عید آئی اور گزر گئی مسلمانوں کا مذہبی تہوار، وہ دن جب روزہ دار کو اﷲ رب
العزت کی طرف سے انعام سے نوازا جاتا ہے۔ خوشیوں بھرا دن۔ لیکن دل تو رورہا
ہے نہ جانے کیا غم ہے کہ خوشیوں کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔
چاند رات کو اپنی بیٹیوں کے ہاتھوں میں چوڑیاں پہناتے ہوئے مجھے کراچی میں
ہونے والی بارشوں میں اپنی جان سے ہاتھ دھونے والے مظفر کی بیوی یاسمین کی
صورت نظر آئی۔ کتنا معصوم چہرہ تھا اس پیاری سی لڑکی کا۔ وہ بھی تو اپنے
ہاتھوں کو سجانے کے لیے چوڑیاں لینے نکلی تھی۔ اس نے بھی ویسے ہی اپنے ڈیڑھ
سال کے بچے کے لیے نماز کی چھوٹی سی ٹوپی خریدی ہوگی، جیسی میں نے اپنے
بیٹے کے لیے خریدنا چاہی۔ وہ بھی اپنے شوہر سے کپڑوں کی پسند نہ پسند پر
ایسے ہی ناراض ہوتی ہوگی جیسے میں اپنے شریک حیات سے ہوتی ہوں۔ لیکن آج نہ
یاسمین ہے نہ اس کا جیون ساتھی مظفر نہ ان کا پیارا سا بیٹا۔ سب اس دھوکے
سے بھری دنیا کو چھوڑ کر چلے گئے۔
عید ہے لیکن یہ چہرہ یاسیت کی داستانیں سُنا رہا ہے۔ خوشی مرگئی۔
موت برحق ہے، مگر ایسی موت جو قتل ہے معصوم جانوں کا!
میرے بچوں نے عید کے دن غبارے خریدے۔ رنگ برنگے بڑے بڑے غبارے۔ وہ اچھلتے
کودتے ’’ماما ماما‘‘ کہتے میرے سینے سے آلگے، مجھے عید کی مبارک کہنے۔ میری
آنکھوں میں آنسو تھے۔ ان ماؤں کا کیا حال ہوگا جن کی نگاہیں اپنے بچوں کو
تلاش کرتی ہوں گی، جو بارش میں آنے والے سیلابی ریلے کی نذر ہوگئے، اور ہم
بے حسی سے تماشا دیکھتے رہ گئے۔
میرے بیٹے نے اپنے ننھے ننھے پیروں میں نئی چپل پہنی تو مجھے لیاری میں
ہونے والے بم دھماکے کے بعد اِدھر اُدھر بکھری معصوم بچوں کی چھوٹی چھوٹی
جوتیاں نظر آئیں۔ ان معصوموں کے خون کے نشان دل کو خون رُلا گئے۔ یہ بچے
اپنی ماؤں سے ضد کرکے رات کو ہونے والا فٹبال میچ دیکھنے گئے تھے، اور پھر
گھر کو واپس نہ آسکے۔ کیا قیامت ہوگی اس عید پر ان کے گھروں میں۔ کوئی بچہ
اپنے باپ سے محروم ہوگیا اور کوئی باپ اپنے پیارے بیٹے سے، وہی بیٹا جو کچھ
دیر پہلے لیاری کے لوگوں کا من پسند کھیل فٹبال دیکھنے گیا تھا۔ کیسا زندگی
سے بھرپور منظر تھا۔ بچے بگل بجارہے تھے، تالیاں پیٹ رہے تھے کہ ایک دھماکا
ہوا اور سب ختم۔
موت ! برحق ہے، لیکن، یہ قتل ہے معصوم جانوں کا۔
ایک لمحے کے لیے سوچیئے! ہم اپنے خاندان کے ساتھ عید کی تیاری کرنے نکلیں
اور پھر کبھی گھر کو لوٹ کر نہ آئیں۔
ایک لمحے کے لیے سوچیے، وہ بچے جو بارش کی ٹھنڈی بوندوں کو اپنے اندر جذب
کرتے مسکراتی آنکھوں کے ساتھ باہر نکلے تھے اور پھر ابدی نیند سوگئے، وہ
ہمارے ہی گھر کے بچے ہوتے۔
ایک لمحے کے لیے سوچیے، کہ وہ 43لوگ جو سیلابی ریلے کی نذر ہوئے، ان میں سے
کسی کی میت ہمارے گھروں سے اٹھتی۔
ایک لمحے کے لیے سوچیے، ہم اس وقت لیاری کے اسٹیڈیم میں زندگی کی رونقوں سے
محضوظ ہورہے تھے کہ پَل بھر میں ہمارے جسم کے اعضاء بکھرگئے۔
میرا قلم لرز اُٹھا ہے، ہاتھوں میں کپکپاہٹ ہے، خداوندِکریم ہم سب کو
ناگہانی آفات سے بچائے۔
لیکن یہ جتنے لوگ لقمۂ اجل بنے، خواہ بارش کا کا نشانہ بنے ہوں یا دھماکے
نے ان کی موت لکھی ہو، ان سب کو قتل کیا گیا، میں اسے قتل کہتی ہوں۔
جن کا کام عوام کو تحفظ فراہم کرنا ہے، چاہے وہ قدرتی آفات سے ہو یا دست
قاتل سے، وہ سب ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے لیے تُلے بیٹھے ہیں۔ کوئی
کہتا ہے کہ کراچی کا ڈیم توڑا گیا، کسی کا الزام ہے کہ کراچی کو جان بوجھ
کر ڈبویا گیا۔ کسی نے لیاری کے دھماکے کو گینگ وار کی کڑی کہا، اور کسی نے
نیا رنگ دینے کی کوشش کی۔
میں نہیں سمجھنا چاہتی کہ کس نے کیا کیا اور کیوں کیا، میرے لبوں سے ایک آہ
نکلتی ہے کہ اے خدا! جس کسی نے بھی معصوم جانوں کے زیاں کی فکر کیے بغیر
اپنی سیاست چمکائی ہے، تو اسے نیست ونابود کردے۔ ان لوگوں کو غارت کردے جو
ہماری بستیوں میں ہونے والی تباہ کاریوں کے ذمے دار ہیں۔ وہ لوگ جو گذشتہ
سات سال سے لیاری کے عوام کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔
یہاں تو حال یہ ہے کہ ثواب کمانے کے لیے سرکاری خرچ پر عمرے کیے جاتے ہیں۔
ملک سیلاب میں ڈوب رہا ہے، لیکن غیرملکی دوروں اور سیرسپاٹے کی مدت مزید
بڑھادی جاتی ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ فوری وطن واپس آکر عوام کے دکھوں کا کچھ مداوا کیا
جاتا، مگر عوام کے مصائب کی پرواہ کسے ہے۔
کاش یوں ہوتا کہ قومی اسمبلی میں بیٹھے اراکین اور چاروں صوبائی اسمبلیوں
کے اراکین کا جو جم غفیر پاکستان کے مخصوص نظامِ حکومت کی وجہ سے یہاں کے
عوام کو ـورثے میں ملا ہے، ان اراکین کی فوج ہر علاقے، ہر شہر، ہر گلی ہر
محلے جاتی اور بارش سے نمٹنے کے لیے کیے جانے والے انتظامات کا خود جائزہ
لیتی۔ جو غلطیاں ہوچکی ہیں ان پر رونے کے بجائے نئے سرے سے مؤثر اقدامات
کیے جاتے۔ لیکن یہ منتخب ارکان تو لوگوں کے کسی مصیبت کا شکار ہونے کے بعد
بھی انہیں نہیں پوچھتے تو ان کے بچاؤ کے لیے پیش بندی کیا کرتے۔
قومی اسمبلی کے اراکین کو قومی نمائندوں کے طور پر اپنا کردار ادا کرنا
چاہیے، اسی طرح صوبائی اسمبلیوں کے رکن بھی قوم کی نمائندگی کرتے ہیں، مگر
ہمارے ہاں تو حال یہ ہے کہ ایک صوبہ دوسرے صوبے میں جھانکے گا بھی نہیں۔
خیبرپختون خوا میں لوگ ڈرون حملوں اور دہشت گردی سے مارے جائیں، بلوچستان
کے باسیوں پر قیامت ٹوٹتی رہے، پنجاب کے رہنے والے سیلاب کی نذر ہوتے رہیں
یا سندھ کے عوام قدرتی آفات اور ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنیں، ایک صوبے کے
رہنے والوں کے مصائب دوسرے صوبے کے منتخب نمایندوں کا دل نہیں دکھاتے، ورنہ
ایسا کیوں ہے کہ ایک صوبے کے نمائندے کسی دوسرے صوبے کے متاثرین سے ہم دردی
اور ان کی مدد کرنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ لگتا تو یوں ہے کہ سب ملی بھگت سے
چُپ سادھے بیٹھے ہیں، کیوں کہ دوسرے صوبے کے مسئلے سے کسی کو کیا لینا دینا!
اور تو اور یہاں تو حکومتِ سندھ بھی اپنے ہی شہرکراچی کے مسائل پر توجہ
دیتے ہوئے ہزار بار سوچتی ہے اور آخر کے ہر معاملے کو کراچی کی اندرونی
سیاست کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
کیا کسی کو نہیں پتا تھا کہ مون سون کی بارشیں ہونی ہیں؟ ٹوٹ کر کتنی ہی
زندگیاں تباہ کردینے والے بند کی حالت پر مون سون کی بارشوں سے پہلے ایک
نظر ڈالنا کسی ادارے نے کیوں گوارا نہ کیا۔
اسی طرح کیسے ممکن ہے کہ لیاری میں خوں ریزی اور تباہ کاری کے خدشات سے
ایجنسیاں آگاہ نہ ہوں، جب کہ لیاری کا بچہ بچہ جانتا تھا کہ عید پر اس
علاقے میں خون کی ہولی کھیلی جائے گی۔ تو کہاں تھے ادارے؟ کیوں نہ روکا گیا
کسی کو؟ اور مستقبل میں ہونے والے ایسے واقعات کا ذمے دار آخر کون ہوگا؟
بات سچ ہے، موت برحق ہے، لیکن بے رحمی سے قتل کیے جانے والے معصوم لوگوں کا
خون ہمارے نام نہاد راہ نماؤں کی گردن پر ہے۔ |