بلوچستان پاکستان کے 43% سے
زیادہ رقبے یعنی تقریباََ نصف پر پھیلا صوبہ ہے، معدنیات سے مالا مال ہے،
گوادر کی بندرگاہ اسی صوبے کا حصہ ہے، پھلوں کے باغات بھی ہیں اور محنت کش
لوگ بھی ہیں لیکن یہ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی یہ صوبہ غیر ترقی یافتہ ہے
اور غیر مطمئن بھی۔ غیر مطمئن ہونے کی اصل وجہ پسماندگی ہے جس سے یہ صوبہ
دو چار ہے اور اس صورتحال کو سیاسی مفادات کے لیے مسلسل استعمال کیا جا رہا
ہے ۔ہمارا میڈیا اور ہمارے دانشور اس صوبے میں ہونے والے کسی بھی واقعے کو
یوں پیش کرتے ہیں جیسے باقی کے پورے ملک میں تو امن اور چین ہے نہ ہی
دھماکے ہیں نہ ٹارگٹ کلنگ ہے نہ بھتہ خوری ہے نہ ہی تعلیمی پسماندگی ہے نہ
ہی صحت کے مسائل ہیں نہ روٹی کے۔ اگر یہ مسائل ہیں تو صرف بلوچستان میں ہیں
اور یوں وہاں احساس کمتری کو مزید ہوا دے دی جاتی ہے ۔ مسائل کی نشاندہی
ضروری ہے تاکہ اُن کو حل کیا جا سکے نا کہ ان کو یوں اُچھالاجائے کہ ملک
دشمن عناصر اُن سے فائدہ اٹھا ئیں اور ملک دشمن سرگرمیاں سر انجام دے سکیں۔
اس وقت پورا ملک دہشت گردی کا شکار ہے خاص کر خیبر پختون خواہ اور کراچی
لیکن ہمارے تجزیہ کار کوئٹہ کے معاملات کو مزید پیچیدہ بنا کر وہاں کے
احساس محرومی کو مزید بڑھا دیتے ہیں اور دکھ اس بات کا ہے کہ مسائل کے حل
کے لیے یہ بڑے دماغ اور تھنک ٹینک اُس طرح سے نہ سوچتے ہیں اور نہ کام کرتے
ہیں جیسا کہ کرنا چاہیے بلکہ انہیں اکثر اوقات صرف اچھال دیا جاتا ہے اور
بس ۔
نئی جمہوری حکومت کے آنے کے بعد عوام بجا طور پر یہ امید کر رہے ہیں کہ
ملکی معاملات میں بہتری آسکے گی اور بلوچستان کے مخصوص حالات کو ذہن میں
رکھتے ہوئے ایسی حکمتِ عملی اپنائی جائے گی کہ وہاں نا امیدی اور مایوسی کا
خاتمہ کیا جا سکے ۔ بلوچ فطرتاََ اپنی زمین اور روایات سے محبت کرنے والے
لوگ ہیں اور وسیع علاقے کے مالک ہونے کی وجہ سے وسیع النظر بھی ہیں ۔ ہم سب
کو اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ قدرتی خزانوں سے معمور ہونے کے
باوجود بلوچستان کی ترقی کی طرف وہ توجہ نہیں دی گئی جو دی جانی چاہیے تھی
اگر چہ اس میں وہاں کے مخصوص قبائلی پس منظر کا بھی ہاتھ ہے لیکن ظاہر ہے
کہ ذمہ داری مرکزی حکومت ہی کی بنتی ہے کہ وہ ملک کے ہر حصے کے عوام کو
قومی امنگوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے وفاق اور ملکی سا لمیت کا ایک پر اثر حصہ
بنائے۔ اُن کے اپنے علاقے کے فیصلے تو ظاہر ہے کہ اُن کی خواہشات کے مطابق
ایسے کیے جائیں کہ وہ پورے ملک کی ترقی کے لیے اہم کردار ادا کر سکیں لیکن
ساتھ ہی ہر صوبہ ملکی فیصلوں میں اس طرح شامل ہو کہ کمتری کا کوئی احساس
پیدا ہی نہ ہو لیکن دکھ اور افسوس اسی بات کا ہے کہ ہمارے ملک میں مارشل
لائ ہو یا جمہوریت ملکی فیصلے ذاتی خواہشات یا پھر پارٹی مفادات کے مطابق
ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مصیبت ، آفات ناگہانی اور بیرونی جارحیت کے
مقابلے پر ڈٹ کر اور یکجا ن ہو کر کھڑی ہونے والی یہ قوم اپنے معاملات پر
اتفاق نہیں کرتی۔
حالیہ انتخابات کے بعد بلوچستان میں اگر پارٹی اکثریت اور ذاتی مفادات کو
پس پشت ڈال کر ایک ایسی حکومت کو موقع دیا گیا ہے جو پورے بلوچستان کے لیے
قابل قبول ہے تو اس جذبے کو قائم رکھنا چاہیئے ، وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک ایک
سلجھے ہوئے انسان اور اچھی شہرت اور شخصیت کے مالک ہیں۔ مکران سے تعلق
رکھنے والے ڈاکٹر مالک کسی قبیلے کے سردار نہیں لیکن ایک قابل احترام
خاندان کے فرد ہیں اور اب تک بلوچستان کی صوبائی حکومتوں اور سینٹ کی
سٹینڈنگ کمیٹیوں کے ممبرکی حیثیت سے خاصے مثبت کردار کے حامل رہے ہیں۔
بطورصو بائی وزیر تعلیم انہوں نے بلوچستان میں بالعموم اور مکران میں
بالخصوص قابل قدر کام کیا اور اب بھی اپنے بجٹ میں تعلیم کی مد میں اضافہ
کیا ۔ مجھے بلوچستان میں جتنا گھومنے کا موقع ملا مجھے وہاں اچھے سکولوں
اور اچھی تعلیم کی شدید کمی نظر آئی جس کو دور کرکے وہاں کے نوجوانوں کو
قومی دھارے میں مئو ثر طور پر شامل کیا جا سکتا ہے ۔ محسوس تو یہی ہو رہا
ہے کہ بلوچستان کی صوبائی حکومت نے اپنے لیڈر کی سرکردگی میں ایک مثبت سوچ
کے ساتھ کام شروع کیا ہے اور اس جذبے کو برقرار رکھنے کے لیے تمام قومی
اداروں کو اُس کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا اور نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے ملک
میں اس رویے کو فروغ دیناہوگا۔ بلوچستان میں خاص کر مسخ شدہ لاشوں ،لاپتہ
افراد اور فرقہ وارانہ تشددپر توجہ دینی ہوگی اور اِن جرائم کے اصل مجرموں
کو تلاش کرنا ہوگا اور اس کی وجوہات بھی ڈھونڈنی ہوں گی تاکہ اِن مسائل کا
تدارک کیا جا سکے۔ ہماری حکومت اور خفیہ ادارے بارہا یہ اعلان کر چکے ہیں
کہ بلوچستان میں بیرونی ہاتھ حالات خراب کرتا ہے تو اُس ہاتھ کے کارندوں کو
بھی عوام کے سامنے بمعہ ثبوتوں کے لانا ہوگاتاکہ بلوچ عوام دوست دشمن کی
پہچان کر سکیں ۔ بلوچستان کوئی الگ خطہئ زمین نہیں ہے بلکہ یہ زمین کے اُسی
ٹکڑے کا حصہ ہے جس کا نام پاکستان ہے ان کی بقائ ایک دوسرے کے ساتھ جڑی
ہوئی ہے اگر یہاں کوئی مسخ شدہ لاش ملتی ہے تو وہ پشاور یا وزیرستان میں بم
دھماکے میں ناقابل شناخت لاش سے کم تکلیف دہ نہیں ہوتی اور اگر یہاں کا
کوئی نوجوان کسی عالمی مقابلے میں فاتح قرار پاتا ہے تو اُس کی خوشی کراچی
میں کوئٹہ سے کم نہیں منائی جاتی اور نہ کوئی بلوچ سپاہی سرحد پر کسی
پنجابی جوان سے کم ڈٹا رہتا ہے۔
جیسا کہ میں نے شروع میں لکھا کہ بلوچستان میں مسائل ہیں اور گھمبیر ہیں
لیکن لاینحل نہیں ،انہیں حل کرنے کے لیے صرف خلوص کی ضرورت ہے ۔نئی صوبائی
اور قومی حکومت کو بلوچستان کی ترقی اور احساس یکجہتی پر کام کرنا ہوگا اور
خلوص دل سے کرنا ہوگا ،اسے احساس تحفظ دینا ہوگا اور اس احساس کے لیے
پولیس، لیویز، ایف سی اور فوج کو صوبائی حکومت کے ساتھ بھر پور تعاون کرنا
ہوگا۔ تعلیم کے شعبے کی طرف خصوصی توجہ دیناہوگی تاکہ عدم برداشت کو بھی
ختم کیا جا سکے اور نوجوانوں کو اپنے پائوں پر بھی کھڑا کیا جا سکے۔ صوبائی
حکومت کی توجو ذمہ داری ہے وہ ہے ہی لیکن بہت ساری ذمہ داریاں وفاقی حکومت
اور میڈیا کو بھی پوری کرنی ہونگی۔ وفاقی حکومت کو معمول میں ٹھوس اقدامات
کرنا ہونگے عارضی پیکجز کا اعلان نہیںاور میڈیا کو کچھ خوش کن پہلو تلاش
کرکے انہیں قوم کے سامنے لانا ہوگا تاکہ دوسرے بھی ان اچھی باتوں سے متاثر
ہوکر بھلائی کے مدد گار بن جائیںآخر اپنا لائحہ عمل تبدیل کرنے میں حرج کیا
ہے۔ ہم آخر بلوچستان کو مشرقی پاکستان سے کیوں جوڑتے ہیں ،کیا زمینی حقا ئق
اور جغرافیائی فاصلے ہی ایسے نہیں جو اِن معاملات کو مختلف بنا دیتے ہیں۔
اللہ ہمیں معاملات کو سمجھنے اور مسائل کو حل کرنے کی توفیق عطا کرے اور
پاکستان کی سا لمیت کی حفاظت کرے۔ |