چاک گریباں اور عید کی خوشیاں

ایک زمانہ وہ بھی گزارا ہے کہ عیدالفطر سے ہفتہ قبل ہی عید کی تیاریاں شروع ہوا کرتی تھیں،اس دوران قبل از وقت ہی عزیز و اقارب اور دوستوں کو اپنے گھر آنے کی وعوت میں سبقت لے جانے کی ہر ایک کو فکر لاحق تھی کہ اس دفعہ ہم اپنے گھر بلانے میں پہل کریں گے۔عید کے دن سویرے سویرے چھوٹے بڑے سب عید کے نئے پوشاک زیب تن کرکے خوشی خوشی عید کی نماز ادا کرنے اپنے اپنے عبادت خانوں کا رخ کیا کرتے تھے۔وہ پر امن ماضی کتنا پرسکون تھا،بلا خوف و خطر نماز پڑھنے کو لوگ مسجد جایا کرتے تھے،نہ دھماکوں کا خوف تھا نہ فائرنگ سے ہلاک ہونے کا خوف تھا اور نہ جوتی چوری ہونے کا خوف۔اس دوران تو گھر کے بچوں کا پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ وہ دن بھر کہاں کہاں پھر رہے ہیں مگر شام کو سلامت خوشی خوشی وہ اپنے گھر واپس لوٹ آیا کرتے تھے،بچوں کے اغوا ہونے کی فکر بھی نہیں تھی۔ملک میں کسی حد تک خوشحالی تھی۔غریب سے غریب تر لوگ بھی اپنی بساط کے مطابق عید کی خریداری کر کے اپنے بچوں کے ساتھ عید منایا کرتے تھے۔اُس دوران یہ بھی منظر بھی دیکھنے کو ملتا تھا کہ حاحب حیثیت لوگ اپنے محلے کے بچوں میں عیدی تقسیم کرکے بہت خوش ہوا کرتے تھے جیسا کہ انہوں نے اپنے بچوں کو عیدی دی ہو۔یہ وہ زمانہ تھا کہ کسی کے گھر میں کوئی موت واقع ہوئی تو عزیزوں کے علاوہ محلے والے بھی سب سے پہلے ان کے گھر تحفائف لے کر ان کا غم دور کرنے جایا کرتے تھے۔صاحب خانہ کے یتیم بچوں کے ساتھ شفقت اور پیار سے پیش آتے تھے۔جبکہ عید کی نماز کے بعد جانے انجانے سب سے بھائیوں کی طرح عید ملا کرتے تھے۔ماضی کا دور آج بہت یاد نے لگتا ہے’’ واقعی یاد ماضی عذاب‘‘ لگتا ہے۔چونکہ کوئی گھر عید کی خوشیوں سے خالی نہ تھا۔پورا ملک خاندان کی مانند ددکھائی دے رہا تھا۔اس کے مقابلے میں اب تو پورا ملک ، ہمارے اپنے بھائی، اپنے وہ دوسست، اجنبی ہوچکے ہیں، آج عید کے دن مسجد جاتے ہوئے بہت خوف محسوس ہو رہا ہے کہ خدا نخواستہ کہیں ہم دھماکے کی نظرنہ ہوجائیں، کہیں فائرنگ سے ہلاک نہ ہونا پڑے۔2013ء کا عید اپنے ساتھ کتنی خوشیاں لے کر آرہا ہے۔وہ لوگ جن کے پیارے دھماکوں، اور دہشت گردوں کی فائرنگ سے جدا ہوچکے ہیں ان کے لئے عید کا دن تو ماتم ہے گزشتہ سال وہ اپنے عزیزوں کے ساتھ عید منارہے تھے مگر آج وہ منوں مٹی تلے دفن ہوچکے ہیں ان ماؤں کا کیلئے عید کی اپیغام لے کر آیا ہے، ان بہنوں کا کیا عید ہوگا، ان کے بچے کس طرح عید منائیں، وہ بیوائیں جو اپنے سر کے تاج کو کھو چکیں ہیں ان کے لئے عید کی خوشی کیسی۔سانحہ کوئٹہ والوں کی فیملی گریباں چاک کئے ہوئے اپنے شہدوں کی قبرستانوں میں فاتحہ خوانی کرتے کرتے خون کے آنسوں بہائیں گے، سانحہ عبا ٹاؤں والے عید کے دن سسکتے ہوئے گزاریں گے،سانحہ پشاور والے اپنے پیاروں کو روتے ہوئے عید گزاریں گے،سانحہ کوہاٹ والے، سانحہ پنجاب والے غرض جہاں جہاں دہشت گردی سے بے گناہ لوگ مارے گئے ہیں انکے گھروں میں تو صف ماتم بچھی ہے کیسا عید۔سیلاب میں جن غریبوں کے مکانات تباہ ہوچکے ہیں، بارشوں سے جو ہلاک ہوچکے ہیں،ٹارگلنگ سے ہزاروں لوگ مارے جاچکے ہیں۔