فیس بُک (Facebook) اور آج کا نوجوان۔۔۔!

دنیا ایک گلوبل ویلیج ہے ۔ اس کی عملی تصویر سو شل میڈیا کی شکل میں سامنے آئی ہے ۔ سو شل میڈیا میں فیس بک سر فہرست ہے ۔ دنیا بھر میں فیس بک استعما ل کرنے والوں کی تعدا د میں روزانہ اضا فہ ہو رہا ہے ۔ اکتوبر 2012کے اعد اد و شمار کے مطابق اس وقت امریکہ نمبر 1 ہے۔ جہاں 168 ملین افراد فیس بک استعمال کر رہے ہیں۔ جبکہ پاکستان کا نمبر 28ہے اور یہاں 7.49ملین لوگ اس ویب سائٹ سے وابستہ ہیں جن میں 68%مرد اور 32% خواتین ہیں۔ ان افراد میں 50% لوگوں کا تعلق 18-24 سال کی عمر سے ہے ۔ تعداد میں اضافہ حیران کن ہے ۔ صرف گزشتہ 6ماہ کے دوران 12لاکھ افراد کا اضافہ ہو ا ہے ۔ فیس بک استعمال کرنے والوں میں انڈیا تیسرے نمبر پر ہے ۔

یہ تو تھی اعدادو شمار کی کہانی ۔۔۔ فیس بک کے کیا فائد ے ہیں یا کیا نقصانات ۔۔۔؟ یہ ایک لمبی بحث ہے ۔ اس وقت میں آپ کی توجہ ایک نقطے کی جانب مبذول کروانا چاہتا ہو ں اور وہ یہ جس طرح سمندر کی بعض لہریں اس کے سینے میں موجود چیزوں کو ساحل کنارے پھینک جاتی ہیں ایسے ہی فیس بک نے ہمارے معاشرے با لخصوص پڑھے لکھے نوجوانوں میں موجود بے شمار خصلتوں کو بے نقاب کر دیا ہے ۔
ان میں سب سے نمایاں یہ کہ ہمارے نوجوانوں میں تحقیق کا ذوق زوال کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے ۔ جلد بازی اور سنسنی خیزی ہماری طبیعت کا حصہ بنتی جا رہی ہے ۔ کوئی بھی ،کسی کے متعلق ،کسی بھی خبر کو شیئر کرنے سے پہلے اس پر 10منٹ بھی تحقیق نہیں کرتا ۔ مختلف گروپس ایک دوسرے کے بارے میں غلط خبریں پھیلاتے ہیں اور لوگ ان خبروں کو دھڑا دھڑ شیئر کرتے ہیں۔ جب تک خبر کی تر دید آتی ہے بات بہت دور تک پھیل جاتی ہے ۔ لوگ اس پر غلط خبریں پھیلانے والوں کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ حکومت کچھ کرے۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ معاشرے کی تعمیر میں آخر فرد کا بھی کوئی کردار ہے ۔ آپ تو پڑھے لکھے ہیں اگر" آپ" کے رویے ایسے ہیں تو پھر ان پڑھ لوگوں سے گلہ کیسا ۔۔۔!

ایک اور بات جو فیس بک کا بغور جائزہ لینے کے بعد نظر آتی ہے وہ یہ کہ فرقہ واریت اور عدم برداشت کے حوالے سے مولوی بیچارے تو مفت میں بد نام ہیں ۔ پڑھا لکھا نوجوان ایک عام مولوی سے کہیں بڑھ کر خود پسندی اور عدم برداشت کا شکار ہے ۔ ملالہ یوسف زئی کے واقعے پر پوری سوسائٹی دو حصوں میں تقسیم نظر آئی ۔ لوگ مخالف فریق کی بات سننے کو تیار نہیں ۔ اس کی ایک جھلک آپکو کسی بھی مشہور کالم نگار کے پیج پر نظر آ سکتی ہے ۔ جیسے ہی کالم اپ لوڈ ہو تا ہے ۔ اس کے نیچے Commentsمیں غلیظ گالیاں تک دی جاتی ہیں۔ اور ایک منٹ سے پہلے امریکی ایجنٹ، حکومتی ایجنٹ، یہودی ایجنٹ اور ایسے بے شمار القابات سے نواز دیا جاتا ہے ۔

ایک اور رویہ جھوٹ کا رویہ ہے ۔ فیس بک پر تقریباََ70% سے زیادہ معلومات جھوٹ یا بد دیانتی پر مبنی ہیں ۔ مختلف کلپس کو جوڑ کر ویڈیوز بنا دی جاتی ہیں۔ کبھی تو ایسا بھی ہو تا ہے کہ اگر کسی کالم نگارنے کسی سیاسی جماعت کے متعلق متوازن تجزیہ کیا ہے اور اچھی اور بری دونوں طرح کی باتیں لکھی ہیں تو وہ سیاسی جماعت صرف اپنے مقصد کا حصہ کاٹ کر شیئر کر کے مقبول ہونے کی سند حاصل کر لیتی ہے ۔ اکثر اوقات تو خود سے کالم لکھ کر اپ لوڈ کر دیا جا تا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ فلاں کالم نگار کا کالم ہے جو چھپ نہیں سکا ۔ حتیٰ کہ ادب کو بھی نہیں بخشا گیا۔ من گھڑت اشعار کے نیچے اقبال کا نام اور مختلف اقوال کے نیچے حضرت علی ؓ یا حضرت واصف علی واصف ؒ کا نام لکھ دیا جا تا ہے ۔

نوجوانوں میں غیر ذمہ داری کا رویہ بھی نمایاں ہے ۔ لوگ نجی تصاویر کو بغیر کسی پرائیویسی کے اپ لوڈ کرتے ہیں ۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ ان تصاویر کو کن کن غلط مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔

اس کے علاوہ بھی بے شمار سماجی روپے آپکو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر نظر آ سکتے ہیں۔ معاشرے کے لیے یہ صورتحال پر یشان کن ہے کہ پڑھی لکھی نوجوان نسل تباہی کے دھانے پہ کھڑی ہے لیکن اس کی مناسب تر بیت کی بجائے سب لوگ معاشرے کی تباہی کا ذمہ دار حکومت یا ن پڑھ لوگوں کو قرار دیتے ہیں ۔ ہمیں چاہیے کہ اپنا احتساب کریں اور دوسروں کو الزام دینے کی بجائے خود کو درست کریں۔
Dr Abdul Basit
About the Author: Dr Abdul Basit Read More Articles by Dr Abdul Basit: 50 Articles with 37777 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.