تبدیلی والی سرکار اور سیلاب زدگان کیساتھ کے ڈرامے

اسے بے حسی کہیے بے غیرتی لاپرواہی حکمرانوںکا طریق یا پھر کرسی کا نشہ کہ جو بھی اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھ گیا اس کی اوقات حتی کہ سوچنے کا انداز ہی ہی بدل جاتا ہے اور زمین پر چلنے والے انہیں رینگنے والے کیڑے نظر آتے ہیں اور پھر ان کی ترجیحات بھی بدل جاتی ہیں اقتدار کے کرسی پر آنے کے بعد ہر ایک اپنے آپ کو " قلقلا خان" سمجھنا شروع کردیتا ہے یہ الگ بات کہ اقتدار میں آنے سے قبل ان جیسوں کی اوقات اتنی ہوتی ہے کہ بقول پشتو مثل کہ "کوئی ان پر پرائے لنگڑے گدھے کو تھانے لے جانا بھی پسند نہیں کرتا"کیونکہ یہ ناقابل اعتبار ہوتے ہیں لیکن کرسی ملنے کے بعد ان کی اوقات بھی تبدیل ہوجاتی ہیں- گذشتہ روز پشاور کے سول سیکرٹریٹ میں پنجاب کے وزیراعظم کی ہدایت پر پختونخوار میں غریبوں کا حال دکھانے کی حد تک دیکھنے کیلئے آنیوالے ایک وفاقی وزیر کی پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جن میں صحافی تو بہت کم تھے البتہ اپنے آپ کو بیورو کریٹ قرار دینے والے اور اس ملک کے غریب عوام کی قسمتوں کا فیصلہ کرنے والے زیادہ بیٹھے تھے پریس کانفرنس کے دوران تبدیلی والی سرکار نے جی حضوری کرتے ہوئے پنجاب کے وزیراعظم کے نمائندہ وفاقی وزیر کو بتایا کہ ہم نے سیلاب میں تباہ ہونیوالے اس صوبے کے کمی کمینوں کو عیاشیاں کروادی ہیں اس سے قبل اسی وزیر نے بڈھنی پل کا دورہ بھی کروایا گیا جہاں پر انہیں سیلابی ریلے کے بارے میں بتایا گیا تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ اس نالے کی صفائی پر سابقہ حکمرانوں یعنی خدا کی زمین پر اپنی بدمعاشی دکھانے والے نے کروڑوں روپے لگائے لیکن صفائی نہیں کی گئی ہر ایک سابقہ کو برا بھلا کہتا ہے لیکن کوئی یہ نہیں بتا رہا کہ آج بھی اسی روڈ کنارے ڈنڈا اور بیلٹ والی سرکار کے ایک بڑے افسر نے غیر قانونی قبضہ جمایا ہوا ہے اور اس پر موجودہ حکمران بھی خاموش ہیں -

