کراچی میں رمضان کی رونقیں

رمضان کیا آیا کراچی میں زندگی پھر سے لوٹ آئی،کراچی بہت ہی عجیب و غریب شہر ہے، یہاں قتل و غارت گری بھی ہے، اور زندگی کی رعنائیاں لئے ہوئے ہلہ گلہ بھی۔ یہاں رمضان میں شبیہ محفلیں، قرات نعت مقابلے، مساجد میں شب بیداری، درس قران کی محفلیں، عبادت و اذکار،روشنیوں میں نہائی ہوئی مساجد، طاق راتوں میں قبرستانوں میں روشنیاں اور لوگوں کی کثرت سے آمد، تو دوسری جانب کھیل تماشے، شاپنگ میلے، نائٹ کرکٹ میچ، گدھا گاڑی اور سائیکل ریس، گھوڑوں اور اونٹوں کی سواری بگھی پر سیر، سڑکوں پر ٹریفک جام ، فٹ پاتھوں پر افطار کا انتظام ، گداگروں کے ریلے، فقیروں کے میلے،کراچی کے گلی کوچوں کی یہ رونق چاند رات کو اپنے عروج پر پہنچ کر عید کے بعد اگلے سال تک کے لیے پھر غائب ہو جائے گی۔
عروس البلاد کراچی پاکستان کا سب سے بڑا اور ایسا شہر ہے جس میں رمضان المبارک شروع ہوتے ہی زندگی کے تمام معمولات بدل جاتے ہیں اور ہر طرف ایک ایسا رنگ نظر آنے لگتا ہے جس میں اسلامی تہذیب و ثقافت اور روایات کی جھلک نمایاں ہوتی ہے، ماہِ رمضان اس شہر کا سارا ماحول ہی بدل دیتا ہے، مساجد اور عبادت گاہیں نمازیوں سے بھر جاتی ہیں، شہر میں موجود شادی ہالوں میں تین روزہ اور پانچ روزہ نماز تراویح کا اہتمام کیا جاتا ہے، رمضان کے آخری عشرے میں تمام بڑی بڑی مساجد بالخصوص نیو میمن مسجد بولٹن مارکیٹ، رحمانیہ مسجد طارق روڈ اور مسجد طوبیٰ ڈیفنس وغیرہ میں محافل شبینہ منعقد کی جاتی ہیں، اسی طرح کراچی کے مشہور پارک ’’ جہانگیر پارک‘‘ میں بھی تین روزہ تاریخی’’نورانی شبینہ‘‘ جو پچیس تا ستائیس رمضان تک جاری رہتا ہے، کا انتظام کیا جاتا ہے، اس محفل شبینہ کی خاص بات یہ ہے کہ جب تک حضرت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی رحمتہ اﷲ علیہ حیات تھے، وہ اس محفل شبینہ کا پچیس رمضان کو پہلا پارہ پڑھ کر باقاعدہ آغاز فرماتے اور ستائیس رمضان کو آخری پارہ سنا کر اس پروقار محفل شبینہ کا اختتام فرماتے تھے، یہ روایت آج بھی قائم ہے، بس حضرت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کی جگہ اْن کے فرزند صاحبزادہ شاہ انس نورانی صدیقی نے لے لی ہے۔

آپ کو رات میں کراچی کے مختلف علاقوں میں گھوڑے ، تانگے اور اونٹ نظر آ ئیں گے۔ لیکن اس کی وجہ ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمت نہیں، اور نہ ہی اس کی وجہ ہر دوسرے روز ہونے والی سی این جی اسٹیشنوں کی بندش ہے۔ہر سال کراچی کے کچھ پرانے علاقوں میں رمضان کے مہینے میں بچوں کی تفریح کے لئے لگنے والے یہ چھوٹے چھوٹے میلے جن میں بچے گھوڑے، گھوڑا گاڑی، تانگے اور اونٹ کی سواری کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ وہاں موجود جھولے اور مختلف کھانے پینے کی چیزیں بیچنے والے بچوں کو سستی تفریح کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ پہلے لیاری، پاکستان چوک، کھارادر، رامسوامی ، لیاقت آباد اور جمشید روڈ میں ایسے مناظر کثرت سے نظر آتے، کراچی کے ساحل پر بھی یہ میلے لگتے تھے۔ اب ان میں کمی تو آئی ہے۔ لیکن یہ روایتی میلے اب بھی جاری ہیں۔ گھوڑا اور اونٹ پہلے کراچی کی زندگی کا لازمی جز تھے۔ اب نہ گھوڑا گاڑی ہے نہ اونٹ ، جس پر کبھی بندرگاہ سے سامان ڈھویا جاتا تھا، امریکہ نے ایک بار ایوب خان کے زمانے میں امداد دی تو بندرگار سے ان اونٹوں کے گلے میں تھینک یو امریکہ کے بورڈ لٹکے ہوئے تھے۔ ایک امریکی صدر نے تو بشیر ساربان سے ہاتھ ملایا ۔ اور پھر اسے امریکہ کو دورہ بھی کرایا۔ اب نہ اونٹ نہ گھوڑے نہ کوئی خریدار ۔ کراچی میں ایک گھوڑا پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپے تک کا مل جا تا ہے اور یہ دن میں دو بار دو، دو سو روپے کا کھانا کھا جاتا ہے اور یوں دس روپے فی سواری کے حساب سے پہلی چالیس سواریوں کے پیسے تو خود گھوڑا ہی کھا جاتا ہے۔ میرا اور میرے بچوں کا حصہ تو اس کے بعد شروع ہوتا ہے "۔ یہ بات بادل نے بتائی۔ جو ایک گھوڑے کا مالک ہے اور یہی اس کی روزی روٹی کا وسیلہ ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کا گھوڑا نہایت وفادار ہے۔ ویسے تو بادل ایک چھوٹے چکر کے ایک سواری سے دس روپے لیتا ہے لیکن پورا تانگا 'بک' کرنے کے 50 روپے لیتا ہے۔ سواری کے دوران گھوڑا گاڑی چلانے والے کا زیادہ تر وقت بچوں کو ڈانٹنے میں اور گھوڑا گاڑی سے اتارنے میں نکل جاتا ہے۔ جو مفت میں اس کی گھوڑا گاڑی پہ سوار ہو کر چکر کھاتے اور شاید یہ ریس بھی لگاتے رہے کہ کون زیادہ دیر تک گھوڑا گاڑی سے مفت میں لٹکا چکر کھاتا رہا۔فیصل اپنے بچوں کو یہاں سیر کرانے آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک بہت بڑی سہولت ہے کیوں کہ روزے ، نماز اور تراویح کے اوقات میں سے کچھ وقت نکال کر ہم قریب ہی بچوں کو تفریح کے لئے لے جاتے ہیں اور پھر یہ ان سکے ڈال کر چلنے والے والے جھولوں کی طرح مہنگے بھی نہیں جو بڑے بڑے شاپنگ مالز میں ہوتے ہیں۔ البتہ محلے کے کچھ بزرگوں اسے فالتو شور شرابہ کہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سے علاقے میں جانوروں کے گند کے ساتھ ساتھ ٹریفک کی آمد و رفت بھی متاثر ہوتی ہے۔اب شہر میں اغوا کی واردات بڑھ گئی ہیں۔ اس لئے کراچی کے لوگوں کو اگر اپنے بچوں کو ان جانوروں کی سواری کرانی ہے تو کچھ زیادہ پیسے خرچ کر کے خود بھی ان بچوں کے ساتھ سواری کریں۔ کیوں کہ علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ بچوں کو سستی تفریح دینے والوں کے روپ میں جرائم پیشہ عناصر بھی اپنا کام دکھا جاتے ہیں -

