مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز کہتے ہیں کہ عالمی امن میں
اقوام متحدہ کے امن مشن کا اہم کردار ہے۔ اقوام متحدہ کا امن کے قیام کے
لئے کردار انتہائی اہم ہے۔ قائداعظم کے وڑن کے مطابق عالمی امن کے لئے
کردار ادا کرتے رہیں گے۔ دہشت گردی عالمی امن کے لئے خطرہ ہے اس کا مکمل
خاتمہ کر کے دم لیں گے۔ علاوہ ازیں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون
نے وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز سے ملاقات کی جس میں
پاکستان بھارت لائن آف کنٹرول پر کشیدگی اور دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا
گیا۔ اس ملاقات میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی منصوبوں، امن فوج میں پاکستان
کے کردار پر بھی بات چیت کی گئی۔بعدازاں بان کی مون، ان کی اہلیہ اور
یورپین حکام نے پارلیمنٹ ہاوس کا دورہ کیا اور سپیکر قومی اسمبلی سردار
ایاز صادق اور اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ سے الگ الگ ملاقات کی جس میں
باہمی تعلقات، قومی سلامتی کے امور، خطے اور عالمی صورتحال پر تبادلہ خیال
کیا گیا۔ سردار ایاز صادق نے بان کی مون کے اعزاز میں عشائیہ بھی دیا۔
سردار ایاز صادق نے اس موقع پر کہا کہ پاکستان عالمی امن کی خاطر قربانیاں
دے رہا ہے، بان کی مون نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی کردار
کو سراہتے ہیں، طالبان سب سے زیادہ خواتین کی تعلیم سے خوفزدہ ہیں جبکہ
پاکستان تعلیم پر صرف دو فیصد خرچ کر رہا ہے، امید ہے وزیراعظم نوازشریف
اور حکومت تعلیم پر زیادہ وسائل خرچ کرے گی۔بان کی مون نے اہلیہ اور اقوام
متحدہ کے اعلیٰ حکام کے ساتھ ٹیکسلا کا دورہ کیا۔ ٹیکسلا کے عجائب گھر میں
نصف گھنٹہ سے زائد وقت گزارا، انہیں بدھ مت تہذیب کے رکھے گئے نوادرات کے
بارے میں بریفنگ دی۔ دوسری جانب امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان میری ہارف
کا کہنا ہے کہ ایل او سی پر کشیدگی سے تشویش ہے۔ پاکستان اور بھارت ملکر
مسائل حل کرنے کیلئے اقدامات کر سکتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت میں امریکی
سفیروں نے پاک بھارت تعلقات پربات کی ہے۔ امریکی سفارتکار دونوں حکومتوں کے
درمیان مذاکرات کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔ وہ وزیراعظم نوازشریف کی جانب
سے بھارت کو اقوام متحدہ میں تسلیم شدہ تنازعات پر مذاکرات کی دعوت اور
اسکے بعد دونوں ملکوں کی سرحدوں پر ہونے والی کشیدگی کے حوالے سے سوالات کا
جواب دے رہی تھیں۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق منموہن سنگھ حکومت کیلئے پڑوسیوں کی اہمیت کم
ہوگئی ہے۔اب بھارت یورپ اور امریکہ کو خوش کرنے میں مصروف ہے۔بین الاقوامی
کھلاڑی بننے میں کوئی برائی نہیں ،لیکن اس کے لئے ضروری نہیں کہ پڑوسی
ممالک کو نظرانداز کیا جائے ۔آج بھارت نے پاکستان ،بنگلہ دیش اورنیپال کے
