصوبہ سازی، سول انجیئنرز اور پبلک فنانس کے ماہرین کے تربیتی
پروگرامز کو وسعت دی جائے۔ مذکورہ ڈیپارٹمنٹ کو زیادہ بااختیار بنایا جائے
اور شفافیت اور احتساب کو یقینی بنایا جائے۔ ان ڈیپارٹمنٹ میں بین الاقوامی
طور پر تسلیم شدہ شہری منصوبہ سازوں کو بھرتی کیا جائے۔ آبادی کے دباوئکا
مقابلہ کرنے کے لیے پریذینٹیشن میں اربن لینڈ مارکیٹس کو زیادہ فعال بنانے
کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے اور یہ تجویز دی گئی ہے کہ سندھ ہائی
ڈینسٹی ڈویلپمنٹس کو کی سفارشات کا ازسر نوجائزہ لیا جائے اور شہری اراضی
کے استعمال سے متعلق قواعد اور قوانین میں ایسی تبدیلیوں پر غور کیا جائے ،
جن سے نجی شعبے کی ترقی رفتار تیز ہو، ٹرانزٹ نوڈز (NODES) اور کوریڈورز کے
قریب گنجان آبادیوں کے دوبارہ زون بنائے جاسکیں اور ان گنجان آبادیوں میں
اضافہ کیا ہوسکے، بندرگاہ کے علاقے اور شہر کے مرکزی علاقوں کی ترقی کے لیے
سائٹس کی نشاندہی ہوسکے۔ پریذینٹیشن میں اربن ڈویلپمنٹ کا معیار بہتر بنانے
کے لیے بھی تجاویز دی گئی ہیں ، جن میں کہا گیا ہے کہ اربن ڈیزائن اور
پلاننگ کے نئے قواعدمتعارف کرائے جائیں۔ آرکیٹیکچر اور ڈیزائن کا معیار
بہتر بنایا جائے اور اس کے لیے اردگرد کے ماحول کو بھی مدنظر رکھا جائے۔
پارکس ، کھلی جگہوں ، میدانوِں اور فٹ پاتھ وغیرہ کے لیے مستقل سرمایہ کاری
کاانتظام کیا جائے۔ بدامنی اور عدم تحفظ کی فضا ختم کرنے کے لیے پریذینٹیشن
میں تجویز دی گئی ہے کہ کراچی میں نیویارک سٹی اور لندن کی طرز پر سیکورٹی
سسٹم نافذ کئے جائیں۔ مجرمانہ سرگرمیوں کے لیے ’’ زیرو ٹالرینس‘‘ ہونی
چاہئے۔ انفرااسٹرکچر، ٹرانسپورٹ اور پانی کی قلت پر قابو پانے کے لیے بھی
قابل عمل منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
کراچی کو لندن پیرس بنانے والوں نے کراچی کو کراچی بھی نہ رہنے دیا، کراچی
کی سڑکیں کبھی دھلا کرتی تھیں ، یہاں ٹرام وے چلتی تھی، یہاں پارک اور
باغات تھے، یہاں صفائی سھترائی اس وقت تھی جب یہاں تانگے، بگھی،اور گدھا
گاڑی چلتی تھی۔ کراچی میں تقسیم کے وقت بھارت سے آنے والے مسلمانوں کی بڑی
تعداد پڑھی لکھی اور تعلیم یافتہ تھی ۔ جنہوں نے پاکستان کی ترقی اور فلاح
و بہبود کے لئے واضح اور نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔
کیماڑی سے لے کر بولٹن مارکیٹ ،صدر، سولجر بازار، چاکیواڑہ،کینٹ
اسٹیشن،گاندھی گارڈن تک پورے شہر کو ٹرام وے کمپنی کی ٹرام سروس نے جوڑ
رکھا تھا۔ شہر اس قدر صاف ستھرا اور خوبصورت اینگلو اورینٹل طرز تعمیر سے
