جب سے دنیا بنی ہے، رب نے کائنات
کے لیے اصول متعین کر دیے ہیں، مینڈک کارنگ اس نےسبز رکھا جبکہ سانپ بھی
جہاں رہتے ہیں اس جگہ سے رنگ میں مشاہبت رکھتے ہیں ،رب نے ایسا کیوں کیا؟
ہر جیز کی ایک وجہ ہے، تاکہ مینڈک سبز پتوں میں چھپ کراپنی زندگی شکاریوں
سے بچا سکے اور سانپ اپنے رنگ کی وجہ سے شکار کر سکے ،قدرت ہر مخلوق کی
معاون ہے،انسان چونکہ اشرف المخلوقات ہے لہذا اس کے رنگ ہی جدا ہیں ،وہ
اپنی ہر چیز میں منفرد ہے۔انسان نے اپنے ماحول اور سوچوں کے مطابق ہر جیز
کو ترتیب دیا ہے۔انسان اپنے رنگ نہیں بدلتا بلکہ معاشرت ترتیب دیتا ہے،لیکن
زندگی کے اصول ایک سے ہیں ،جھوٹ ہر جگہ جھوٹ اور سچ ہر جگہ سچ ہی رہتا
ہے،ہر معاشرہ اچھی اقدار کو اپنی آنے والی نسلوں میں منتقل کرتا ہے،اگرچہ
طریقہ مختلف ہوتا ہے جیسا کہ ہم شروع سے سن رہے ہیں جیسا دیس ویسا
بھیس،بلکل درست ہے ،کیونکہ ہر علاقے کے حالات کے مطابق ہی لباس زیب تن کرنا
پڑتا ہے،اگر سرد علاقوں کے لوگ باریک لباس زیب تن کرنے لگیں تو اگر مریں
گئے نہیں تو بیمار ضرور ہو جائیں گئے، اسی طرح جہاں ماحول جسم پر اثر انداز
ہوتا ہے انسان کی سوچیں اور معاشرتی اقدار معاشرے کا رُخ متعین کرتی ہیں۔
مزے کی بات تو یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ معاشرہ مادی لحاظ سے تیزی سے
جبکہ غیر مادی لحاظ سے بہت آئستہ آئستہ ترقی کرتا ہے۔معاشرہ کس قدر ترقی
یافتہ ہے وہاں کی اقدار کیا ہیں اور لوگوں کی سوچ کا میعار سب کو جاننے کا
سب سے صیح طریقہ وہاں کا لیٹریچر اور میڈیا ہیں۔
برصغیر پاک و ہند میں ایک نامور لکھاری سعادت حسین منٹوکی کچھ تحریں باعث
تنازعہ بنی ،ان پر فحاشی کو پھلانے کا الزام لگا تو انہوں نے جواب میں صاف
صاف اس سچ کو عیاں کیا کہ،اگر آپ کو لگتا ہے کہ میری تحریر گندی ہے تو
اپنے معاشرہ کو صاف کیجئے کیونکہ میری تحریر معاشرے کا عکس ہے۔ یہ سچ آج
ساٹھ سال بعد بھی ویسا کا ویسا ہی روشن ہے۔منٹو نے بجا کہا تھا ،یہ معاشرہ
ہی ہے جس سے انسان کی آبیاری ہوتی ہے،انسان معاشرہ پر اور معاشرہ انسان پر
گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ معاشرہ جب تنزولی کا شکار ہوتا ہے تو اس میں فحاشی ،جھوٹ،مکاری،فریب
اور ہر طرح کی بے انصافی پروان چڑھتی ہے۔لوگ جھوٹ پر واہ واہ کرتے ہیں اور
علم وعمل سے دوری ہو جاتی ہے،یہی وجہ ہے کہ مغلیہ دور کے آخری حکمرانوں کے
پاس مسخروں اور بہروپیوں کا ایک مجمع رہتا تھا لوگ علم وحکمت سے دور ہو گئے
تھے،مسخروں کو سونے چاندی میں تول دیا جاتا تھا۔اس کا نتیجہ سلطنت مغلیہ کے
خاتمہ کی صورت میں نکلا دور جہالت میں عرب کا لیٹریچر وہاں کے لوگوں کی سوچ
کی عکاسی کرتا ہے،انتہائی بے ہودہ قسم کی نظمیں جن میں عرب عورت کے جسم کی
خوبصورتی بیان کرتے تھے لکھی جاتی تھی ۔ معاشرہ جس قدر ترقی یافتہ ہوتا ہے
اس کا لیٹریچر اور میڈیا بھی سنجیدہ موضوعات پر مبنی ،اچھی باتوں کی ترویج
میں معاون دیکھائی دیتا ہے۔میڈیا میں معاشرہ کے اخبارات سے لے کر
ریڈو،ٹی،وی شو،میوزک ،ٹاک شو،انڑنیٹ میںموجود مواد ،ڈرامے اور ہر وہ چیز
شامل ہے جو ہمیں اور ہمارے بچوں کو غیر محسوس طریقے سے متاثر کر رہی ہے ۔
آج ہمارا معاشرہ بھی تنزولی کی راہ پر چل نکلا ہے اوراس کا ثبوت ہمارا
میڈیا اور لیٹریچر ہیں، ماضی میں ہماری کہانیاں ماں کی محبت،باپ کی شفقت
اور بھائی چارہ کی عکاسی کرتیں تھی لیکن آج شراب کی بوتلوں ،کلبوں اور
ناجائز رشتوں سے شروع ہوتی ہیں۔ہمارے ڈراموں کے نام پہلےمقدس، حالہ،آغوش
اور بادبان ہوتے تھے لیکن آج بدل کرغلطی سے مسٹیک ہو گئی،نادانیاں،بھابھی
سنبھال چابی،کاش کی میں تیری بیٹی نہ ہوتی،اور نیلی پری لال کبوترجیسے ہوتے
