اﷲ تعالیٰ کی مستحکم ترین حکمت میں اس عظیم کائنات کا
بہترین بظام بہ طریقِ احسن چلانا تھا۔ رب جلیل نے اس وسیع کائنات میں سے
زمین کا تخلیق کرنا اور اسکی نظام کو انتہائی احسن طریقے سے چلانا بنی نوعِ
انساں کے لئے کسی خاص عنایت سے کم نہیں۔ بنی نوعِ انسان کو اشرف المخلوقات
کا درجہ دینا اور یہ اختیار بھی دینا کہ عبادت کرے یا نہ کرے۔ فرض عبادات
کے ہوتے ہوئے بھی مکمل اختیار دینا آدم زادوں کے لئے باعثِ رحمت ہے۔ حضرت
آدم سے لیکر محمد مصطفی تک کے تاریخی ادوار میں نظامِ زندگی کے عروج ا زوال
ہم بخوبی جان چکے ہیں۔ تاریخِ اسلام شاہد ہے کہ نظامِ مصطفی ﷺدنیا کی سب سے
بہترین اور مکمل نظام ہے۔ جہاں قانون کی پیروی کو افضل سمجھنا ، جہاں تجارت
و صنعت کے افضل ترین مثالوں کا قائم کرنا، جہاں امن و سکون کی فضاء کو روح
افزا تقویت بخشنا، جہاں عدل و انصاف کو خوشنمائی کے ساتھ قائم رکھنا ، جنگ
و جدل کی اصول و ضوابط اور جنگی قیدیوں سے حسنِ سلوک کی اعلیٰ مثال کو قائم
کرنا، غرض محمد عربی ﷺ کی نظامِ زندگی دنیا کی افضل ترین نظام تھی۔وقت اپنی
جوبن میں مسلسل محوِ سفر رہی اور حالات کو بدلتے ،سدھرتے اور بکھرتے ہوئے
دیکھتے آئے ہیں۔اسلامی رہنماؤں نے کیسے نظام کو قائم رکھا، کیسے وقت پر
تبدیلیاں کیں اور کیسے وقت سے پہلے نظام کو مکمل کر رکھا۔ ان سبھی چیزوں سے
واقف ہونا کسی بھی ریاست کے حکمرانوں کے لئے ضروری ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ
حضرت یوسف ؑ نے سات سال کی مسلم قحط کو بہتین نظام بنا کر اس سے
چھٹکاراحاصل کیا۔ یوں ان جیسے ہزاروں واقعات سے اسلامی تاریخ بھرا پڑا
ہے۔ہم وقت سے پہلے نظام بنانا مستقبل کی خطرات کو کم کرنے یا مکمل چھٹکارا
پانے کے لئے حکمرانوں کو ہمہ وقت حالاتِ حاضرہ کا علم ہونا ضروری سمجھ لینی
چاہیے۔
گزرے ہوئے سانحوں اور بد عنوانیوں پر ماتم کرنے کی بجائے، احتجاج در احتجاج
اور تنقید برائے تنقید کرنا ترقی کی راہ میں پختہ دیوار کھڑا کرنے کے
مترادف ہے۔ جب سے ہوش سمبھالا ہے یہ لوگ وہی خبریں وہی الزامات وہی احتجاج
اور وہی بے مقصد سوچ لیکر چلے ـآرہے ہیں۔فرق صرف اتنا ہے کہ وقت اور کچھ
چہرے بدلے ہیں مگر نظام ترقی کی بجائے تنزلی کی سمت چلتی جا رہی ہے۔ ماضی
سے سبق حاصل کرنا دانشمندی ہے نہ کہ ماضی کو ایک صحافتی سبق سمجھتے رہنا۔
موجودہ حالات کو بخوبی جانچ پڑتال کے بعد ماضی کی غلیوں اور ناکامیوں کو
مستقبل میں وکنے کا لئے مکمل حکمت عملی تیار کرنی چاہیے۔ان تمام امور کا
زیر بحث لانے کا مقصد گلگت بلتستان کے مستقبل کے نظام کو ایک خاص اور تسلی
بخش حد تک چلانے کا لئے کر رہا ہوں۔ یہ تو کل تھا کہ سکولوں میں دری بچھاتے
تھے، تختی پر لکھتے تھے، میلوں دور سے پیدل چل کر سکول آتے تھے، ہفتوں نعد
پیغامات وصول ہوتے تھے، اساتزہ کی بھرتیاں، تقرریاں اور تبادلے بے حد غیر
منظم طور پر ہوتے تھے۔پھر آج کا دن آیا جسکو قلمبند کرنے کی شائیدہی ضرورت
پیش آئے۔کچھ عناصر ایسے ہیں جنکی علاج کرنا عصر حاضر کی اہم ضرورت ہو گی۔
جو شائد آنے والے بچوں کی مستقبل کو سنورنے میں تھوس قدم ثابت ہوں گے۔باقی
ماندہ محکموں کا زکر کرنا شاید بے سود ہو۔ کیونکہ تعلیم ہی واحد عنصر ہے۔
جو باقی تمام چیزوں کو مربوط بنا دیتی ہے۔ گو کہ گلگت بلتستان کے بعض ضلعوں
میں کچھ جگہوں پر تعلیمی ترقی بامِ عروج پر ہے۔ جہاں سے مستقبل روشن دکھائی
دے رہا ہے۔ مگر اکثریتی علاقوں میں غیرمعیاری سکولوں کا کھولنا اساتذہ کی
تقرریاں اور تبادلے کا طریقہ ہمیں بے حد غمزدہ کر دیتی ہے ۔ گورنمنٹ سکولوں