سجا ہوا تھا کہ کچھ لوگ کراچی کو چھوٹا لندن کہتے تھے۔ کراچی شہر میں صفائی
ستھرائی اور دیدہ زیب عمارتوں کا جو حشر ہم نے ۳۶ برسوں میں کیا ہے ، اس پر
کہا جاسکتا ہے کہ ہم ایک آزاد ملک کے حقدار نہیں تھے۔ بندر روڈ ،برنس روڈ،
صدر اور سولجر بازار کے لاکھوں فلیٹوں اور اپارٹمنٹوں کو ہم نے اْجاڑ کر
رکھ دیا ہے۔ بالکونیاں اور گیلریاں ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں۔ درو دیوار اور
کھڑکیاں بے توجہی کا شکار ہوگئی ہیں۔
راستوں اور پارکوں کے نام تبدیل کرکے تاریخ کے ساتھ مذاق کیا گیا ہے۔ پٹیل
پارک اور کرکٹ گراؤنڈ کو ولبھ بھائی پٹیل کی متروکہ املاک سمجھ کر نشتر
پارک کا نام دے دیا۔ بندر روڈ پر مولوی مسافر خانے کے سامنے ایک تکونا
چھوٹا سا پارک ہوتا تھا جہاں نوجوان صبح شام ورزش کرتے تھے۔ اس پارک کا نام
تھا،شِوجی پارک۔ شِوجی کو شیواجی سمجھ لیا جس نے ۵۲ برس تک مہاراشٹر میں
اورنگ زیب عالمگیر سے جنگیں لڑی تھیں۔ اس چھوٹے سے شوجی پارک کا نام بدل کر
اورنگزیب عالمگیر پارک رکھ دیا۔ صدر کا جہانگیر پارک نوجوان کرکٹروں کی
نرسری تھا۔ جہانگیر پارک کرکٹ گراؤنڈ میں کھیلنے والے کئی کرکٹر ٹیسٹ کرکٹ
کھیلے۔ ان میں حنیف محمد،مناف،اکرام الابسی، والس میتھائس،خالد وزیر، دلپت،
اینتاؤ ڈی سوزا، وسیم باری،انتخاب عالم اور ڈنکن شارپ۔ یہ پارک اب گردونواح
کا کچرا ڈالنے کے کام آتا ہے۔ چرسی، ہیروئنی، موالی،جرائم پیشہ اب جہانگیر
پارک میں پنپتے ہیں۔
شہر کراچی میں مختلف مذاہب کے لوگ اور مختلف زبانیں بولنے والے لوگ رہتے
تھے۔یہاں ہندو رہتے تھے۔ مسلمان رہتے تھے۔ ایرانی رہتے تھے۔ یہودی رہتے
تھے، جین اور بدھ مت کے پیرو کار رہتے تھے، وہ
سندھی،اردو،ہندی،انگریزی،گجراتی،بلوچی، مراٹھی، فارسی وغیرہ بولتے تھے۔ وہ
نہ آپس میں لڑتے، نہ جھگڑتے تھے۔ ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کا دل سے احترام
کرتے تھے۔ایک دوسرے کے تہواروں میں شامل ہوتے تھے کراچی کا ماضی بہت تابناک
تھا، لیکن اس کا مستقبل اندھیروں میں گھرا ہوا ہے۔ ،آج کا کراچی بہت دور
دور تک پھیل گیا ہے -
یہ خوبصورت شہر جو کبھی 1947ء میں دوبئی، عمان اور کئی دیگر عرب ریاستوں سے
زیادہ ترقی یافتہ اور بہتر شہر تھا۔ پاکستان کا پہلا دارالحکومت بھی رہا۔
آج بھی سمندری راستے کے ذریعے کئی ممالک بلکہ پوری دنیا کے ساتھ جڑا ہوا ہے
قیام پاکستان کے وقت کا اگر دبئی کا جائزہ لیں بلکہ کہیں سے پرانی تصاویر
حاصل کر کے دیکھ لیں۔ تو شہر قائد کئی گنا ترقی یافتہ، تاریخی عمارات،
