ایک آدمی حضورﷺ کے پاس گیااور
پوچھا کہ میں صدقہ دینا چاہتا ہوں کس کو دوں آپ نے فرمایا کے ارد گررد جو
آپ کی نظر میں مستحق ہو اس کو دو وہ شخص واپس آیا اور اپنے پڑوس پر ایک
غریب آدمی کو صدقے کے طور پر کچھ رقم دی اور پھر ازمائش کے طور پر اس کا
پیچھا کیا کہ دیکھوں یہ کیا کرے گا وہ آدمی گیا اور اس نے ان پیسوں سے شراب
خریدی ۔صدقہ دینے والے کا دل مطمئن نہیں ہوا وہ پھر آپ ﷺ کے پاس گیا اور
سارا ماجرہ سناتے ہوئے بولا کہ میں مطمئن نہیں ہوں کہ میرا صدقہ ٹھیک جگہ
پر لگا ہے ۔آپ نے فرمایا پھر ایسا کرو صبح سویرے آٹھ کر فلاں جگہ پر کھڑے
ہو جاؤ اور جو آدمی سب سے پہلے وہاں سے گزرے اسے دے دو۔اس آدمی نے ایسا ہی
کیا صبح سویرے بتائے ہوئے راستے میں کھڑا ہو گیا تو ایک آدمی گھوڑے پر سوار
بڑا معزز وہاں سے گزرہ اسے دیکھ کر صدقہ دینے والا چونکا کہ یہ تو بڑی اچھی
پوزیشن میں ہے اسکو کیسے دوں اگر دوں بھی تو یہ غصہ نہ کر جائے مگر حکم
حضورﷺ کا تھا آپ نے اس آدمی کو روکا اور اپنا مقصد بتایا کہ میں اس غرض سے
اور اس حکم سے کھڑا ہوں کیا میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں اس سفید پوش نے کہا
کہ جی کر سکتے ہو اس آدمی نے آپنے صدقے کی رقم اسکو دی اس نے رقم لی گھوڑے
سے نیچے اترا ساتھ باندھے دو بیگ اُلٹے کئے ان میں سے مرے ہوئے کبوتر نیچے
پھنکے۔صدقہ دینے والا یہ سب دیکھ کر حیران راہ گیا اس نے اس آدمی سے پوچھا
کہ تم نے یہ کیا کیااور یہ مرے ہوئے کبوتر کہاں لیکر جا رہے تھے وہ آدمی
بولا کہ میرے گھر میں21 دن سے فاقہ ہے میں نے سن رکھا ہے کہ اگر کوئی اتنے
دن فاقے سے رہے تو اس پر حرام بھی حلال ہو جاتا ہے اس لئے میں ان مرے ہوئے
کبوتروں کو حلال سمجھ کر کھانے لے جا رہا ہوں اب جب کہ میری ضرورت پوری ہو
گئی تو یہ مجھ پر حرام ہو گئے اس لئے میں نے ان کو پھینک دیا ۔صدقہ دینے
والا یہ سن کر حیران راہ گیا اس نے تو ایسا سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ سفید
پوش آدمی اتنا مجبور ہو گا ۔اسی حوالے سے حدیث بھی ہے جس کا مفہو م یوں ہے
کہ اجنبی کو دینا صدقہ ہے اور اپنے قریبی،رشتے دار کو دینا صدقہ بھی ہے اور
صلاح رحمی بھی ۔
عید الفطر بھی قریب ہے بہت سی تنظیمیں،جماعتیں،اور ادارے اپنے اپنے کیمپ
لگائے فطرانہ کی رقم جمع کرنے کے لئے بیٹھے ہوتے ہیں ۔ اس کے علاوہ
بیوہ،یتیم،مسکین،بھی امید لگائے ہوتے ہیں کہ کچھ تنظیمیں،این جی اوز،ان کی
مدد کریں گی۔یہ سب اپنی جگہ پر ٹھیک ہے یہ ضرورت مند بھی ہیں مستحق بھی ان
کی مدد کرنی بھی چاہیے مگر ہمارے درمیان ،ہمارے ساتھ ،ہمارے معاشرے میں ایک
طبقہ ایسا بھی ہے جو نہ بیوہ ہے نہ یتیم،نہ مسکین،وہ طبقہ سفید پوش ہے جو
کسی سے مانگ بھی نہیں سکتا اور وہ اپنی ضرورت بھی پوری نہیں کر سکتا دیکھنے