ہیں۔یہ بدلتے ہوئے نام معاشرے کی بدلتی اقدار کی عکاسی کرتے ہیں۔ہم مقدس
رشتوں کی بجائے ناجائز رشتوں کی طرف مائل ہو رہے ہیں اس کا کھلا ثبوت ہیں۔
ڈرامے تو ڈرامے ہمارے کمرشل ہمارے معاشرے کے ستر کھولنے کے لیے کافی
ہیں،ہمارے معاشرے میں عورت کا مقام ،عورت کی خود کی سوچ،مردوں کی بے حسی سب
کچھ ایک چھوٹا سا پانچ سیکنڈکا اشتہار ظاہر کر دیتا ہے۔ ویسلین کے ایک
اشتہار میں ایک لڑکی یہ کہتی دیکھائی جاتی ہے کہ نیوز آتی نہیں لائی جاتی
ہے صرف چیرے کا نکھار کافی نہیں جسم کو بھی چہرے کی مانند ہونا چاہیے پھر
کیا؟اوسلین لگاتی ہے اور ایک آدمی جو اسے غالباً نیوز فراہم کرئے گا اسے
ہاتھ پکڑ کر اپنی جانب کھنچ لیتا ہے۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ نیوز لانے کے
لیے ایک کالا بدصورت نوجوان کیا کرئے گا، یہ کمرشل دیکھنے کے بعد کون سا
آدمی اپنی بیوی، اپنی بہن یا بیٹی کو صحافت کے شعبے میں جانے دے گا۔افسوس
کی بات یہ ہے کہ یہ کمرشل ہمارے معاشرے کی درست عکاسی کرتا ہے،عورتیں یہی
سمجھتی ہیں کہ ان کی خوبصورتی ان کی ترقی کروا سکتی ہے ،یہ بات کس قدر گندی
ہے،آنے والے دنوں میں کیا صورت اختیار کرئے گی یہ سوچنے کا کام میں قاری
پر چھوڑتی ہوں۔
وہ کھلاڑی جنہیں بچے ہیرو سمجھتے ہیں،کمرشل میں صرف ایک پپسی کی بوتل کے
لیے دھوکا دینے کا درس دیتے نظر آتے ہیں،جبکہ سینیر کھلاڑی ان سے کہتے ہیں
،پہنچ تو گئے ہو ابھی اتنے بڑےنہیں ہوئے ،مطلب ہم تم سے زیادہ دھوکے باز
ہیں، اس کمرشل میں قواعدو ضوابط کا مزاق اڑا کر یہ بات بتائی جا رہی ہے کہ
اپنے مزے کے لیے کچھ بھی کر گزو۔بات یہاں ختم نہیں ہوتی ہمارا میڈیا برائی
کو پرموٹ کر رہا ہے،ایک لڑکا ایک کمرشل میں جھوٹ بول کر اپنی ماں کو بےوقوف
بناتا ہے اور انٹرنیٹ کی بہترین آفر کو عیاں کرتا ہے،کیا ہم اپنے بچوں کو
نئی ٹیکنالوجی دے کر انہیں اپنی اقدار سے دور کر رہے ہیں۔ نہیں بلکہ ہم
تربیت کا مطلب بھول چکے ہیں ماں باپ نے یہ زمہ داری اساتذہ پر اور اساتذہ
نے معاشرے پر ڈال کر خود کو بری الزمہ کر لیا ہے ،معاشرے میں برائی ہے لیکن
میڈیا کا برائی کومزید پھلانا درست نہیں ،آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ پردہ
پوشی کو پسند کرتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ برائی کی تشہر سے وہ پھلتی ہے۔ایک
فرد سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے تک پھلتی ہے ،کاش کے ہمارے لکھنے والے
،کمرشل میکر اور اینکر پرسنز کو خیال ہو کہ وہ کیا کررہے ہیں،زندگی کی راہ
متعین کرنے والے تکے لگانے والے اور مسخرے ہوں تو ہم اپنے بچوں کا مستقبل
کیسا پائیں گئے یہ قیاس بعید نہیں ہے۔اگر اندھے کو رہبر بنا دیا جائے تو
انجام کیا ہو گا آپ ہی سوچ لیں۔میڈیا کی سمت درست کرنا ہم سب کا فرض
ہے۔ہماری پسند اور ناپسند ہی میڈیا کا رخ متعین کرتی ہے۔ ایک پاکستانی
اداکارہ نے کہا تھا کہ ہمیں فحاشی کی طرف مائل کرنے والا کہنے والے یہ بھول
جاتے ہیں کہ یہ جو کچھ بھی ہم کرتے ہیں صرف اس لیے کہ لوگ یہی پسند کرتے
ہیں۔ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم کیا پسند کر رہے ہیں کہیں ہماری ہنسی ہمارے
بچوں کو دنیا میں مزاق نہ بنا دے۔ہمارا آج کا عمل ہمارا کل متعین کرتا ہے۔
ہمیں میڈیا کو صیح سمت دینے کے لیے خود کو صیح کرنا ہو گا،کیونکہ میڈیا
ہمارے معاشرے کا عکس ہے۔ہم تکے پسند کرنے والے، مزاح میں بے ہودگی کوسراہنے
والے،فحاشی اور فیشن میں فرق نہ کر سکنے والے ہوں گئے تو ہمارے کردار کا
خمیازہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔کسی جیز کو پسند کا لیبل
لگانے سے پہلے لازمی ہے کہ ایک لمحہ سوچیے- |