وطن کیا ہے ۔؟یہ وہ سر زمین ہے جہاں انسان آنکھ کھولتا ہے
پلتا ہے بڑھتا ہے یہی وجہ ہے کہ وطن سے محبت قدرتی امر ہے ،حدیث میں آتا ہے
''حب الوطن من الایمان'' وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے
مگر کیا یہ کافی ہے کہ ہم وطن سے محبت کا راگ تو الاپتے رہیں مگر اس پاک سر
زمیں کے حقوق ادا نہ کریں ،خالی لفاظی تو کچھ کام نہیں دیتی اس لئے کہ
خالی امید ہے فضول، سئی عمل بھی چاہیے
ہم میں سے اکژ یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ اس وطن نے ہمیں کیا دیا؟ہم اس کے لئے
کیوں کوئی کام کریں کوئی قربانی دیں زرا ایک لحظہ کو رک کر سوچیں،اپنا ملک
اپنا ہی ہوتا ہے ،جہاں آپ آزادی سے سانس لے سکتے ہیں کسی دوسرے ملک میں
جائیں گے تو ہر لمحہ آپ کو اپنی شناختی ثبوت ساتھ رکھنا ہوتا ہے ،اگر نہ ہو
تو آپ قانونا مجرم قرار دیئے جاتے ہیں ، ہمارا پیارا وطن پاکستان جس کے لئے
ہمارے آباؤ اجداد نے جان کی قربانیاں دیں لاکھوں سہاگنوں کے سہاگ موت کی
وادی میں اتار دیئے گئے،ہزاروں ماؤں نے اپنے جگر گوشے اس سر زمیں کے حوالے
کر دئے ،سینکڑوں خواتین کی حرمت کو پامال کیا گیا ،کیا یہ سب قربانیاں اس
لئے دی گئی تھیں کہ آج ہم اپنے تمام وسائل کے ہوتے ہوئے بھی بیرون ممالک کو
فوائد پہنچائیں ،اور اس پیارے ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کریں ،جس
کی بنیاد کلمہ توحید اور بنا کسی مذہبی فرق کے رکھی گئی تھی ۔۔آج کیا ہورہا
ہے ؟بھائی بھائی کی گردن کاٹنے میں لگا ہوا ہے ملکی مفادات کو بالائے طاق
رکھ کر ہر کوئی سرکاری خزانے پر اپنی اجارہ داری سمجھتا ہے رشوت نے ہمیں
اندھا کر دیا ہے اور ہم اس حد تک چلے گئے ہیں کہ جس نے زیادہ رشوت دی بس
اسی کا کام ہو گیا۔قوم وہی زندہ رہتی ہی جس کی اگلی نسل پچھلی نسل کی جگہ
لینے کے لئے تیار رہے ،کسی بھی قوم کی ترقی کا دارومدار اس کی نسلوں کی
بہتر تربیت پر ہے ۔
آزادی کا دن ہر سال ہمیں اس عہد کی یا دہانی کرواتا ہے جو ہم نے اپنے عظیم
قائد کی قیادت میں ایک آزاد قوم کی حیثیت سے اسلامی اقدار کی پاسداری کے
لئے کیا تھا ،اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر امن اور سلامتی کا پرچم بلند
کرکے ہی ہم کامیابی کی منزلیں طے کرسکتے ہیں اور یہی یوم آزادی کو اصل
تقاضا ہے ۔
قائد اعظم کی زبان سے ادا ہونے والے ان تین الفاظ اتحاد ،تنظیم اور یقین
محکم میں ایسی تاثیر بھری ہوئی تھی کہ جس نے مسلمان قوم کی کایا پلٹ دی اور
دیکھتے ہی دیکھتے ان کی تقدیر بدل گئی،فولادی حلقے باہم مربوط ہوکر مضبوط
زنجیر بن گئے۔یہی وہ انتہائی فولادی زنجیر تھی جس نے ہر مخالف قوت کو جکڑ
کر رکھ دیا۔یہی وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار تھی جس میں دشمن اپنی ہزار کوششوں
کے باوجود کوئی رخنہ نہ ڈال سکا۔یہی وہ سنگلاخ پہاڑ تھا جسے بڑے بڑے پہاڑ
