۴ اگست کی خوشگوار صبح ایک دفعہ پھر آگئی ،ماسی نے بہت
کہا کہ بی بی جی آج کے دن چھٹی دے دیں ,بارش کی وجہ سے چھت ٹپک رہی ہے اس
کو ٹھیک کرنا ہے ،مگر بی بی ماننے اور کچھ سننے کو تیار نہ تھی ...بھئی
ابھی تو عید پر تین چھٹیاں دیں ہیں۔اب مزید نہیں ملیں گی .....ماسی یہ سن
کر خاموش ہوگئی .... وہ اپنے بیٹے کرمو کے ساتھ جھنڈیاں بھی لگانا چاہتی
تھی ۔اس نے ضد کر کے پوری 50 جھنڈیاں خریدی تھیں ،ابھی لئی بنا کے دے کے
آئی تھی ،...کرمو جوش و خروش کے ساتھ پورے گھر میں دھاگہ باندھ کے جھنڈیوں
کو ایک ترتیب سے لگا رہا تھا,اس نے اپنے دوستوں کو بھی بُلا رکھا تھا,گھر
میں خوب رونق تھی اور ہلاگلا تھا، تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد کسی ایک بچے کی
آواز آتی ،"اوئے ٹھیک سے لگا جھنڈیاں....فاصلہ دیکھ کم زیادہ نہ ہوجائے....
دیکھیں یار کوئی جھنڈی نیچے نہ گرے....۔اماں کہتی ہیں ہمیں ان کا ادب بھی
کرنا ہے،...چل جلدی کام ختم کر،...ہاں ہاں ٹھیک ہے بس تھوڑی رہ گئیں ہیں.....اماں
دیکھ کتنی اچھی لگ رہی ہیں نا....کرموفخریہ پوچھ رہا تھا..... ہاں بیٹا بہت
اچھی لگ رہی ہیں....وہ مسکرائی تو بچے بھی کھل اٹھے اورفخریہ انداز میں صحن
میں لگی جھنڈیوں کو دیکھنے لگے .....اچھا بیٹا اب میں چلتی ہوں بی بی
انتظار کر رہی ہو گی....نا ماں آج نہ جا ...،ہماری مدد کردیں میں اوپر چھت
پر جاتا ہوں ..آپ مجھے جھنڈیاں پکڑانا ،...نہیں بیٹا، اب اور چھٹی نہیں ملی
گی ،تنخواہ سے پیسے کٹ جائیں گے۔۔۔ اچھا ماں ٹھیک ہے جلدی آنا پھر....بی بی
کے گھر پہنچ کے جو اس نے دیکھا تو یہ بڑا سا پاکستانی جھنڈا لہرا رہا تھا
....،اس نے احتراما اس کی طرف دیکھا اور نظریں جھکا لیں .....کاش !میں اپنے
بیٹے کو ایک جھنڈا لے کے دے سکتی. ،...آخر اس نے ارادہ کیا کہ میں واپسی پر
بی بی جی سے کچھ ادھار لے لوں گی اور اپنے بیٹے کے لئے جھنڈا لے کے جاؤں گی....
میرا بیٹا کتنا خوش ہو گا .....،اس کی یہ خوشی ہی تو میرا سرمایہ ہے ،..
..جب سے گھر والا پچھلے آنے والے سیلاب کی نظر ہوا اب تو اس کا بیٹا ہی اس
کی امیدوں اور خوشیوں کا مرکز بن گیا تھا......۔ماسی نے ایک دفعہ پھر جاتے
ہی جب چھٹی اور کچھ پیسے ادھار لینے کی بات کی, تو بی بی نے چھٹی تو نہ دی
البتہ کچھ رقم ادھار دینے کو تیار ہوگئیں ۔....اس نے یہ بھی غنیمت جانا اور
کام میں جت گئی۔..اس کا دھیان اب بھی بیٹے کی طرف ہی لگا ہوا تھا.... ،جھلا
نہ ہوئے تے..... ابھی تک جھنڈیاں ہی ٹھیک کر رہا ہو گا.....،اپنے دوستوں کو
بُلا بُلا کر دیکھا رہا ہوگا ...شوخا......۔ماسی کے لبوں پر اپنے بیٹے کے
لئے پیار بھری مسکراہٹ رقصاں ہو گئی.....
۔ماسی نے گھر کی نیچلی منزل خوب اچھی طرح صاف کی ،اب وہ اوپر جانے کے لئے
سیڑھیاں چڑھنے لگی ،اور سوچنے لگی بس اب تھوڑا ہی کام باقی رہ گیا ہے ،یہ
بھی ختم کر کے بازار جاؤں گی۔...پھر سوچنے لگی میں اکیلے ہی گھر کو
سنبھالتی ہوں،کام شروع کروں تو مکمل بھی ہوجاتا ہے ،قائداعظم نے بھی تو بس
کام کام کام کرنے کا کہاتھا،یہ بات اس نے بی بی کی بیٹی کو تقریر کرتے ہوئے
سنی تھی ،اس کی بیٹی نے اسے کہا تھا دیکھو ماسی! قائد اعظم نے بھی کہا ہے
کام کرو۔۔آج وہ سوچ رہی تھی کہ میں تو کام کر ہی رہی ہوں یہ ہمارے وزیر
اعظم اور صدر کیوں کام نہیں کرتے .....؟...اس طرح جس طرح میں کرتی ہوں
،.....جھاڑ پونجھ ،صفائی۔صحن دھونا کپڑے دھونے ،برتن کتنے کام ہوتے ہیں ایک
میری اکیلی جان ۔۔شام تک سب کام ختم کر کے جاتی ہوں ۔۔۔تھک کہ سوتی ہوں تو
مزے کی نیند آتی ہے۔۔۔ ایمانداری سے کام کرتی ہوں۔اگر اسی طرح ہمارے صدر
اور وزیر کام کریں تو پاکستان کتنا صاف ستھرا ہوجائے،۔۔۔۔اور پھر انہوں نے
کون سا خود کام کرنا ہے حکم ہی دینا ہے نہ چلو جی ....سب کام لگو
،.....کوئی مجھے فارغ نہ نظر آئے......۔پاکستان بھی تو گھر کی طرح ہے......