ان کے اہل خانے تو عید کے دن خون کے آنسوں بہارہے ہونگئے۔نچلے طبقے کے وہ لوگ جو بھوکے ہیں وہ لوگ جو اپنے عزیزوں اور بچوں کا علاج کروانے سے قاصر ہیں جن کے پاس کھانے کہ نہیں علاج کو نہیں ان کا کیا عید ہوگا؟۔جن کی دکانوں میں جن کے گھروں میں ڈاکے پڑے ہیں ان کا سب کچھ لوٹ کر ڈاکو لے گئے ہیں وہ کس طرح منا سکتے ہیں۔اور نچلے طبقے کے وہ سرکاری ملازمین جنہیں کئی ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں وہ اپنے بچوں کو عید کے دن کس طرح خوش رکھیں گے۔سانحہ کوہستان، سانحہ چلاس، سانحہ لولوسر میں جن کے پیارے مسافرت مین مارے گئے ہوں کیا وہ عید منائیں گے؟۔کرااچی میں بتھہ خوروں کے ہاتھوں گولی کا نشاہ بننے والے لوگوں کا عید تو نہیں ہوسکتا ہے۔ جبکہ بلدیہ کراچی والوں نے بلڈوزروں سے غریبوں کے مکانات کو مسمار کیا تھا وہ کھلے آسمان پر عید تو نہیں مناسکتے ہیں۔اس ملک میں ہر غریب، ہر لاچار، ہر بے دست انسان ظلم کا شکار رہتا ہے تو مظلوم کی کیا عید ہوسکتی ہے۔آدھا ملک چاک گریباں ہے اور ہم عید کی بات کرتے ہیں۔گلگت بلتستان میں بھی حالہ سیلابوں سے سینکڑوں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں ان کے لئے عید چہ معنی دارد؟۔ وہ ب بٹھے پر کام کرنے والی خواتین ، وہ زمینداروں کے غلام ہاری جن کے نصیب میں عید کی خوشی تو سرے سے نہیں ہے ۔عید اگر ہے تو سرمایہ داروں کا ہے، وڈیروں کا ہے،لٹیروں کا اور ملک کو لوٹننے والوں کا،عید اگر ہے توسیاستدانوں کا، اعلیٰ حکام کا،عید اگر ہے تو ضمیر فروخت کرکے ڈالر کمانے والوں کا،عید اگر ہے تو مہنگے داموں مال فروخت کرنے والوں کا، عید اگر ہے تو دہشت گردوں کا چونکہ ملک میں ان ہی کا راج ہے وہ جہاں چاہے فتح کے شادیانے بجاتے ہیں، عید اگر ہے تو منافع خوروں کا، سود خوروں کا۔غریبوں کا عید سے کیا تعلق ہے۔ہم اگر کسی سے ہمدردی کریں بھی تو انہیں کیا دے سکتے ہیں، مگر ہماری ہمدردیاں، ہماری دعائیں، ہمارا خلوص، ہماری محبت صدق دل سے ہم ان تمام مظلوموں کو سلام پیش کرتے ہیں ان کے لئے دعا گو ہیں کہ اﷲ انہیں صبر جمیل عطا افرمائیں وہ تمام انسان جو کسی نہ کسی مصیبت کی وجہ سے عید منانے سے قاصر ہیں ہم ان کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔ اور اہم اپیل کرتے ہیں جو بھی اہل ثروت لوگ ہیں وہ بے دست لوگوں کا خیال رکھیں ان کی مدد کریں ان کی دلجوئی کریں کیونکہ آج وہ زمانہ ہے کہ غریب سے امیر اور امیر سے غریب بننے میں یا زندہ سے خاک کا حصہ بننے میں کوئی وقت نہیں لگتاہے۔خدا ہر کسی کو مصیبت سے بچائے، ہر ایک کو عید منانا نصیب فرمائے۔ہمیں وہ توفیق بھی عطا فرمائے کہ ہم دوسروں کی خوشی اور غم کو اپنی خوشی اپنا غم سمجھیں جو ایک مسلمان کا فریضہ ہے۔اس ماہ مبارک کے تقدس کا جس جس نے خیال رکھا ہے بھوک، پیاس برداشت کی ہے عبادات بجا آوری میں سستی نہیں کی ہے دوسروں کا خیال رکھا ہے ان سب کو دل کی گہرائیوں سے بہت بہت عید مبارک ہو۔
Yousuf Ali Nashad
About the Author: Yousuf Ali Nashad Read More Articles by Yousuf Ali Nashad: 18 Articles with 19122 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.