عید اور رمضان میں میڈیا کی فکری یتیمی

اب کے عید یوں آئی کہ بس لمحہ بھر کا احساس ہی ٹھہرا، رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کی عشاٗٔ حرم مکہ میں ادا کی اور طلوع فجر کے لمحات وادی بطحا میں میسر آئے۔
یہ تو کرم ہے ان کا ورنہ مجھ میں تو ایسی بات نہیں
جتنا دیا سرکار نے مجھ کو اتنی میری اوقات نہیں

حرمین طیبین کی اس حاضری کی خاص بات یہ تھی کہ برادرم وقار الحسن بھی میرے ساتھ تھا جو کہ عمان
سے عمرہ کی غرض سے طویل مسافت طے کر کہ پہنچا تھا۔ پیغمبروں کی ماں سیدہ ہاجرہ سلام اللہ علیہا کی دوڑنے کی جگہ اللہ سے دعا مانگی تھی کہ میرا بھائی یہاں آئے جو کہ حق تعالٰی نے قبول فرمائی۔ الحمدللہ علیٰ احسانہ و فضلہ

عید کا دن عرب شریف میں ہی گزرا، پاکستانی میڈیا سے بے خبری رہی، شام کے وقت سوشل میڈیا الیکٹرانک میڈیا کو ننگا کرتا پایا گیا۔ پھر اپنے من کی تسکین کی خاطر اور تحقیق و جستجو کی نیت سے تمام ذرائع کھنگال ڈالے۔ ویسے تو اس بار رمضان المبارک میں بھی مذہب کے نام پر خوب تجارت ہوئی، پروگراموں کے میزبان فیشن ماڈل بن کر پیش ہوتے رہے، سال بھر جو رقص و سرود کی محفلوں کی زینت بنتے ہیں، مورننگ شو کرتے ہیں اور مختلف ڈرامے کرتے ہیں وہ رمضان میں مسلمانوں کی ایمان مضبوط کرنے اور گناہ بخشوانے کے سلسلے کے رہبر بن جاتے ہیں۔ دین میں نرمی اور اپنی مرضی کے احکام کے متلاشی کھلے دل سے ان کی اتباع بھی کرتے ہیں اور وکالت بھی۔ اکثر سکالر بھی دین سے دور بلکہ بہت دور، خواتین نعت خوان بھی اسلامی حدود کا جنازہ نکالتی نظر آتی ہیں کہ اگر ایک خاتون ٹی وی پر نعت سنائے اور ہر غیر محرم اسے سن سکتا ہے اور اس کا قیمتی سکارف ، لال رخسار، لپ اسٹک سے مزین ہونٹ اور لباس دیکھ کر دل بھڑک اٹھتا ہے تو پھر گانا گاتی ہوئی خاتون کیونکر گناہگار ٹھہری؟ پاکستانی میڈیا اپنا احتساب کرے کہ رمضان کے مہینے میں انہوں نے اسلام کی کیا خدمت کی؟ چھیل چھبیلے لڑکے اور لڑکیوں کی رنگین محفلوں کے سوا کیا دیا؟ سحری اور افطاری کے پروگراموں میں دین کے نام پر تجارت ہوئی مگر۔۔۔۔ کتنے لوگوں نے وضو کا طریقہ سیکھا، غسل کیسے ہوتا ہے؟ نماز کے احکام کیا ہیں؟ نمازِ جنازہ کیسے ہوتی ہے؟ روزہ کے احکام، مکروہات، مفسدات اور متعلقات کیا ہیں؟ آپ کو ان سوالوں کا جواب نہیں ملے گا کیونکہ یہ چینلز تو اپنی ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں تھے۔

عید پر بھی ان چینلز نے اپنے فکری آقاؤں کی بھرپور ترجمانی کی، عید اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ خوشی ہے، اس خوشی کا منانے کا سلیقہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے عطا فرمایا ہے۔ عربوں کی عیاشی، فضول خرچی، حقوق انسانی کی پامالی اپنی جگہ مگر شھر مبارک کے آتے ہی جگہ جگہ دستر خوان لگتے ہیں، غربأ اور مستحقین کی خدمت کی جاتی ہے، عبادات اور قیام الیل کا اہتمام ( یہ الگ بات ہے کہ اس قیام الیل اور عبادات کی آڑ میں شرک اور بدعت کے فتووں کی تربیت دی جاتی ہے) دنیا کی ہر مصروفیت کی حیثیت ثانوی ہو جاتی ہے، مگر پاکستان میں اسلام در در ٹھوکریں کھاتا نظر آتا ہے، ٹی وی پر رمضان کی آڑ میں ایسی ایسی واہیات بکی جاتی ہیں کہ الامان والحفیظ۔ اسلام کے نام پر وجود آنے والی اس مملکت کے ٹی وی چینلز نے اس رمضان میں ہم جنس پرستوں ، عقل و شعور سے بے نیاز، فلمی و تفریحی مخنثوں سمیت دیگر کئی بے حیا کرداروں کو خوب خوب تشہیر دی۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام کم اور ہندو بنئیے کا نظریہ و فکر زیادہ نظر آئے۔ جس انداز میں پاکستانیوں نے رمضان کو نیا رنگ دیا ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ اگلے بیس سال کے بعد رمضان اور عید ایک فیشن تہوار بن کر رہ جائے گا۔ عید جس کو یوم الجزا کہا گیا اسے بے حیائی اور بے غیرتی کا مظہر بنا دیا گیا۔ اسلام کو اپنے ہی دیس میں پردیسی بنایا جا رہا ہے۔ اسلام کے نام لیوا اسلام کو لوٹ رہے ہیں، اسلام کے منبر پر کم ظرف، کم عقل، نااہل اور جاہل سکالروں کا قبضہ مضبوط ہو رہا ہے اور یہی اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہا ہے۔