انتہائی اعلیٰ درجے کے اسکولز، مدرسے، انتہائی خوبصورت عمارات قدیم چرچ
(گرجا گھروں) سے بھرپور شہر تھا۔ عمارات تو اب بھی جیسے تیسے حال میں ہیں ۔
شہر میں کئی مقامات پر قدیم ریلوے اسٹیشن تھے جن کی اب عمارتیں رہ گئی ہیں۔
انگریزوں نے 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد برصغیر میں خصوصاً کراچی، لاہور میں
ترقیاتی کاموں کے عمل کو جاری رکھا۔
عوام کے ٹیکس سے حکومت کو آمدنی ہوتی ہے اور وہ اس ٹیکس سے آنے والی آمدنی
جو کہ قوم اور ملک کی امانت ہے اس کو فلاحی منصوبوں پر لگانے کی ذمہ دار
ہے۔ لیکن عوامی نمائندے اس رقم کو جو نہ تو ان کے باپ دادا کی ہے نہ انہیں
کسی سے عطیہ میں ملی ہوئی ہے۔ وہ کام کرانے کے بعد اپنی بڑی تصاویر اور سنگ
بنیاد پر اپنے نام لکھوا لیتے ہیں۔ آج کی طرح کے اس وقت کے انگریز بھی ایسے
ہوتے تو آج برصغیر کی ہرگلی، ہر بازار اور سڑک پر بڑی تصاویر، بینرز،
پوسٹرز اور مجسمے لگے ہوتے۔
آج آپ کراچی ایئرپورٹ سے پورا شہر گھوم جائیں۔ جگہ جگہ ہر سیاسی پارٹی کے
لوگوں کی بڑی بڑی تصاویر، پیغامات، نعرے، وعدے ، عامل، بنگالی بابا، اور
شباب حاصل کرنے والی دواؤں کے اشتہاروں سے بھرا نظر آئے گا۔ کراچی کی سڑکوں
پر نظر ڈالیئے بس کے اوپر بیٹھے ہوئے اور دروازوں کے ساتھ لوگ اس طرح چمٹے
ہوئے نظر آتے ہیں ۔ جیسے شہد کی مکھیوں کے چھتے پر مکھیاں بیٹھی ہوتی ہیں۔
ٹوٹی ہوئی بسیں۔ ویگنیں، جن کے شیشے اور دروازے نہیں، لائٹیں نہیں انہیں
کون فٹنیس سر ٹیفکیٹ دیتا ہے؟ اور یہ سرٹیفیکٹ کیسے ملتے ہیں؟ یہ سب کو پتہ
ہے۔ اور تو اور کراچی میں ایک اندھے (دونوں آنکھوں سے اندھے) کو ڈرائیونگ
لائسنس دے دیا گیا۔ ایک ٹی وی چینل نے ٹیسٹ کیس کے طور پر رشوت دے کر اندھے
کا کمپیوٹرائزڈ لائسنس بنوا دیا۔ جس پر کسی افسران اور لائسنس بنانے والوں
کو معطل کر دیا گیا۔ یہ کراچی کا حال ہے۔ لیکن اس کے ماضی پر نظر ڈالیئے تو
تاریخ بتاتی ہے کہ قدیم یونانی کراچی کے موجودہ علاقہ سے مختلف ناموں سے
واقف تھے: کروکولا، جہاں سکندر اعظم وادی سندھ میں اپنی مہم کے بعد، اپنی
فوج کی واپس بابل روانگی کی تیاری کے لیے خیمہ زن ہوا ؛ بندر مرونٹوبارا
(ممکن کراچی کی بندرگاہ سے نزدیک جزیرہ منوڑہ جہاں سے سکندر کا سپہ سالار
نییرچس واپس اپنے وطن روانہ ہوا ؛ اور بار بریکون، جوکہ ہندوستانی یونانیوں
کی باختری مملکت کی بندرگاہ تھی۔ اس کے علاوہ ، عربی اس علاقہ کو بندرگاہِ
دیبل کے نام سے جانتے تھے، جہاں سے محمد بن قاسم نے 712ء میں کی اپنی
