عید الفطر کا تہوار پھر آچکا ہے دل خوشیوں
اور مسرت سے لبریز ہیں لیکن گذشتہ کئی سالوں کی طرح امسال بھی عیدالفطر کا
تہوار ایسے موقع پر آرہا ہے جب کہ پوراعالم اسلام لہولہان ہے اور سارا جسم
زخموں سے چھلنی ہے ہر بار کی طرح اس بار بھی پرانے زخم کی بھر پائی سے قبل
ہی قوم و ملت کو نئے نئے زخم لگ رہے ہیں۔حالانکہ عید الفطر خوشیوں کا تہوار
ہے۔لیکن حالات نے قوم کو چکی کے دو پاٹ میں تبدیل کردیا ہے ایک طرف خوشی
اور مسرت کے شادیانے ہیں۔امن وسکون کی زندگی ہے۔بچے بڑے سب عید کو اپنے
اپنے انداز میں منا رہے ہیں زرق برق لباس ،سوئیاں ،خوشبو ،مہندی ،پکوان غرض
کہ وہ ساری نعمتیں مہیا ہیں جو عید کی خوشیوں کو دوبالا کر دیتی ہیں لیکن
اے کاش کہ سارے عالم اسلام کی یہی حالت ہوتی کہ ہر جگہ مسلمان امن و سکون
کی زندگی گذار رہے ہوتے ہر گھر میں خوشی ہر لب پر مسکراہٹ ہوتی۔ والدین اور
پورے گھر والے عید کی خوشیوں کو آپس میں تقسیم کرتے بہنیں بھائیوں کی
اوربیویاں شوہر کے گھر آنے کی منتظر ہوتیں اور شوہر اپنے دامن میں دنیا
جہان کی خوشیاں لانے کی کوشش میں مصروف رہتا محبت کی فضاءمیں خوشیوں کے
ترانے ہوتے لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہے لہولہان عالم اسلام کے کتنے ہی خطے
ہیں جہاں مسلمان تو ہیں لیکن بدنصیب ان کے لبوں پر نہ تو مسکراہٹ ہے نہ
انکی زبانوں پر محبت کے ترانے ہیں دیدار چاند تو ان کے نصیب میں ہے لیکن
عید کی خوشیاں ان سے روٹھی ہوئی ہیں عید سعید کے اس پر مسرت موقع پر بھی ان
کے لئے صرف محرومیاں ہی محرومیاں ہیں مائیں عید کے دن اپنے جگر گوشوں کو
عیدکی نماز کیلئے مسجد بھیجتے ہوئے بھی خوفزدہ ہیں-
دہشتگردوں کے ہاتھوں ہلاکتوں کے ساتھ سیاست کی رسہ کشی اور شہروںو قصبوں پر
سیاسی قبضے کی ساتھ جرائم پیشہ مافیاز اور بھتہ گروپوں کے قبضے کی جنگ میں
کتنی ہی خواتین بیوہ اور کتنی مائیں اپنے جگر گوشوں سے محروم ہوچکی ہیں۔
کتنے گھر برباد ہوچکے ہیں اور ہزاروں خاندان اپنے آبائی علاقوں کو چھوڑ کر
نقل مکانی اور کیمپوں کی اذیتناک و تکلیف دہ زنگی گزارنے رپ مجبور ہیں۔
جن ہاتھوں نے کل تک اپنے بچوں کو اس مبارک موقع پر عیدی دی تھی اور فطرے کا
انتظام کیا تھا اب وہی دینے والے ہاتھ خود فطرے اور زکوٰة کی طلب میں اٹھ
رہے ہیں جنھیں کل تک عید کی مناسبت سے کپڑوں کاانتخاب کرنے میں بہت سا وقت
ضائع کرنا پڑتا تھا اب وہ اپنے گھر کی دہلیز سے دور کیمپوں میں امداد کے
منتظر ہیں۔
مہنگائی نے سفید پوش طبقے سے دو وقت کی روٹی کے ساتھ جینے کی امنگ بھی چھین
لی ہے اور حکمرانوں کی بد اعمالیوں کے باعث بدحالی کا شکار عوام مستقبل کے
خوف ‘ خطرات اور خدشات سے دوچار ہیںمگر ان کے زخموں پر مرہم رکنھ والا کوئی
ہے نہ ملک و قوم کی بگڑی تقدیر کی بہتری و اصلاح کیلئے پوری دیانتداری سے
اپنا کردار ادا کرنے کیلئے کوئی تیار ہے ‘ افرا تفری ‘ نفسانفسی ‘ مفاد
پرستی اور منافقت عام ہے کیونکہ مسلم حکمران یہودنصاریٰ کو اپنا ماویٰ و
ملجا تسلیم کرکے استعماری قوتوں کے غلام بنے ہوئے ہیں اور حکمرانوں کی یہ
غلامی عوام کی زندگی کے مسائل و مصائب اور تکالیف و پریشانیوں میں مزید
اضافے کے اسباب پیدا کررہی ہے ۔
پاکستان سے باہر فلسطین ‘ افغانستان ‘ چیچنیا‘ بوسنیا اور عراق کے بعد اب
شام بھی لہو لہا ن ہے کل تک جن بچوں کے دل میں عید کے ارمان تھے آج انکے دل
میں دہشت اور خوف کے لہراتے سائے ہیں کل تک جو بچے اپنی ماں کے سامنے مچلتے
تھے اب وہ مارے ڈر کے انکے بغل میں چھپے ہوئے ہیں ہونٹوں پر پپڑیاں جمی
ہوئی ہیں پیاس سے حلق خشک ہو چکے ہیں لیکن دل میں ابھی اسلام کی محبت زندہ
ہے موت کے اس رقص میں ابھی بھی یہ جذبہ سلامت ہے اسلام کی خاطر دنیا کی
ساری ذلت گوارہ ہے لیکن اے کاش کہ ان جذبات پر اسلام کی خالص تعلیمات کا
عکس ہوتا پیارے نبی ﷺ کی سنتوں کا اہتما م ہوتا تو اس دیوانگی میں بھی
فرزانگی کا مزہ آجاتا۔
کاش کہ ہمارے دل کے اندر اپنے ان مظلوم بھائیوں کا درد پیدا ہوسکے اور ہم
اپنی عید کی خوشیوں میں انھیں شریک کرسکیں اگر ہمارے پاس عید کے لئے کئی
جوڑے کپڑے ہوں تو ہم اپنے ان محروم بھائیوں اور بہنوں کا بھی خیال کریں اور
ہمارے جو بھائی جو دہشتگردوں اور مجرموں کے ہاتھوں عدم کو سدھارچکے ہیں ہم
ان کے اہل خانہ کا غم بانٹنے کی کوشش کریں ۔
عید کاپیغام ہے کہ ہم محبت کو عام کریں اپنے بھائیوں کے دکھ درد میں شریک
ہوںاور اس بات کی کوشش کریں کہ ہمارے اپنے محلے‘ شہر ‘ علاقے ‘ وطن اور
بستی و دھرتی میں ہماری معلومات کی حد تک عید کے لئے کسی ماں کی آنکھ سے
آنسو نہیں گرینگے کسی بہن کو اپنے سر پر آنچل کی کمی نہیں محسوس ہونے دیں
گے کوئی بچہ غربت کی وجہ سے عید کے دن خوشیوں سے محروم نہ ہوگا !
آئیے قوم کے لئے ایک نئی صبح کی شروعات کریں۔ ٭٭٭٭ |