سیالکوٹ میں بے روزگاری کے مسائل

ہر فرد کی اپنی قومی ، علاقائی اور خاندانی شناخت ہوتی ہے جس سے اس کی چال چلن ، رہن سہن اور اخلاقی تقاضوں کا پتہ چلتا ہے میں موجودہ حالات اور آنکھوں دیکھے واقعات کو بیان کر رہا ہوں وہ شاید غلط اور درست بھی ہوسکتے ہیں ۔شہر سیالکوٹ ایک صنعتی شہر ہے اور یہ سرجیکل آلات ، کھیلوں کے سامان بنانے میں عالمی شہرت رکھتا ہے ۔ سیالکوٹ چیمبر آف کامرس نے اپنی مدد آپ کے تحت ڈرائی پورٹ اور ایشاء کی سب سے بڑی رن وے بنانے کا ورلڈ رریکارڈرکھتی ہے ۔شہر سیالکوٹ کے صنعت کاروں کا سیالکوٹ کے تمام ترقیاتی منصوبوں میں حصہ دار ہیں اور ان کا کلیدی کردار ہے ۔ عرصہ دراز سے سیالکوٹ کے ارد گرد کے علاقوں کے راہنے والے یہاں ذریعہ معاش کے لئے آتے ہیں۔ شہر سیالکوٹ اپنے گرد نواح کے علاقہ ڈسکہ ، سمبڑیال ، پسروراور ضلع ناروال جو سیالکوٹ کاحصہ تھا کے علاقہ شگرگرھ، ظفروال ، بدوملی کے علاقہ کے لوگ بھی شہر سیالکوٹ میں مزدوری کرتے ہیں۔اور سرکاری ادارو ں مثلا محکمہ پولیس ، محکمہ تعلیم ، محکمہ صحت میں ضلع ناروال کی کثیر تعداد ہے ۔ تقریبا 8سال پہلے شہر اقبال کے لوگ یہاں چھوٹی گھریلو صنعتوں سے وابستہ ہیں سے اپنے گھر کے اخراجات پورے کرتے رہے لیکن کچھ عرصہ سے سیالکوٹ میں دوردراز علاقوں ضلع ملتان ، جھنگ، چنیوٹ، صوبہ کے پی کے سے آ کرچھوٹی صنعتوں سے وابستہ ہو کر مقامی آبادی کے افرادمیں بے روزگاری کی شرح زیادہ دیکھنے میں آرہی ہے ۔اور یہاں کے مقامی ہنر مند اور غیر ہنر مند افراد بے روزگاری کے جال میں جکڑے ہوئے ہیں ۔ایسا اب افغانستان سے آئے باشندوں کی کثیر تعدار مقیم ہو چکی ہے جو آہستہ آہستہ چھوٹی چھوٹی دوکانوں سے بڑے بڑے گودام اور چھوٹی صنعتوں سے لے کر تمام شعبوں میں کاروبار کر رہے ہیں ۔ اور لمحہ فکریہ ہے کہ سیالکوٹ کی نوجوان نسل غربت اور بے روزگاری کی طرف بڑھ رہی ہے ۔ لوئراور میڈل کلاس کے خاندان قرضوں کے بوجھ کے نیچے دب چکے ہیں۔واضع رہے خواجہ محمد آصف وفاقی وزیر پانی و بجلی نے اپنے حلقہ کے 6000ووٹ بنک کی خاطر ان کو شہریت دلائی جو سیالکوٹ کے رہنے والوں چھوٹے کاروباری افراد کے حقوق پر ڈاکہ ہے ۔

پاکستان کے فارن ایکٹ 1951کے مطابق غیرملکیوں کی شہریت ختم کرکے ان کو ملک بدر کیاجائے تاکہ مقامی افراد کے لئے روزگار کے مواقع پیدا ہوسکے ۔سپرئم کورٹ آپ پاکستان نے ایک پٹیشن پر قراد دیاتھاکہ 1951فارن ایکٹ کے مطابق پاکستان کی شریت کے وہی لوگ مستحق ہیں جو 1947میں پاکستان میں آکر آباد ہوئے۔گزشتہ ادوار حکومتوں نے بنگلادیش میں مکین بھری تعداد میں عوام کو ملک میں واپس لانے کیلئے کوئی قابل ذکر اقدامات نہیں کئے گئے ۔یہ لوگ پاکستان کی حمایت کی وجہ سے تاحال بنگلادیش میں ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ان کو واپس پاکستان میں لا کر آباد کیاجانا چاہیے لیکن ہمارے حکمرانوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے ساڈے تیں لاکھ پاکستانی کو واپس پاکستان نالاکر بہت بڑا ظلم و زیادتی کی گئی ۔

یاد رہے 1971سانحہ ڈھاکہ کے بعد ان پاکستانیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گے لیکن وہ اب بھی پاکستان سے وفاداری کا عیادہ کرتے ہیں جبکہ افغانستان کے عوام افغانستان میں جنگ کے بعد یو این او کی طرف سے مہاجر قراد دیئے جانے کے بعد پاکستان میں پنا ہ لینے پر مجبور ہوئے لیکن انہوں نے جہاں پر بڑے بڑے کاروبار جائنداتیں بنا لی اور اپنے آپ کو افغانی کی جگہ پاکستانی قراد دیگر یہاں کی معشیت پر منفی اثرات مرتب کئے۔
Muhammad Tayyab Chohdury
About the Author: Muhammad Tayyab Chohdury Read More Articles by Muhammad Tayyab Chohdury: 18 Articles with 21895 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.