ساتھ سری لنکا کو نظرانداز کیا،تواس انجام سامنے ہے۔چین نے تمام پڑوسیوں
پرجال ڈال دیا۔بھارت کے اردگردگھیرابندی کردی،اب بھارت کوآس پاس دشمن
نظرآرہے ہیں۔ایسا امریکہ کے ساتھ بھی ہواہے۔جس نے افغانستان سے لے کر عراق
تک فتح کے پرچم تو لہرادئیے،مگرلاطینی امریکہ میں کمیونسٹ تحریک نے امریکہ
کا دامن سرخ کردیاہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ ممبئی حملے کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان سفارتی
تعلقات کشیدگی کی انتہا پر پہنچ گئے تھے۔کوئی بھی لیڈرپاکستان کی جانب
دیکھنے کو تیار نہیں تھا۔جولائی 2009میں جب مصر کے شرم الشیخ میں من موہن
سنگھ اور وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کی ملاقات ہوئی،تومشترکہ بیان میں
بلوچستان کے ذکر پرزبردست تنازعہ پیداہواتھا،جس کو وزیراعظم کے دستے کی بہت
بڑی لاپروائی ماناجارہاتھا،کیونکہ پاکستان نے مشترکہ بیان میں بلوچستان کا
ذکرکے سفارتی چیپ لگایاتھا۔اس کے بعد اپریل2010میں دونوں وزراء اعظم کی
ملاقات بھوٹان کی راجدھانی تھمپومیں ہوئی تھی،جب سارک کا نفرنس کا
انعقادہواتھا۔اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سفارتی بات چیت کا
آغازہواتھا۔2011میں کرکٹ ڈپلومیسی کا ظہورہوا،جب منموہن سنگھ کی دعوت پر
یوسف رضاگیلانی ورلدکپ سیمی فائنل میں ہند۔پاک ٹکراؤ کادیدارکرنے کیلئے
موہالی آئے ۔مگریہ ملاقات بس فوگراف تک محدودتھی،نومبر2011میں من موہن سنگھ
اور یوسف رضاگیلانی کی مالدیپ میں منعقد سارک چوٹی کا نفرنس میں ملاقات
ہوئی تھی۔بھارت نے دہشت گردی کے فروغ پرتشویش ظاہر کی تھی،مگر جب منموہن
سنگھ نے پاکستانی ہم منصب کو ’’انسان برائے امن‘‘قراردیا،توہندوستان میں
بہت برپاہواتھا،کیونکہ عوام ممبئی حملے کو نہیں بھول سکے تھے۔مگر ہرمرتبہ
یہ ملاقاتیں غیرجانبدارمقام پرہی ہوئی ہیں۔27مارچ 2012کودونوں وزراء اعظم
کی سنیول میں ملاقات ہوئی تھی۔
سوال یہ ہے کہ من موہن سنگھ پاکستان کا رخ کرنے میں کیوں ڈرتے ہیں۔حالانکہ
وہ جانتے ہیں کہ اگر پاکستان کے دورے پرگئے تودونوں ممالک کے درمیان بہت
کچھ بدل سکتاہے بھارتی حکومت کا محتاط رویہ الیکشن کے قریب ہونے کی علامت
ہے من موہن سنگھ ایک بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات
سنوارنے کاکام راتوں رات نہیں ہو گا،اس میں بہت وقت لگے گا اس دوران کئی
طرح کے خطرات درپیش ہو سکتے ہیں جن کو اس وقت ٹالناضروری ہے جو سیاسی طور
پرگانگریس کیلئے نقصان دہ ثابت ہوں گئے۔دراصل جو قدم اٹل بہاری واجپئی نے
اٹھایاتھاوہ بہت بڑاتھا،اس کیلئے واجپئی جیساقدضروری ہے۔انہوں نے بڑی
رکاوٹوں کا پار کرکے لا ہورکا سفرکیاتھا مگر اب منموہن سنگھ اس ہمت اور
حوصلے کی دوسری مثال بننے کو تیار نہیں منموہن سنگھ کو اب بھی یقین ہے
کہ2014کے عام انتخابات کے بعدوہ تیسری مرتبہ وزیر اعظم بنیں گے۔ |