کو وہ بڑے اچھے کپڑے پہنتا ہے ویل مینر ز ہوتا ہے مگر وہ اندر سے اتنا
مجبور بے بس اور بے حال ہوتا ہے کہ وہ نہ جیتا ہے نہ مرتا۔سرمایا دار نے
اپنی نمود نمائش کی خاطر،معاشرے میں اپنی دولت کی دھونس قائم کرنے کے لئے
وہ مذہبی تہوار جو انسانیت کے لئے باعث رحمت ہوتے ہیں اب ان کو سفید پوش کے
لئے زحمت بنا دیا ۔عید ہو یا کوئی بھی اسلامی تہوار اس کے لئے یہ سفید پوش
خود کو اس دھرتی کا بوجھ سمجھتا ہے ۔ایسے سفید پوش کی تلاش مشکل نہیں وہ بے
روزگار بھی ہو سکتا ہے اور کم آمدنی والا بھی وہ اپنے بچوں کی با مشکل دو
وقت کی سفید پوشی کی روٹی پوری کرتا ہے وہ معاشرے میں اپنا اسٹیٹس رکھتا ہے
وہ کسی کو محسوس نہیں ہونے دیتا کے اسے کسی کی مدد کی ضرورت ہے وہ شاید
بچوں کی ضرورت پوری نہ کرنے کی وجہ سے اولاد کو بھی بوجھ سمجھتا ہو مگر وہ
ہاتھ نہیں پھیلاتا وہ کسی کی نظر میں بھی نہیں ہوتا ایسے دوست عزیز،رشتے
دار،پڑوسی ،جاننے والے کی اگر با عزت طریقے سے مدد کی جائے اس کی مشکل میں
ضرورت پوری کی جائے تو یہ صدقہ ان صدقوں سے ہزار درجے بلند ہے جو کسی کو
مستحق سمجھ کر دیا جاتا ہے۔کیوں کہ بیوہ،یتیم،غریب،مسکین،تو سب کی نظروں
میں ہوتے ہیں اور یہ لوگ ظاہر بھی ہوتے ہیں ان کو مددمانگنے سے یا کسی بھی
ادارے ،این جی اوز،اور تنظیم میں اپنا نام لکھوانے سے کوئی شرم محسوس نہیں
ہوتی اور ان کی مدد وقتاً فوقتاًہوتی رہتی ہے مگر وہ سفید پوش جو نوکری تو
کرتا ہے مگر صرف روٹی کھا سکتا ہے اپنے بچوں کے کپڑے، جوتے، فیس،
کتابیں،علاج،دکھ، بیماری معاشرے میں خوشی غمی کو افورڈ نہیں کر سکتا اور نہ
وہ کسی سے مدد کی امید رکھتا ہے کیونکہ وہ اپنی عزت نفس کو مجروع نہیں کرتا
وہ بھی جو بے روز گار ہے اور گھر ،فیملی کا نظام بس مشکل سے کسی نہ کسی طرح
چلاتا ہے مگر اپنی سفید پوشی کے ہاتھوں مجبور بے بسی کی زندگی گزارتا ہے
میرے خیال میں ایسے لوگ اصل میں مدد کے صدقے کے یا کسی بھی فطرانے کے مستحق
ہوتے ہیں ۔ان کی مدد کرنے سے ان کے دل سے جو دعا نکلتی ہے وہ بلا کسی رکاوٹ
کے اوپر جاتی ہے یہ مت دیکھا جائے کے اس کے کپڑے تو صاف ہیں مگر اسکی اندر
کی اس حالت کو دیکھیں جو اس نے چھپا رکھی ہے اسکی مدد کرنے کے لئے ضروری
نہیں کہ اس کو صدقے یا فطرانے کا نام لگا کر اسکو کچھ دیا جائے بلکہ اس کو
اپنا عزیز ،ہمدرد اور خلوص کہہ کر اس کی مدد کی جائے اس کی عزت نفس بھی
مجروع نہ ہو اسکی ضرورت بھی پوری ہو،اور آپ کا صدقہ ،امداد بھی قبول ہو اگر
آپ غور کریں تو آپ کو بہت سے ایسے رشتے دار ،دوست،عزیز،نظر آئیں گے جو آپ
کی مدد کے اصل مستحق ہیں ان کو کچھ بھی ظاہر کئے بغیر ان کی مدد کر کے اﷲ
کو بھی راضی کیا جائے اور مخلوق کو بھی آپ کو بھی سکون قلب حاصل ہوگا۔ظاہری
حالت نہ دیکھیں اسکی ضرورت کو سمجھیں محسوس کریں آپ کا دل خود گواہی دے گا۔ |