فتوحات کا آغاز کیا۔ برطانوی تاریخ دان ایلیٹ کے مطابق موجودہ کراچی کے چند
علاقے اور جزیرہ منوڑہ، دیبل میں شامل تھے۔1772 میں گاؤں کولاچی جو گوٹھ کو
مسقط اور بحرین کے ساتھ تجارت کرنے کی بندرگاہ منتخب کیا گیا۔ اس کی وجہ سے
یہ گاؤں تجارتی مرکز میں تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔ بڑھتے ہوئے شہر کی حفاظت
کے لئے شہر کی گرد فصیل بنائی گئی اور مسقط سے توپیں درآمد کر کے شہر کی
فصیل پر نصب کی گئیں۔ فصیل میں دو دروازے تھے۔ ایک دروازے کا رخ سمندر کی
طرف تھا اور اسلئے اس کو کھارادر (سندھی میں کھارودر) کہا جاتا اور دوسرے
دروازے کا رخ لیاری ندی کی طرف تھا اور اس لیئے اس کو میٹھادر (سندھی میں
مٹھو در) کہا جاتا تھا۔
1795 تک کراچی خان قلات کی مملکت کا حصہ تھا۔ اس سال سندھ کے حکمرانوں اور
خان قلات کے درمیان جنگ چھڑ گئی اور کراچی پر سندھ کی حکومت کا قبضہ ہو
گیا۔ اس کے بعد شہر کی بندرگاہ کی کامیابی اور زیادہ بڑے ملک کی تجارت کا
مرکز بن جانے کی وجہ سے کراچی کی آبادی میں اضافہ ہوا۔ اس ترقی نے جہاں ایک
طرف کئی لوگوں کو کراچی کی طرف کھینچا وہاں انگریزوں کی نگاہیں بھی اس شہر
کی طرف کھینچ لیں۔انگریزوں نے 3 فروری 1839 کو کراچی شہر پر حملہ کیا اور
اس پر قبضہ کر لیا۔ تین سال کے بعد شہر کو برطانوی ہندوستان کے ساتھ ملحق
کر کے ایک ضلع کی حیثیت دے دی۔ انگریزوں نے کراچی کی قدرتی بندرگاہ کو
دریائے سندھ کی وادی کا اہم تجارتی مرکز بنانے کے ل?ے شہر کی ترقی پر اہم
نظر رکھی۔ برطانوی راج کے دوران کراچی کی آبادی اور بندرگاہ دونوں بہت تیزی
سے بڑھے۔ 1857 کی جنگ آزادی کے دوران کراچی میں 21ویں نیٹو انفنٹری نے 10
ستمبر کو مغل فرمانروابہادر شاہ ظفر سے بیعت کر لی۔ انگریزوں نے شہر پر
دوبارہ قبضہ کر لیا اور "بغاوت" کا سر کچل دیا۔1876 میں کراچی میں بانی
پاکستان محمد علی جناح کی پیدائش ہوئی۔ اس وقت تک کراچی ایک ترقی یافتہ شہر
کی صورت اختیار کر چکا تھا جس کا انحصار شہر کے ریلوے اسٹیشن اور بندرگاہ
پر تھا۔ اس دور کی اکثر عمارتوں کا فن تعمیر کلاسیکی برطانوی نوآبادیاتی
تھا، جو کہ بر صغیر کے اکثر شہروں سے مختلف ہے۔ ان میں سے اکثر عمارتیں اب
بھی موجود ہیں اور سیاحت کا مرکز بنتی ہیں۔ اس ہی دور میں کراچی ادبی،
تعلیمی اور تہذیبی سرگرمیوں کا مرکز بھی بن رہا تھا۔کراچی آہستہ آہستہ ایک
بڑی بندرگاہ کے گرد ایک تجارتی مرکز بنتا گیا۔ 1880 کی دہائی میں ریل کی
پٹڑی کے ذریعے کراچی کو باقی ہندوستان سے جوڑا گیا۔ 1881 میں کراچی کی