میں اساتذہ کی کمی پورا کرنے اور جدید علم سے آراستہ کرنے کا کوئی ٹھوس
ذریعہ مستقبل کی منصوبہ بندی میں کہیں نظر نہیں آرہا۔ اگر گلگت بلتستان کی
محکمہ تعلیم ان چھوٹے چھوٹے مسائل پر قابو پانے کی جامع منصوبہ بندی نہ
کریں تو بچوں کی تعلیمی زندگی پر سیاہ دن کا غلبہ بہت جلد چھا جائے گا۔
تمام نجی اور نیم سرکاری سکولوں کی باقائدہ رجسٹری اور گورنمنٹ سکولوں جیسی
قوائد و ضوابط یکساں طور پر مربوط کرنے کی ضرورت ہے۔ جدید تعلیمی نصاب یعنی
کمپوٹر ،جنرل نالج ، آرٹ اینڈ ڈرائینگ کچھ نجی سکولوں میں پڑھائے جاتے ہیں
تو کچھ میں نہیں۔ یہی حال سرکاری سکولوں کی بھی ہے، کچھ سکولوں میں اول
جماعت سے شروع کی جاتی ہے تو کچھ میں جماعت پنجم سے ۔اکثر سرکاری سکولوں
میں اساتذہ کو جدید نصاب کو پڑھانے میں دقت محسوس ہو تے ہیں۔کچھ میں انہی
جدید نصاب کو پڑھانے کے لئے کوئی استاد موجود ہی نہیں ہے۔گلگت اور سکردو
شہروں میں ہر دوسری گلی میں مختلف انواع کے پرائمری سکولز کھولے گئے
ہیں۔مجھے یقین ہے کہ ان اکثر سکولوں کی رجسٹریشن بھی نہیں ہوئی ہو گی۔ ضلع
گنگ چھے جو کہ گلگت بلتستان کے سب سے پسماندہ ضلع ہے۔ جہاں تعلیمی و دیگر
تمام نظام قابلِ بیاں ہی نہیں۔ جہاں تعلیمی ادارے ہر نئے دن یہ ماتم کرتے
ہیں کہ کب اساتذہ کی کمی پورا ہو گی۔ کہ کب تمام سکولوں کے لئے کمپیوٹر لیب
میسر ہو گی، کہ کب سائنسی علوم کے چرچے ہر سکول میں ہونگے۔ سکولوں میں
داخلے کی شرائط و ضوابط نظر انداز کئے جانے ہیں۔ کاش یہی حال نجی اداروں کے
بھی کرتے۔ یہ بات قابلِ تعریف ہو گی کہ سکولوں میں فیس نہیں لی جاتی مگر اس
سکول کا کیا فائدہ جہاں پڑھائی کا معیار دل شکن ہو۔ جب ان مختلف سکولوں سے
فارغ ہونیوالی طلباء و طالبات گورنمنٹ ہائی سکولوں اور کالجوں میں داخلہ
لیتے ہیں تو وہاں انکی ذہنی سطح کے مطابق پڑھانا ایک سوالیہ نشان بنتا
ہے۔جو عنقریب علم کے قیمتی ذخیرے پر پانی پھیرنے جیسا عمل ثابت ہو گا۔آخر
کب تک ہم سبھی لوگ یہ گریہ و زاری سنتے رہیں اور آہ و بکاہ کی عالم میں وقت
کو ٹالتے رہیں۔
اسلامی تاریخ ہمیں سب سکھا گئی ہے تو کیوں نہ ہم ان پر عمل پیرا ہوں ۔ جو
طوفان کو وقت سے پہلے روکنے کا منصوبہ اور ایک مربوط نظام بنا دیتی ہے ۔ جس
سے مستقبل کا بچہ بچہ مسرور ہونگے۔ ذیر نظر تمام عوامل مستقبل میں پیش آنے
والی خطرات کی نشاندہی کرتے ہوئے ان لوگوں کو جگانا ہے جو تعلیمی نظام کو
چلاتے ہیں۔ گلگت بلتستان کی محکمہ تعلیم اپنی تگ و دو میں ہیں اور فکر مند
بھی کہ ہماری نظامِ تعلیم قابل ستائش ہو۔ مگر ان فکر مند لوگوں کے بیج کچھ
لوگ تعلیمی قدر و منزلت سے اب بھی نا آشنا ہیں۔ ان لوگوں کی اس محکمے میں
وجود ہونا نہ صرف محکمے کے لئے بلکہ گلگت بلتستان کے مستقبل کے لئے بھی
دیمک جیسی ہو گی جو صرف نور علم کو ہی چاٹتے رہتے ہیں۔سیکرٹری ایجوکیشن
گلگت بلتستان سے سبھی عوام ملتمس ہیں کہ قوم کی مستقبل کو سنوارنے میں
تعلیمی میدان میں مزید بہترین اصلاحات کی جائیں۔تعلیمی منصوبہ بندیوں کو
پایہ تکمیل کو پہنچانے کے لئے نظام تعلیم کے مقامی ماہرین کو بھر پور موقع
دیکرباہم اتفاق رائے سے یکساں نظام اور جامع منصوبہ بندی کی جائے ۔طلباء و
طالبات کی مسائل کا بہترین حل محکمہ تعلیم سے ہی وابستہ ہے لہٰذہ مستقبل کی
مسائل کو ابھی سے حل کرنے کی کوشیشیں تیز کی جائیں۔ تاکہ علم جیسی نور ارض
گلگت بلتستان سے نایاب نہ ہو۔ یہ ایسی ذخم ہے جسکو مرہم وقت سے پہلے دی
جانیکی ضرورت ہے۔تاکہ چراغوں کی روشنی کہیں دھیمی نہ پڑھ جائے۔ |