جس کے چار کمرے ہیں،....اگر سب مل کر کام کریں, تو کتنا سوہنا ہوجائے، کام
بھی جلدی ختم ہو جائے....، کوئی ریلوے کو چمکا رہا ہو..... ،کوئی واپڈا کی
صفائی کر رہا ہو ،....ایک دن بھی بجلی کا بٹن بند نہ ہو،.....کوئی سڑکیں
صاف کرے،.... توکوئی ہوائی جہاز کو سلیقے سے رکھے ،کوئی ڈسٹینگ
کرے،....سارے کا سارا گند دھو ڈالے،....سب کو برابر کا پیار دے اور ساتھ ہی
جو آپس میں لڑے اس کو ڈانٹ ڈبٹ کرے .....جو زیادہ بدتمیزی کرے اس کو اسی
وقت سزا دے ....،ان کے کان پکڑوائے۔.... میں اپنے بچوں کو کیسے سیدھا کرتی
ہوں.... دو لگاتی ہوں تو تیر کی طرح سیدھے ہو جاتے ہیں...مجال ہے کہ دوبارہ
آپس میں لڑیں۔....۔ اور یہ جو آجکل انڈیا آنکھیں دکھا رہا ہے .....اس کو
کہیں ....او بھائی جا ....اپنا کم کر .....اپنے گھر جا ...خبردار.... جو
ہماری دیوار پھیلانگی ....ٹانگے توڑ کے واپس بھیجے گے ،....چل جا شاباش....
پھر میں دیکھتی ہوں.... کسے نہیں ٹھیک ہوتا میرا سوہناپاکستان، .....تنخواہ
بھی لیتے ہیں اور کام بھی نہیں کرتے ....بلے بھئی بلے...... اے کی گل
ہوئی..؟؟... وزیراعظم اور صدرادھر ادھر گھومنا بند کریں .....اپنے گھر
بیٹھیں آرام سے روز کا کام روز کریں ......ماسی کو لگا کہ جیسے یہ کام بہت
آسان ہے ....وہ سیاسی داؤ پیچ،سے واقف نہیں تھی.....،اس کو غالبا لسانی
فرقہ وارانہ سیاسی صوبائی نفرتوں سے بھی آگاہی نہ تھی ،......اس کواتنا
ضرور پتہ تھا کہ انسان مر رہے ہیں،....پاکستان کے ساتھ اچھا نہیں ہو
رہا،.....آپس میں ہی لڑ رہے ہیں۔آخر کیوں ،؟
ماسی نے کام ختم کیا تو سیدھی بازار گئی،.... اس نے پاکستان کا جھنڈا خریدا
....اس دوران بارش تیز ہو چکی تھی ....شاپر میں رکھے چھنڈے کو اس نے بارش
سے بچانے کے لئے چادر کے اندر کر لیا ...میرا کرمو بڑا خوش ہو گا ....اس کے
سائیز کا ہی ہے یہ جھنڈا .....جوں جوں گھر قریب آرہا تھا اس کے دل کی دھڑکن
بڑھتی جا رہی تھی.... ....گھر کی طرف جانے والا موڑ جونہی مڑی گھر میں رش
سا نظر آیا . یا اﷲ خیر.....یہ اتنے لوگ کیوں جمع ہیں... اس کا دل زور سے
دھڑکا.....یہ دیکھ کے اس کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی کہ رش اس کے گھر کے
سامنے ہی تھا.... وہ تیزی سے اندر گئی...... تو اس کے پاؤں تلے سے گویا
زمین نکل گئی .........سامنے اس کے بیٹے کی لاش پڑی تھی.....کمرے کی چھت
بھی گر چکی تھی ،۔.....ایک عورت اس کے قریب آئی اور گلے سے لگا کر بولی بہت
انتظار کیا ......کہتا تھا..ماں آئے گی تو جھنڈیاں لگاؤں گا۔.....سب کی
آنکھوں میں آنسو تھے.....سسکیاں تھیں ۔....سکینہ کے ہواس گم ہو چکے
تھے.....آنسو گویا خشک ہوگئے تھے....اچانک وہ چلانے لگی ۔۔۔کوئی نہ
روئے......خبردار کوئی نہ ماتم کرے....میرا بیٹا شیہد ہے... یہ مر ا
نہیں....شہید مرتے نہیں ہیں...یہ کہتے ہوئے وہ آہستہ آہستہ اپنے بیٹے کی
میت کے قریب آئی،...اس نے دیکھا کہ ایک جھنڈی ابھی بھی اس کے ہاتھ میں دبی
ہوئی تھی.... اس نے بیٹے کا ماتھا چوما...شاپر سے قومی پرچم نکالا
...اور... اپنے بیٹے کی لاش کو قومی پرچم میں لپیٹ دیا۔ |