کراچی کے گلی کوچوں کی یہ رونق چاند رات کو اپنے عروج پر پہنچ کر عید کے بعد اگلے سال تک کے لیے پھر غائب ہو جائے گی۔دنیا بھر کی طرح کراچی کے شہریوں نے بھی رمضان المبارک کا روایتی جوش و جذبے کے ساتھ استقبال کیا ہے۔ رمضان کا چاند نظر آتے ہی شہریوں کا دینی و مذہبی جوش و خروش بڑھ جاتا ہے۔ پہلے روزے کی نماز مغرب کے وقت سے ہی لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے مساجد کا رخ کرلیا تھا۔ پہلے مغرب اور پھر عشاء کی نماز باجماعت ادا کی اور اس کے فوری بعد نماز تراویح کے لئے صفیں بچھ گئیں۔ تراویح میں کراچی کی مساجد میں غیر معمولی رش دیکھنے میں آیا۔عمومی طور پر تمام مساجد نمازیوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھیں۔

رمضان میں شہر بھر میں کھانے پینے کی دوکانیں اور ہوٹل احترامِ رمضان میں افطار تک بند ہو جاتے ہیں، مسجدوں میں خوب رونق رہتی ہے، جو خاص طور پر رمضان کی طاق راتوں میں روح پرور اور دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، کچھ لوگ جو سارا سال نمازِ جمعہ کے علاوہ مسجد میں نظر نہیں آتے اس با برکت مہینے میں پانچ وقت کی نماز باجماعت ادا کرتے نظر آتے ہیں، کم عمر بچے بھی بہت ذوق و شوق سے مساجد کا رخ کرتے ہیں، یوں تو خواتین (جنہیں گھر میں نماز ادا کرنے کا حکم ہے ) پر مسجد میں با جماعت نماز تراویح کی ادائیگی ضروری نہیں، لیکن گزشتہ کچھ سالوں سے شہر کی کچھ مخصوص مساجد میں خواتین کے لیے بھی علیحدہ نماز تراویح کا انتظام کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ گھریلوں خواتین اپنے اپنے گھروں میں ماہ رمضان المبارک کے دوران تلاوت قرآن مجید، نوافل اور رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کا اہتمام بھی کرتی ہیں، دوران رمضان بعض گھروں میں نماز تراویح کے بعد ذکر واذکار کی محفلیں بھی سجائی جاتی ہیں، مساجد اور امام بارگاہوں میں افطاری کا بندوبست دیگر شہروں کی طرح کراچی کی بھی وہ روایت اور ایسی شناخت ہے جو مسلمانوں کی مساجد اور عبادت گاہوں کو اوروں سے ممتاز اور جدا کرتی ہے۔
کچھ مساجد میں رش ضرورت سے زیادہ ہونے کے سبب لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے سڑکوں پر بھی نماز تراویح ادا کی۔کورنگی اور ڈیفنس کے سنگم پر واقع مسجد طوبیٰ جسے گول مسجد بھی کہا جاتا ہے ، اس کا شمار ایشیاء کی چند بڑی مساجد میں ہوتا ہے۔ قریبی علاقوں کے مکینوں کی خواہش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ نماز یں اس مسجد میں ادا کی جائیں لہذا نماز تراویخ کے وقت یہاں لوگوں کا جم غفیر ہوتا ہے۔ 1969 میں تعمیر ہونے والی اس مسجد کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا 236 فٹ گنبد بغیر کسی ستون کے صرف بیرونی دیواروں پر کھڑا ہے۔ مسجد کا واحد مینار 70 میٹر بلند ہے اور اس میں بیک وقت پانچ ہزار سے زائد نمازی عبادت کر سکتے ہیں۔بولٹن مارکیٹ میں واقع نیو میمن مسجد کا شمار کراچی کی صف اول کی مساجد میں شامل ہوتا ہے اور یہاں ایک وقت میں دس ہزار تک نمازی سما سکتے ہیں۔ اس عظیم شاہکار کا سنگ بنیاد 24 اگست 1949کو رکھا گیا ، اس کے گنبد کی اونچائی 70 فٹ جبکہ احاطہ 17 ہزار دو سو اسی مربع گز ہے۔ رمضان کے دوران یہاں ہر روز کئی ہزارافراد کے لئے مفت افطاری کا انتظار کیا جاتا ہے۔یونیورسٹی روڈ پر گلشن اقبال کے علاقے میں واقع بیت المکرم مسجد کو بھی خاص اہمیت حاصل ہے اور یہاں بیک وقت پانچ ہزار سے زائد افراد نماز ادا کر سکتے ہیں۔یہاں بھی نمازیوں کی غیر معمول تعداد دیکھنے میں آئی۔ اس مسجد کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں سولر انرجی کے ذریعے روشنی کا انتظام کیا گیا ہے۔کراچی میں بدترین لوڈ شیڈنگ سے بچنے کے لئے شمسی توانائی کا یہ منصوبہ یہاں کامیابی کے ریکارڈ قائم کررہا ہے۔ نارتھ ناظم آباد کی فائیواسٹار چورنگی پر واقع مسجدفاروق اعظم میں بھی پانچ ہزارافراد نماز پڑھ سکتے ہیں۔سبزی منڈی کے علاقے میں واقع فیضان مدینہ نامی مسجد میں پندرہ ہزار فرزند ان اسلام نماز ادا کر سکتے ہیں۔ فیضان مدینہ تبلیغی سرگرمیوں کا بھی مرکز ہے۔رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف میں بیٹھنے والے افراد کی تعداد سب سے زیادہ یہیں کا رخ کرتی ہے۔گورومندر پر واقع جامع مسجد بنوریہ ٹاؤن بھی ایک بڑا دینی تعلیم و تدریس کا مرکز ہے ، یہاں آٹھ ہزار سے زائد نمازی بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں۔اس کے علاوہ دارلعلوم کراچی جو تقریبا 50 ایکڑ سے زائد رقبے پر محیط ہے اوریہاں ہزاروں ملکی اور غیر ملکی طلباء زیر تعلیم ہیں۔غوث اعظم مسجد ایشیاء کی سب سے بڑی کچی آبادی کہلانے والے کراچی کے مشہور علاقے اورنگی ٹاؤن میں واقع ہے اور یہاں بھی ہزاروں نمازی نماز ادا کرتے ہیں۔اس کے علاوہ مدنی مسجد عزیز آباد ، تھانوی مسجد جیکب لائنز، جامع مسجد امجدیہ عالمگیر روڈ ، جناح مسجد برنس روڈ، خضریٰ مسجد صدر، سبیل والی مسجد گرومندر، سلطان مسجد ڈیفنس فیز پانچ ، صالح مسجد صدر،مبارک مسجد گزری ، مدنی مسجد فیڈرل بی ایریا ، کنزالایمان مسجد گرومندرسمیت دیگر چھوٹی بڑی مساجد میں بھی نماز تراویخ کے بڑے بڑے اجتماع منعقد کیے جاتے ہیں۔ایکسپوسینٹر ، خالقدینا ہال ، خاتون جنت پارک فیڈرل بی ایریا ، جامع کلاتھ کے قریب ایم اے جناح روڈ پر تین روزہ ، پانچ روزہ اور دس روزہ تراویخ پڑھنے کا اہتمام کیا جاتاہے۔ مساجد میں ستائیسویں شب کو نماز تراویخ میں ختم قرآن کے مناظر بھی روح پرورہوتے ہیں۔کراچی کے بعض قدیم علاقوں میں ایسی مساجد بھی قائم ہیں جہاں صدیوں سے نماز تراویخ ادا کی جا رہی ہیں۔ رنچھوڑ لائن کے علاقے گزر آباد میں واقع جامع مسجد بیچ والی 1875 میں تعمیر ہوئی تھی اور گزشتہ ایک صدی سے یہاں نماز تراویخ اداکی جا رہی ہے۔ایم اے جناح روڈ، لائٹ ہاؤس کے قریب کچھی میمن مسجد کا سنگ بنیاد 1850 میں رکھا گیا تھا۔گزشتہ 150 سال سے یہاں تراویخ ادا کی جا رہی ہیں۔ جو نا مارکیٹ میں جامع مسجد کھجوری 80سال پہلے بنائی گئی تھی اور گزشتہ ساٹھ سالہ سے باقاعدہ یہاں نماز تراویخ اداکی جاتی ہے رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی شہرکے مختلف علاقوں میں نوجوان سڑکوں، گلی، محلوں میں جابجا نائٹ ٹیپ بال کرکٹ ٹورنامنٹ کا انعقاد کرتے رہے ہیں، تاہم کراچی میں گزشتہ کئی سالوں سے امن و امان کی مخدوش صورتحال نے نوجوانوں سے صحت مند سرگرمیاں بھی چھین لی ہیں، شہر کی سڑکوں پر جہاں نوجوانوں کے کھلاڑیوں کے بلے چھکے چوکوں کی صورت میں رنز اگلتے تھے اب وہاں بندوقیں گولیاں اگلتی ہیں، شہر میں جاری ٹارگٹ کلنگ اور آئے روز کے بم دھماکوں سے خوفزدہ شہریوں نے کھیل کا سلسلہ بھی کم کردیا ہے، ایسے ہی ٹورنامنٹ کے آرگنائزر اور ٹیپ بال، کرکٹ کے شیدائی کا کہنا ہے کہ پہلے رمضان میں تراویح کے بعد سے ہی جگہ جگہ نوجوان نائٹ کرکٹ میچ کی تیاری شروع کرتے رہتے تھے لڑکے سڑکوں کی صفائی کرکے پیچ کے نشان لگاتے اور لائٹنگ کا بندوبست کرتے تھے رات بھر کھلاڑیوں کا شور گونجتا رہتا ہے جبکہ علاقے کے مقامی افراد بھی نوجوان کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کیلئے موجود ہوتے تھے۔ نوجوان جوش وخروش کیلئے وکٹ پر ٹین کی شیٹ لگواتے تھے جس سے جب کھلاڑی آؤٹ ہوتا تو گیند جب وکٹ پر ٹکراتی تو شور برپا ہوتا اورفیلڈنگ کرنے والی ٹیم اپنے بالر کو داد دینے کیلئے شور کرتے جبکہ آؤٹ ہونے والا بیٹسمین اس آواز پر افسردہ ہوجاتا اور بلا ازمین پر پٹختا ہوا سڑک پر پینے پویلین میں چلا جاتا جبکہ کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کیلئے موجود تماشائی بھی شور برپا کرتے کھلاڑیوں کو داد دیتے نظر آتے تھے ، ناظم آباد، نارتھ کراچی، گلشن اقبال،ملیر ،کورنگی، لانڈھی ، عزیز آباد اور لیاری سمیت دیگر علاقوں میں بڑے ٹورنامنٹ کا انعقاد ہوتا تھا۔ لیاری میں بھی رمضان المبارک میں بڑے کرکٹ ٹورنامنٹ منعقد ہونے تھے جہاں شہر بھرکے مختلف علاقوں سے کھلاڑی لیاری کے ٹورنامنٹ میں کھیلنے کیلئے آتے اور کھیل میں اپنی صلاحیتیں منواتے تھے ۔ آج لیاری پر خوف و دہشت گہرے سائے ہیں۔ چند سال قبل لیاری میں رمضان کا سب سے بڑا کرکٹ ٹورنامنٹ منعقد ہواکرتا تھا جہاں پورے شہر سے نوجوان کھلاڑی میچز کھیلنے آیا کرتے تھے لیاری جگہ جگہ نوجوان کھلاڑی کرکٹ کھیلتے نظر آیا کرتے تھے، رمضان میں لیاری کی سڑکیں پررونق ہو جایا کرتی تھیں نوجوان رات بھر کرکٹ میچ کھیلنے اور میچ کی جیتی ہوئی رقم یا آپس میں چندہ جمع کرکے سحری کیلئے ہوٹلوں کا رخ کرتے تھے جس سے ہوٹلوں پر رش ہو جاتا ۔ اب پورے شہر میں گزشتہ 2 سے 3 دہائیوں سے خوف کا بسیرا ہے، نوجوانوں سے صحت مند سرگرمیاں بھی چھین لی گئی ہیں۔ لیاری سے کرکٹ ، فٹ بال، باکسنگ سمیت دیگر کھیلوں کے ذریعے نوجوان اپنے ٹیلنٹ کو اجاگر کرتے تھے، جوں جوں عید قریب آ رہی ہے۔کراچی کے اہم تجارتی مراکز افطار کے بعدکھلنا شروع ہوگئے جس سے عید کی روائتی خریداری کا باقاعدہ آغاز ہوگیا ہے،مارکیٹوں میں گہما گہمی ہونے سے شہر کی رونقیں بحال ہوگئیں، رواں سال رمضان کے پہلے عشرے میں ہی کاروبار افطار کے بعد کھلنا شروع ہوگئے، پتھاروں کی تعداد میں تین گنا اضافہ اور عارضی طور پر لگائے گئے اسٹالز بھی سج گئے، افطار کے بعد کھلنے والے تجارتی مراکز میں کلفٹن، ڈیفنس، طارق روڈ، بہادر آباد، صدر، اﷲ والا مارکیٹ، جامع کلاتھ، عیدگاہ کلاتھ مارکیٹ، جوبلی کلاتھ مارکیٹ، اولڈ سٹی ایریا،لیاقت آباد، حیدری مارکیٹ، ناظم آباد اور دیگر علاقوں کی مارکیٹیں شامل ہیں،رمضان کے دوسرے عشرے میں شہر کے دیگر شاپنگ سینٹرز اور دکانوں میں بھی عید نائٹ شاپنگ کی رونقیں بحال ہوگئی ہیں، آل کراچی تاجر اتحاد کے چیئرمین کہتے ہیں کہ کراچی میں دنیا کا سب سے بڑا عید تہوار منایا جاتا ہے، عید سیزن سیل کیلئے کراچی میں ہر سال ً70تا 80ارب روپے کی سرمایہ کاری کی جاتی ہے جبکہ محتاط اندازے کے مطابق عید پر خریداری کا تخمینہ 40تا 50ارب روپے لگایا گیا ہے ، مقامی تجارت کے علاوہ عید اور عید کے فوری بعد شادیوں کے سیزن کیلئے 25تا30ارب روپے کا مال ملک کے مختلف شہروں سے منگوایا جاتا ہے جن میں ریڈی میڈ گارمنٹس، کپڑوں پر کڑھائی، جوتے، ہوزری، چوڑیاں، کاسمیٹکس ،فرنیچر، آرائش کا سامان، ہینڈ میڈ کارپٹ ، خواتین کے پرس،مہندی، پردے ، مختلف اقسام کا کپڑا،کھلونے، کراکری، آرٹیفیشل جیولری اور دیگر سامان شامل ہے، انھوں نے کہا کہ پتھارے دار ، دکاندار اور کارخانے دار طبقہ سال بھر عید سیزن سیل کا انتظار کرتا ہے جس کیلئے دل کھول کر سرمایہ کاری کی جاتی ہے، کراچی کے بازاروں میں بارش اور سیکورٹی سے کچھ کمی تو ہے لیکن رونقیں بھر بھی ہیں۔چاند رات تک شہر کی مارکیٹں رات دیر گئے تک کھلی رہتی ہیں، جن میں افطار کے بعد رات دیر تک خریداروں کا ہجوم نظر آتا ہے، شہر میں جگہ جگہ بچت بازار لگائے جاتے ہیں، جن پر ہر قسم کی اشیاء مارکیٹ سے قدرے کم ریٹ پر دستیاب ہوتی ہیں اور افطار کے بعد بازاروں میں رات دیر تک خریداروں کی بھیڑ لگی رہتی ہے۔

سیکورٹی کے لئے مارکیٹوں کے اطراف تعینات کیئے گئے پولیس اہلکاروں کی کارکردگی موثر تو نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی کچھ تو ہے۔ مارکیٹ کمیٹیوں نے بھی پرائیویٹ سیکوریٹی اداروں کے ذریعے تاجروں اور خریداروں کی حفاظت کیلئے ٹھوس اور مؤثر اقدامات کرنے کی کوشش کی ہے۔ رواں سال عید کی روائتی خرید و فروخت میں بہتری سیکوریٹی اداروں کی کارکردگی پر منحصر ہے، گذشتہ سالوں کی بہ نسبت ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کم ہونے کے باوجود بھتہ خوری، جبری چندہ اور پرچیوں کے واقعات میں تین گنا اضافہ تشویشناک ہے، ہمارے یہاں عید شاپنگ پر تاجرمصنوعات کی قیمتوں میں خصوصی رعایت کا اعلان نہیں کرتے ہیں۔ جس سے متوسط اور غریب طبقے کو عید کی حقیقی خوشیاں نہیں مل پاتی ۔ اگر ’’ منافع کم، سیل زیادہ’’کا اصول اپنائیں، تو صورتحال بہتر ہوسکتی ہے۔ کراچی اب دو کروڑ عوام کا شہر ہے، عید پر سب ہی خریداری کرتے ہیں۔ اور اپنے وسائل کے مطابق عید الفطر منانے کا اہتمام کرتے ہیں، عید کی خوشیوں میں 80فیصد حصہ بچوں کا حصہ ہوتا ہے۔ عید کے لئے غریب اور کمتر وسائل کے افراد کم ازکم 500روپے فی کس جبکہ پوش گھرانوں کے افراد اوسطاً 50ہزار روپے فی کس تک خرچ کرتے ہیں،پسماندگی کا شکار30فیصد افراد عید پر نئے کپڑے سلوانے کی سکت نہیں رکھتے، کہنے والے کہتے ہیں کہ اگر کراچی میں بجلی کی مسلسل فراہمی اور امن و امان کی صورتحال بہتر ہو تو اس سال عید شاپنگ کا حجم 50ارب روپے سے بڑھ سکتا ہے ۔

کراچی کی ایک اور انفرادیت یہ بھی ہے کہ یہاں مخیر اور اہل ثروت حضرات اور فلاحی تنظیموں کی جانب سے شہر میں جگہ جگہ غریب روزہ داروں کیلئے سحری و افطاری اور کھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے، بس اسٹاپوں پر مسافروں کی سہولت کیلئے افطاری کے اسٹال لگائے جاتے ہیں، کراچی میں افطار کے بعد کھانے پینے کے شوقین لوگ برنس روڈ، ایم اے جناح روڈ، سی ویو، بوٹ بیسن، سیون اسٹار چورنگی اور چٹخارے دار کھانوں کے ریستورانوں اور فورڈ اسٹریٹوں کا رخ کرتے ہیں، جوں جوں عید الفطر قریب آنے لگتی ہے، ان بازاروں کی رونقیں اور بھی دوبالا ہو جاتی ہیں، یہ بازار تقریباً ساری رات ہی کھلے رہتے ہیں، خاص طور پر ریسٹورنٹ تو صبح سحری تک کھلے رہتے ہیں تاکہ کسی کو بھی سحری میں تکلیف نہ ہو، بازاروں میں نت نئے خوانچہ فروش دیکھنے کو ملتے ہیں جو ٹھیلوں اور خوانچوں پر سموسے، پکوڑے، دہی بڑے، جلیبیاں اور انواع و اقسام کی چاٹ فروخت کر رہے ہوتے ہیں، مارکیٹ میں ہر قسم کا پھل دستیاب ہوتا ہے، جو مہنگائی اور ناجائز منافع خوری کے رجحان کی وجہ سے ایک غریب اور عام آدمی کی پہنچ سے بہت دور ہوتا ہے، بدقسمتی سے انتظامیہ کی ملی بھگت کی وجہ سے پچھلے کچھ برسوں سے رمضان میں ناجائز منافع خوری کا رحجان بہت بڑھ گیا ہے، جس پر حکومت کوئی توجہ نہیں دیتی۔ ایک زمانہ تھا لوگ عید کا چاند دیکھنے کے لئے کھلے میدانوں اور چھتوں پر جمع ہوا کرتے تھے اور جب کوئی چاند دیکھ لیتا تھا تو انگلی کے اشارے سے دوسروں کو دکھانے کی کوشش کرتا تھا، لوگ چاند دیکھ کر چاند دیکھنے کی دعا پڑھتے اور ایک دوسرے کو عید کی مبارکباد دیا کرتے تھے، محلے کی مساجد سے چاند کا اعلان کیا جاتا تھا اور سائرن بجائے جاتے تھے، لیکن میدانوں اور چھتوں پر جمع ہوکر چاند دیکھنے اور ایک دوسرے کو گلے مل کر رمضان کی مبارکباد دینے کا رواج اب تقریباً متروک ہی ہوگیا ہے اور خود چاند دیکھنے کے بجائے اْس کی جگہ ٹی وی پر چاند کا اعلان سن کر موبائل میسجز کے ذریعے ایک دوسرے کو مبارکباد دینا اب عام سی بات بن گئی ہے۔ رمضان کی ایک روایت گھروں میں افطاری کی تیاری بھی ہے۔ یہ بھی ہمارے کلچر کاحصہ ہے۔ اب بھی بازار سے افطاری منگوانے کے بجائے خواتین کا خود گھروں میں افطاری تیار کرنے کا رواج موجود ہے اور ہماری گھریلو خواتین شربت، ملک شیک، فروٹ چاٹ، کھٹے میٹھے دہی بڑے، آلو پالک کے پکوڑے، مختلف قسم کے سموسے بازار سے منگوانے کے بجائے گھر ہی پر تیار کرنا ضروری خیال کرتی ہیں، عموماً گھروں میں نمازِ عصر کے بعد افطاری بننا شروع ہوجاتی ہے، جس میں بچوں اور بڑوں سب کی پسند کا خیال رکھا جاتا ہے، رشتے داروں، ہمسایوں، محلے کے غریب گھروں اور مساجد میں افطاری اور خاص کھانوں کو بھیجنے کا رواج آج بھی زندہ ہے، آج کے دور میں افطاری کے وقت ایک دستر خوان پر ایک ساتھ سب کا روزہ کھولنا کسی انعام اور نعمت باری سے کم نہیں ہے، ہوش رباء مہنگائی کی وجہ سے سفید پوش طبقے کی جانب سے افطار پارٹیوں کا سلسلہ کم ضرور ہوگیا، مگر ابھی ختم نہیں ہواہے، بچوں کو روزہ رکھوا کر روزہ کشائی کے دعوت نامے تقسیم کرنا اور افطاری کی بڑی بڑی تقریبات منعقد کرنا اور اہل ثروت کی جانب سے شہر کے اعلیٰ ہوٹلوں میں افطار ڈنر (بوفے) دینا شہر کی نئی فروغ پاتی روایات میں سے ہیں۔

ماہ رمضان المبارک میں کراچی شہر پر بھی پیشہ ور بھکاریوں اور گداگروں کی یلغار ہوتی ہے جن سے بازاروں اور سڑکوں پر جان چھڑانا آسان کام نہیں ہے، اسی طرح دن بھر گھر کے دروازے پر کسی نا کسی حاجت مند کا موجود ہونا بھی علامت رمضان ہے، رمضان المبارک کے دنوں میں سحری کے اوقات میں محلے کی مساجد سے خوبصورت لحن دار آوازوں میں نعتوں کا پڑھنا اور بار بار سحری کے اختتامی وقت کا بتانا ایک معمول ہے، حالانکہ پہلے سحری میں جگانے والے آتے تھے جو اعلانات اور ڈھول بجا کر لوگوں کو اٹھانے کا فریضہ سر انجام دیتے تھے، لیکن اب رمضان کے ابتدائی دنوں میں یہ لوگ دور دور تک نظر نہیں آتے، ہاں جہاں آخری عشرہ آتا ہے یہ لوگ نذرانے کے حصول کیلئے یوں نکل آتے ہیں جیسے پوری تندہی سے انہوں نے لوگوں کا سحری میں اٹھانے کا کام کو سرانجام دیا ہو۔ایک زمانہ تھا جب رمضان کے آخری عشرے میں مساجد میں اعتکاف میں بیٹھنے کیلئے ایک آدمی بھی نہیں ملتا تھا اور اس فرض کفایہ کی ادائیگی کیلئے بزرگوں کو اعتکاف میں بیٹھنا پڑتا تھا، لیکن گزشتہ دس پندرہ سالوں سے نوجوانوں میں اعتکاف میں بیٹھنے کا رحجان بہت زیادہ بڑھ گیا ہے اور اب کراچی کی مساجد میں ایک نہیں بلکہ کثیر تعداد میں نوجوان جن کی تعداد دو اور تین ہندسوں سے بھی زائد ہوسکتی ہے، اعتکاف میں بیٹھتے ہیں۔ اب چاند رات کا انتظار ہے چاند رات کو خواتین اور نوجوان لڑکیوں کا چوڑیاں پہننا، مہندی لگوانا اور سجنا، سنورنا اور صبح عید کی تیاریاں کرنا بھی اس رات کے خاص خاصے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ اکیسویں صدی کا جدید کراچی آج بھی پاکستان کا ایک ایسا شہر ہے جو اپنی تہذیب و ثقافت،اساس اور روایات کا امین اور ان سے اپنا رشتہ قائم رکھتے ہوئے ہے،
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387812 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More