آبادی 73،500 سے، 1891 میں 105،199 اور 1901 میں 115،407 تک بڑھ گئی۔ 1899
میں کراچی مشرقی دنیا کا سب سے بڑا گندم کی درآمد کا مرکز تھا۔ جب 1911 میں
برطانوی ہندوستان کا دارالحکومت دہلی بنا تو کراچی سے گزرنے والے مسافروں
کی تعداد بڑھ گئی۔ 1936 میں جب سندھ کو صوبہ کی حیثیت دی گئی تو کراچی کو
اس کا دارالحکومت منتخب کیا گیا۔1947 میں کراچی کو پاکستان کا دار الحکومت
منتخب کیا گیا۔ اس وقت شہر کی آبادی صرف چار لاکھ تھی۔ اپنی نئی حیثیت کی
وجہ سے شہر کی آبادی میں کافی تیزی سے اضافہ ہوا اور شہر خطے کا ایک مرکز
بن گیا۔ پاکستان کا دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوا لیکن کراچی
پھر بھی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور مرکز رہا۔ کراچی نے 1980 اور 1990 کی
دہائیوں میں تشدد، سیاسی اور سماجی ہنگامہ آرائی اور دہشت گردی کا شکار بنا
۔ عالمی قوتوں کے ایجنڈے پر کراچی کیا آیا، یہ تباہی سے دوچار ہوتا چلا
گیا۔ آج بھی کراچی میں ترقیاتی کام جاری ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کراچی ایک
عالمی مرکز کی شکل میں ابھر رہا ہے۔ اس کی ترقی میں یہاں کے بلدیاتی نظام
کا بہت بڑا حصہ ہے۔ ماضی کی بلدیاتی قیادت ایماندار اور عوام کی خدمت کرنے
والی تھی۔
کراچی شہر کی بلدیہ کا آغاز 1933 میں ہوا۔ ابتدا میں شہر کا ایک میئر، ایک
نائب میئر اور 57 کونسلر ہوتے تھے۔ 1976 میں بلدیہ کراچی کو بلدیہ عظمیٰ
کراچی بنا دیا گیا۔ سن 2000 میں حکومت پاکستان نے سیاسی، انتظامی اور مالی
وسائل اور ذمہ داریوں کو نچلی سطح تک منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس کے
بعد 2001 میں اس منصوبے کے نفاذ سے پہلے کراچی انتظامی ڈھانچے میں دوسرے
درجے کی انتظامی وحدت یعنی ڈویژن بنا۔ کراچی ڈویژن میں پانچ ضلع، ضلع کراچی
جنوبی، ضلع کراچی شرقی، ضلع کراچی غربی، ضلع کراچی وسطی اور ضلع ملیر شامل
تھے۔سن 2001 میں اس تمام ضلعوں کو ایک ضلعے میں جوڑ لیا گیا۔ اب کراچی کو
18 ٹاؤن میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان سب کی منتخب بلدیاتی انتظامیہ موجود ہیں۔
ان کی ذمہ داریاں اور اختیارات میں پانی کی فراہمی، نکاسی آب، کوڑے کی
صفائی، سڑکوں کی مرمت، باغات، ٹریفک سگنل اور چند دیگر زمروں میں آتی ہیں۔
بقیہ اختیارات ضلعی انتظامیہ کے حوالے ہیں۔2005ء میں مقامی حکومتوں کے
انتخابات میں سید مصطفیٰ کمال مئیر بنے۔ ان سے قبل کراچی کے ناظم نعمت اﷲ
خان 2004ء اور 2005ء کے لیے ایشیاء کے بہترین ناظمین میں سے ایک قرار پائے