عید کے موقع پر اکثر ٹی وی چینلز تفریحی و مذاحیہ پروگرام پیش کرتے ہیں، ان پروگراموں میں شوہر اور بیوی کے نام پر مشاعرے اور پھر ان مشاعروں میں ان مقدس رشتوں کو اپنی واہ واہ کے حصول کا ذریعہ بنا کر اس قدر پامال کیا جاتا ہے کہ گویا یہ فقط ایک افسانوی کردار ہی ہے حقیقتِ حال بھی کوئی مختلف نہیں کہ ان چینلز کے ڈرامے دیکھ کر عصرِ حاضر کے میاں بیوی تقدس نام سے واقف نہیں رہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ٹی وی چینل اس قدر فکری یتیم ہیں کہ خبر نامہ کے آخر میں جب تک بھارتی سورماؤں اور اپنے ہندو آقاؤں کی بمبئی نگری کی مصنوعی چِٹی رنڈیوں کو نیم عریاں حالت میں نہ دکھا لیں ان کی شیطانی روحیں تسکیں نہیں پاتیں۔ اذان نشر کرنے کے لئیے دو منٹ کا وقت میسر نہیں آتا مگر اپنے ہندو آقا کے ساتھ پرانے خاندانی رشتہ کو نبھانے خاطر بھارتی فلموں کی تشہیر میں پورا بلیٹن صرف کر دیں گے۔ بد بختی یہ ہے کہ آج اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بچوں کو مسجد حرام، مسجد نبوی، مسجد قبا اور بیت المقدس کی پہچان تو نہیں ہے تاہم بندے ماترم، امن کی آشا، بمبئی کی بدبودار گلیوں سے کسی خطا کے نتیجے میں پیدا ہونے والی رقاصاؤں اور گویوں کی آوازوں اور شکلوں سے خوب خوب واقفیت ہے۔

کوئی شک نہیں کہ یہ فتنہ رکنے والا نہیں کہ قیامت کو بھی وجود پانا ہے، مگر پاکستانی مسلمانو یاد رکھو، جس بے حیائی کو اپنے گھروں میں جگہ دے رہے ہو یہ وبال جان بن جائے گی، کل کو ہم نہ رہیں گے اور یہ اولاد اس میڈیا سے اس قدر متاثر ہو جائے گی کہ فاتحہ و جنازہ تک بھول جائے گی، یہی بھارتی ہندؤں کا اصل مقصد ہے۔ رمضان ہمارا ہے، عید ہماری ہے اس میں بھارتی فلموں کی تقلید کیوں؟ کیا کبھی کسی ہندو نے دیوالی کے موقع پر قرآن پڑھا؟ کیا کبھی ہندو بنئیے نے اپنی کسی رسم میں اسلام کو رواج دیا؟ یا پھر کبھی کرسمس پر کسی عیسائی کو اسلامی لباس اور وضع قطع اختیار کرتے پایا؟

اسلام کو اپنے گھر اور دل میں جگہ دیجئیے ایسا نہ ہو کہ آج جس اسلام کو ہم نے ٹی وی اور میڈیا تک محدود کر دیا ہے کل یہ اسلام میدانِ حشر میں ہمیں پہچاننے سے انکار کر دے۔ اور اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو وہ بہت ذلت اور رسوائی کا لمحہ ہو گا اور اس وقت پچھتانے سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔
اپنی ملت پہ قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی

Email: [email protected]
Facebook page: https://www.facebook.com/iftikharulhassan.rizvi
Iftikhar Ul Hassan Rizvi
About the Author: Iftikhar Ul Hassan Rizvi Read More Articles by Iftikhar Ul Hassan Rizvi: 62 Articles with 236635 views Writer and Spiritual Guide Iftikhar Ul Hassan Rizvi (افتخار الحسن الرضوی), He is an entrepreneurship consultant and Teacher by profession. Shaykh Ift.. View More