اجلاس میں کمشنر بہادر نے صحافیوں کو بتایا کہ سیلاب سے متاثر ہونیوالے لوگوں کو افطاری اور سحری بھی دی گئی لیکن یہ بھی بقول انکے good well کے طور پر دی گئی ورنہ یہ ہمارا کام نہیں تھا اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہم ان کی مدد کرسکتے تھے -کمشنر بہادرشائد سمجھ رہے ہیں کہ انگریزوں کا شاہی دور ہے اور جو وہ کہیں گے وہی ہوگا حالانکہ انہیں یا ددہانی کرانے کی ضرورت ہے کہ بھائی جس کرسی پر تم اتنے اتراتے ہوںاور جو مال تم خود اور اپنے بچوں کو کھلاتے ہو انہیں سیلاب زدگان کے خون پسینے کی کمائی ہے جسے بڑی گاڑیوں ائیر کنڈیشنر دفاتر میں بیٹھے بیورو کریٹ قانون کے ٹیکوں سے عوام سے نکال کر وصول کرتے ہیں اور اسی رقم سے ان جیسے بیورو کریٹوں کی کی عیاشیاں چلتی ہیں -اسی اجلاس میں بیٹھے ایک اور صاحب راقم کے اس سوال پر اپنی کرسی میں تلملا گئے تھے کہ ڈیڑھ سو خاندان جو کہ چار سو افراد پر مشتمل ہیں اور ان میں بچے خواتین بھی شامل ہیں سیلاب کے تین دن گزرنے کے باوجود بھی خوار ہیں کیونکہ اس سے قبل موصوف وفاقی وزیر کو ائیر کنڈیشنر ہال میں یہ بتا گئے تھے کہ اس صوبے کی تبدیلی والی سرکار اور ان کے بیورو کریٹوں نے تو بڑا کام کیا ہے نشاط ملز کوارٹرز میں ایک ہزار روپے کی کرائے دینے کی استطاعت رکھنے والے یہ غریب چونکہ دیہاڑی دار مزدور ہیں اور ان کے علاقے میں بدبو بھی بہت ہوتی ہیں اور جاتے ہوئے ہمارے تبدیلی والی سرکار کے کپڑے بھی گندے بھی ہوتے ہیں اس لئے تبدیلی والی سرکار سمیت کسی این جی او اور کئی ملین امداد ہڑپ کرنے والے پی ڈی ایم اے کے اندھے افسران کو یہ نظر نہیں آئے اسی بناء پر یہ لوگ انہیں بھول گئے تھے -سیلاب کے بعد چھتوں پر بیٹھی یہ خواتین اور جلدی بیماری سمیت خارش کی بیماریوں کا شکار ہونیوالے معصوم بچے تین دن سے کسی مسیحا کے انتظار میں بیٹھے ہیں لیکن نہ تو کوئی انہیں افطاری یا سحری دے گیا نہ ہی ان کے علاج کیلئے کوئی میڈیکل ٹیم آئی شائد اس لئے بھی کہ ان غریبوں کی اوقات ہی اتنی ہی ہے کہ انہیں انتخابات کے دنوںمیں ہی یاد کیا جاتا ہے پھر پانچ سال عیاشیاں ہوتی ہیں - پختونخوار کے شہریوں کو امید تھی کہ خدا کی زمین پر اپنی بدمعاشی دکھانے والوں سے جان چھوٹ گئی شائد تبدیلی آجائیگی تین ماہ میں تبدیلی کا نعرہ لگانے والے اتنی تبدیلی لا سکے ہیں کہ پہلے والے پختونخواروں کے نام نہاد لیڈر بغیر صحافیوں کے جگہوں کا دورہ کرتے تھے جبکہ اب تبدیلی والی سرکار کے لوگ اپنے ساتھ پوری میڈیا کی ٹیم لیکر جاتے ہیں کہ بتا سکیں کہ ہم یہ تبدیلی لائے ہیں یہ الگ کہ پورے چوبیس گھنٹے گزرنے کے بعد سیلاب سے متاثرہ لوگوں کا دورہ کیا اور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی ٹیموں کے سامنے خوب اداکاری کی-

سول سیکرٹریٹ پشاور میں منعقدہ اجلاس میں پنجاب کے وزیراعظم کے نمائندے کے سامنے ایف ڈی ایم اے نے فنڈز کی کمی کا رونا رویا اور 300 ملین کی ڈیمانڈ کردی جبکہ صوبے کے حکمرانوں نے راڈار بنانے کیلئے 750 ملین روپے کے فنڈز کا مطالبہ کردیاجسے مستقبل میں دینے کی یقین دہانی تو کرادی گئی لیکن ان صاحب نے ان دو اداروں کے سربراہوں سے یہ نہیں پوچھا کہ قدرتی آفات کے سامنے تو تم لوگ ویسے بھی فیل ہو لیکن بحالی کے کام میں بھی تمھاری نالائقی کی انتہا ہے کیونکہ فنڈز تو پہلے بھی تم لوگوں کو ملتے رہے ہیں ان سے کونسی تم لوگوں نے پختونخوار کے لوگوں کی زندگیاں بہتر کی ہیں لیکن اجلاس سے یہ بھی پتہ چلا کہ ائیر کنڈیشنر ہالوں میں بیٹھ کر بڑے بڑے فیصلے کرنے والے بڑے بڑے بیورو کریٹس اور نام نہاد لی ڈر اندر سے بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور عوام کے خون پسینے کی کمائی پر پلنے والے سرکاری حرام خور یاتبدیلی کی آڑ میں کرسی تک پہنچنے والے نام نہاد لیڈر یہ سارے ایک دوسرے کیساتھ ملے ہوے ہیں اوران کا مقصد بھی وہی تھا جو اس سے پہلے خدا کی زمین پر اپنی بدمعاشی دکھانے والے لی ڈروں کا تھا وہ بھی پختونخوار کے غریب عوام کو اپنا کمی کمین سمجھتے اور موجودہ تبدیلی والی سرکار بھی یہی ڈرامہ کررہی ہیں- سو پختون خوار کے "خواروں" تم لوگوں کیساتھ قسط وار ڈراموں کا سلسلہ چلتا رہے گا خواہ وہ اپنے ہو یا پرائے تم لوگوں کی قسمتوں میں ڈرامے ہی لکھے ہیں صرف اداکار تبدیل ہوتے رہتے ہیں-
 
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 422143 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More