تھے۔ جن کے دور میں کراچی میں بہت سے ترقیاتی کام ہوئے۔ قیام پاکستان کے
بعد کراچی مختلف قوموں پر مشتمل پھولوں کا گلدستہ تھا جسے منی پاکستان بھی
کہا جاتا تھا اور سب مل کر رہتے تھے، کراچی دن ہی نہیں راتوں کو بھی جاگتا
تھا۔
کراچی میں نہ لسانی جھگڑے تھے نہ کوئی تعصب، سب مل جل کر رہتے تھے، سب ایک
دوسرے کی ضرورت تھے اور ان سب کی مشترکہ کوششوں سے ہی کراچی ترقی کرتا رہا۔
کوئی بھتہ خوری نہ تھی۔ پرچی ناسور نا تھا۔ گینگ وار کارندے نہ تھے۔ قربانی
کی کھالوں پر چھینا جھپٹی نہیں ہوتی تھی۔ کراچی کی ترقی شہر میں مستقل اور
عارضی رہنے والوں ہی کی نہیں بلکہ ملک کی ترقی تھی کیونکہ ملک کی معیشت کا
گڑھ اور پاکستان کو چلانے کا شہر تھا۔آج سپریم کورٹ میں حکومت نے تسلیم کر
لیا ہے کہ کراچی میں بہت سے نو گو ایریاز ہیں اور لیاری اب ایک ایسا خطرناک
علاقہ بن چکا ہے جہاں سے حکومت کی رٹ ختم ہو چکی ہے اور لیاری کے اندرونی
علاقوں میں جانے کی ہمت اب پولیس اور رینجرز ہی نہیں بلکہ فوج بھی نہیں کر
پاتی ۔ کراچی میں اب روزانہ دسیوں افراد قتل ہوتے ہیں۔ گذشتہ چند برسوں میں
یہاں لاقانونیت عروج پر ہے۔ کراچی اب بھی روشنیوں کا شہر بن سکتا ہے، اسے
ایک مخلص قیادت کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے یہاں امن کرنا ہوگا۔ شہر میں
ہنگاموں ،قتل و غارت گری، دہشت گردی،چوری اور لوٹ مار کی وارداتوں نے عوام
کو مشکلات سے دوچارکیا ہوا ہے۔ کراچی کو سجانے بسانے اور دیدہ زیب بنانے کے
لئے جوش جذبے اور قوت ارادی کی ضرورت ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ شہروں کی طرح
کراچی بھی لندن ، پیرس اور نیویارک بن سکتا ہے۔کراچی کے مسائل کے حل کے لئے
ضروری ہے کہ کراچی سے حاصل ہونے والا ٹیکس وفاق کے پاس نہیں بلکہ کراچی کے
پاس رہنا چاہئے۔تعلیم اور رفاع عامہ کے منصوبوں کو جلد از جلد مکمل کیا
جانا چاہئے۔کراچی پولیس میں غیرسیاسی بنیادوں پر بھرتی اور موجودہ پولیس کی
تظہیر ہونی چاہئے۔ آبادی کا دباؤ کم کرنے کے لئے کراچی میں نقل مکانی کے
سلسلے میں قانوں سازی ہونی چاہیئے۔ علامہ ڈاکٹر محمد اقبال جب اٹلی گئے تو
ان کی ملاقات مسولینی سے ہوئی۔ مسولینی اقبال کا معتقد تھا۔ اس نے پوچھا کہ
اسے نصیحت کی جائے۔ اقبال نے فرمایا کہ جب شہر بھر جائے تو نئے شہر آباد
کرو۔ اقبال کی اس نصیحت پر کراچی کو نیویارک بنانے والوں کو بھی سوچناچاہئے
یہ شہر مزید پھیلاؤ کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ |