موجودہ دور میں بچوں کی نگہداشت ایک اہم مسئلہ بنتا جارہا
ہے۔ بہتر معاشی حالت کی تلاش میں والدین کا گھر سے باہر رہنا ضروری ہوگیا
ہے۔ ماؤں کے پاس بچوں کی نگہداشت کے لئے وقت کم ہے پھر بھی جو وقت ملتا ہے
اس میں بچوں کی صحت وتندرستی اور اس کی خصوصی نگہداشت کی ضرورت ہے چھوٹے
بچوں کی ایک سال کی عمر تک دیکھ بھال کے لئے کچھ ضروری ہدایتوں پر عمل
ضروری ہے جس سے بچے کو بھی آرام ملے گا اور اس کی وجہ سے والدین کو بھی
پریشانیوں کا سامنا نہیں کرنا ہوگا۔دیکھنے میں آتا ہے کہ نئے نوجوان جوڑوں
کو جو کسی وجہ سے گھر کے بڑے بزرگوں کے سائے سے دور تنہائی کی زندگی
گزاررہے ہیں ان کے سامنے نوزائیدہ بچوں کی پرورش ایک بہت بڑا مسئلہ بن کر
کھڑا ہوجاتا ہے۔ اس کے لئے عوامل بھی موجود ہیں۔ انسان کا بچہ دیگر جاندار
کے بچوں سے مختلف ہے اس میں سیکھنے کا عمل رفتہ رفتہ ہوتا ہے اور بہت دیر
میں یہ اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے پر قادر ہوتا ہے۔ خواہشوں کے اظہار اور
ان کے لئے زبان کا استعمال ماحول۔ گھر کے افراد۔ ہم عمر بھائی بہنوں اور
بعد میں دوست واحباب کے ساتھ سیکھتا ہے۔ ان حالات سے پہلے وہ اپنی ضرورتوں
کے اظہار کا محتاج ہوتا ہے اور اس کی جسمانی ضرورتوں۔ فطری ضرورتوں، اور
تکلیفوں کے سمجھنے کے لئے حاضردماغی خاص دھیان اور نگہداشت کی ضرورت ہوتی
ہے۔پیدائش کے بعد نوزائیدہ بچے کی جسمانی صلاحیت دنیا کے سرد وگرم کو
جھیلنے کے لائق بالکل نہیں ہوتی۔ اس کا جسم ابتدائی دنوں میں سردی اور گرمی
دونوں سے ہی فورا متاثر ہوتا ہے۔ اسے ماں کے آغوش کی گرمی مستقل چاہئے۔ ہاں
گرمی کے دنوں میں ہلکے گرم پانی سے غسل دے کر فورا ہی تولیہ سے بچے کے جسم
کو اچھی طرح رگڑ کر خشک کرکے اور اونی کپڑوں سے ڈھک کر رکھنا چاہئے۔ یہ عمل
کمرہ کے اندر کیا جائے تو بہتر ہے۔ نوزائیدہ بچے کو ہر ایک گھنٹہ پر مد ر
فیڈنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے بعد بچہ سوتا رہتا ہے ابتدائی دنوں میں
بچہ20 سے 22گھنٹہ سوتا ہے۔ اس دوران بچے کو ہر ایک2گھنٹہ پر غذا کی ضرورت
ہوتی ہے مدر فیڈنگ سب سے بہتر طریقہ ہے اور تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوگئی
ہے کہ بچوں کی نشو ونما میں ماں کا دودھ سب سے بہتر دودھ ہوتا ہے۔ بچہ کو
دودھ پلانے سے ماں کو رحم کا کینسر ہونے کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔ اور عورتوں
کو رحم کی دیگر بیماریوں سے بھی اس سے نجات ملتی ہے۔ بچے کو گود میں لے کر
سرکو اونچا کرکے دودھ پلانا چاہئے۔ لیٹ کر دودھ پلانے سے بچوں کے کان بہنے
کی بیماری ہوجاتی ہے۔ د ن میں چار بار اس کے جسم پر زیتون یا خالص سرسوں کا
تیل نرم ہاتھوں سے مالش کرنی چاہئے غذا دینے اور تیل مالش کا کام آرام کے
وقفے یہ ایک وقت مقرر کرکے کرنے سے بچے کو اور ماں کو دونوں کو کافی راحت
اور آرام ملتا ہے۔بچے کو کھلا کبھی بھی نہ سلائیں۔ تکیہ گھر میں اس طرح
بنائیں کہ اس کے درمیان کا حصہ کم گہرا ہواور تکیہ کی دو دیوار یں اونچی
ہوں بچے کو کچھ دیر چت پھر کروٹ سلائیں ورنہ تکیہ کے استعمال سے سر ایک
جانب سے چپٹا ہوجائے گا۔ بچے کے رونے کی آواز اور کیفیت کو سمجھنے کی کوشش
کیجئے کسی تکلیف کی وجہ سے بچہ اگر روتا ہے تو ہاتھ اس تکلیف کے مقام پر
بار بار لے جاتا ہے۔ بچے کے پیٹ میں گیس بھر کر تکلیف کا سبب بن سکتی ہے۔
لیٹرن کا نہیں ہونا، پیشاب کا نہیں ہونا، کان میں تکلیف یا چیونٹی او رکالے
چیونٹا کے کاٹنے جیسے اسباب بھی تکلیف کا سبب بن سکتے ہیں۔ بچے کو لیٹرن
کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے۔ بچہ پیشاب یا پاخانہ کرنے کے بعد گیلے بستر پر
رہنا نہیں چاہتا اس کے رونے کا سبب بستر کا گیلا ہونا بھی ہوسکتا ہے۔ بچے
کے اوڑھنے بچھانے منہ صاف کرنے کے کپڑوں کا صابن سے روزانہ دھلنا ضروری
ہے۔بچوں کی انگلیوں کے درمیان گلے اور بازو میں اکثر ماؤں کے لمبے بال پھنس
جاتے ہیں ان سے جسم کٹ سکتا ہے اور زخمی ہوسکتا ہے بچے کو منہ ڈھک کر نہ
سلائیں اگر ایسا ضروری ہو تو باریک کپڑے کا ٹکڑا یا چھوٹی مچھر دانی کا
استعمال کریں۔ نیپی کو صابن سے صاف دھویا کریں۔ موسم کے اعتبار سے بچوں کے
کپڑے ڈھیلے اور نرم استعمال کریں جس سے بچہ آرام محسوس کرے ربڑ کی بیلٹ اور
ٹائٹ پاجامہ ودیگر لباس کا استعمال ناکریں ربڑکمر پر خون کے دوران کو روک
دیتا ہے اس سے تکلیف کے علاوہ بچے کو پولیو اور سوکھا کا مرض ہوسکتا
ہے۔ہلکے ازار بند یا بٹن والے کپڑوں کا استعمال کریں۔ بچہ جب چھ ماہ اور
اوپر کا ہوجائے تو خصوصی خیال رکھیں۔ ہلکی غذا دینا شروع کردیں اس میں دال
کا پانی، سبزی کا ابلا ہوا سوپ، کھچڑی اور نرم چاول کھلانے کی عادت ڈالیں۔
سات ماہ کے بعد عام طور پر بچوں کو دانت نکلنے کا عمل شروع ہوجاتا ہے اس
وقت بچوں کو قے اور دست کی بیماریاں عام طور پر ہوتی ہیں۔ بچوں کو ڈائریا
سے اور دست کی بیماری سے بچانا ضروری ہے اس کے لئے دانت نکلنے دینے میں
معاون دواؤں کا استعمال مستقل ایک سال تک کیا جانا چاہئے ورنہ بچوں کو
سوکھا کی بیماری ہوسکتی ہے یا ڈائریا سے جان جانے کا خطرہ پیدا ہوسکتا
ہے۔بچہ جب چلنے کے لائق ہوجائے تو اس کے آس پاس کسی ایسی چیز کو نا رہنے
دیں جس سے بچے کو نقصان ہو۔ مثلا جلتا ہوا لیمپ۔ گرم پانی کا بوتل، قینچی،
چھری، چاقویا پتھروں اور اینٹ کے ٹکڑے۔ اس عمر میں بچے تمام اچھی بری چیز
کو منہ میں ڈال لیتے ہیں اس لئے اس بات کا خصوصی خیال رکھیں کہ بچہ منہ میں
کسی ایسی چیزکو نا رکھے جو اس کے لئے نقصان دہ ہو۔ جسم میں کیلشیم کی کمی
کی وجہ سے بچے مٹی کھانے لگتے ہیں یا دیگر عادت ڈال لیتے ہیں۔ چھوٹے بچوں
کو پرم پر اگر باہر لے جائیں تو دونوں بازو میں تکیہ لگا دیں تاکہ وہ جھٹکہ
سے دائیں بائیں جھکولے نہ کھائے ایسے میں گردن میں موچ آسکتی ہے۔ پرم کو فٹ
پاتھ پر۔ لان پر تنہا نا چھوڑیں۔ مضبوط نا باندھیں پھندا لگ سکتا ہے۔ بچے
کو باتھنگ ٹب اور کچن میں یا چولھا کے پاس اکیلا چھوڑنا خطرناک ہوسکتا ہے۔
بچہ جب اپنے پیروں پر کھڑا ہونے لگے تو چیزوں کو اس کے ہاتھ کے پہنچ سے دور
رکھیں۔ |