بھی اپنی جگہ سے نہ ہلا سکے اور یہی وہ بحر ذخار تھا جو ذلت و خواری دشمنوں
کی دشمنی اور اپنوں کی غداری کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گیا۔
مسلمانوں کا اتحاد ہی ان کے قومی تشخص کو اجاگر کرنے اور قومی کریکٹر کی
تعمیر کرنے کا موجب بنا اور اسی باعث انگریزوں ہندوؤں اور ہندو نواز
مسلمانوں نے ہی نہیں بلکہ اغیار نے بھی قائداعظم کو معمار قوم تسلیم کیا
اور دنیا بھر کی نگاہوں میں آپ ایک عظیم تاریخ ساز شخصیت قرار پائے۔
24مارچ1948ء ڈھاکہ یونیورسٹی میں تقریر کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا:-
''اس اہم اور نازک وقت میں جبکہ ہم بیرونی خطرات سے دوچار ہیں اور اندرونی
طور پر ہمیں ایسے پیچیدہ مسائل سے نپٹبا ہے جن کے اثرات بہت دور تک پہنچے
ہیں اور ہمارے مستقبل کو متاثر کرنے والے ہیں ۔آپ اتحاد اور یکجہتی پیدا
کرکے بہت بڑی خدمت انجام دے سکتے ہیں ،ان حالات میں یہ بھی ممکن ہے کہ بعض
لوگ اپنے ذاتی اور خود غرضانہ مقاصد کے لئے ایسی کاروائیاں کریں جو پھوٹ
اور تفرقہ کا باعث ہوں ۔اپنے ہی لوگوں میں جو غدار اور دٖغا باز ہیں ان سے
ہوشیار رہیئے اور ان سے بھی جو آپ کے زریعہ اپنا مطلب نکالنا چاہتے ہیں ۔ان
تمام باتوں کا تقاضا یہ ہے کہ آپس میں کامل اتحاد ،اتفاق اور تنظیم پیدا کی
جائے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپس میں لڑیں گے تو ناکام رہیں گے اور
متحد ہیں گے تا یقینا کامیاب رہیں گے ۔
آج پیارا وطن لاتعداد مسائل کا شکار ہے ہوشربا مہنگائی نے عوام کی کمریں
توڑ کر رکھ دی ہیں۔دہشت گردی ،لاقانونیت کے باعث عوام کے دل زخمی اور
آنکھیں اشکبار ہیں ۔کسی شاعر نے کیا خوب موجودہ حالات کی ترجمانی کی ہے۔
آج پھر شعلہ بداماں ہے فضائے گلشن بلبلیں نوحہ کناں ہیں کہ چمن جلتا ہے
آج ہر سمت نظر آتا ہے آہوں کو دھواں جانے کس آگ میں پھر میرا وطن جلتا ہے
اتنے پھولوں کو مسل کے بھی نہ دل شاد ہوئے اتنی جانوں کا لہو پی کے بھی
سیری نہ ہوئی
ہم کڑی دھوپ سے بچنے کو یہاں آئے تھے اپنے حق میں تو یہ چھاؤں بھی گھنیری
نہ ہوئی
قائد اعظم نے ایک عظیم معمار کی حیثیت سے حصول پاکستان کی جدو جہد کے دوران
اور پھر اسی طرح قیام پاکستان کے بعد قوم کو اتحادسے مالامال کرنے اور
رکھنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا اور زندگی کی آخری سانس تک خون جگر
سے اس کی آبیاری فرمائی اورپوری جانفشانی کے ساتھ اس کی حفاظت کا حق ادا
کیا ۔ہم سب کا فرض ہے کہ حب الوطنی کے تقاضا کے باعث اپنے ملک کی دعاؤں اور
عملی اقدامات سے بھرپور مدد کریں۔
اے خدا اے کارسازتو ہی ہماری قوم کو ہدایت دے اور ہمارے ملک کی حفاظت
فرما۔اس کو تمام آفات سماوی و ارضی سے محفوظ رکھ اور حکمرانوں کو سمجھ دے
اور ملک میں امن کا بول بالا ہو۔ہمارا یمان ،اتحاد اور یقین محکم اور بھی
پختہ اور مضبوط ہوتا چلا جائے آمین-- |