حیرت ہے تعلیم و ترقی میں
ہے پیچھے
جس قوم کا آغاز ہی "اقراء " سے ہوا تھا
"جب تک ہم انگریزوں کی وفا داریوں کے عوض "جاگیر دار، نواب اور وڈیرے "
بننے والوں سے ان کی جائیدادیں نہیں
چھین لیتے تب تک اس ملک میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکتے اور خاص طور پر
تعلیمی نظام سے جو انگریزوں نے بنایا تھا"
یہ الفاظ میں نے علامہ محمد اسد جو "ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ریکنسٹرکشن"کے
سربراہ تھے کی کتاب (پاکستان کا مطلب کیا۔لاالہ الا اﷲ)میں پڑھے تھے تو دل
و دماغ نے بغیر کسی سوچ کے تسلیم کیا کہ مملکت خداد میں تبدیلی
خود(CHANGING HIMSELF) سے شروع ہو سکتی ہے یا پھر ان الفاظ کو عملی جامہ
پہنا کر شروع کی جاسکتی ہے۔ حسن نثار کی طرح میں وہ الفاظ استعمال نہیں کر
سکتا جس شائشتگی سے وہ الفاظ استعمال کرتے ہیں مگر ایک بات طے ہے کہ ان نام
نہاد لیڈران کے پاس چونکہ انہی انگریزوں کی عطا کردہ عنایات ہیں لہذاان سے
توقعات وابستہ کرنا اندھیرے میں سوئی تلاش کرنے کے مترادف ہے۔اسی لیے حکیم
محمد سعید نے ان کو کالے انگریز کا نام دیا تھا۔ لیکن میرا موضوع سیاست
نہیں بلکہ تعلیمی نظریات ہیں جو ہم بھول چکے ہیں ۔ میں آج بفضل خداوندی آپ
کے گوش گزار کروں گاتاکہ کوئی تو اس پر عملی قدم اٹھانے کے قابل ہوگا ۔اور
میری یہ محنت رائیگاں نہ جائیگی۔ چینی کہاوت نظر سے گزری تو احساس ہوا کہ
ہمیں اچھے اور تربیت یافتہ افراد کی ضرورت ہے۔
"اگر تم ایک سالہ منصوبہ بندی کر رہے ہو تو فصل اگاؤ اور اگر تمہارا منصوبہ
دس سالہ ہو تو درخت لگاؤ جبکہ مستقل بنیادوں پر منصوبہ بندی کر رہے ہو تو
مناسب افرادپیدا کرو" ۔
سرسید احمد خان نے ایک مرتبہ کالج کے ڈگری ہولڈرز کو خطاب میں کہا تھا! تم
بہترین ڈاکٹر ز بن جاؤ، نمایاں درجے کے وکیل بنو یا اچھے انجینئر بن جاؤ
لیکن مسلمان نہ بن سکو تو تم سب ہمارے کسی کام کے نہیں۔ “
ہم بنیادی طور پر اپنے نظریے سے ہی ہٹ چکے ہیں یہ ہماری تیسری نسل پروان
چڑھ رہی ہے۔ اور بعضے چینلز تو ہمارے ان نظریات کو مسخ کرنے کے درپے ہوئے
ہیں جبکہ نظریہ ء پاکستان کی حفاظت ہر شخص کی ذمہ داری ہے۔
'"جوشعور اور لاشعور میں چل رہا ہوتا ہے وہی سوچ اور عمل میں ڈھل جاتا ہے "
۔ آج ہمارے اذہان میں عام طور پر پیسہ کمانا اور اچھی نوکری اور عہدے تک
رسائی حاصل کرنا!چل رہا ہوتا ہے۔ جبکہ نظریہ ، مقصد، دین کی فکر، اور خدمت
انسانیت وغیرہ کو فضول الفاظ گردانا جا رہا ہے۔ ایک منظم کوشش کے تحت
علاقائیت ، لسانیت اور فرقہ واریت کو طلباء میں راسخ کیا جارہا ہے جبکہ
اردو سے دوری سے ہمارا تشخص دھندلا ہوتا جا رہا ہے۔اردو بولنا پسماندگی کی
علامت سمجھا جانے لگا ہے جبکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین اور نظریاتی
اساس کے طور پر اردو ہماری قومی زبان ہے۔ کسی بھی نظریاتی مملکت میں رائج
نظام تعلیم یہ خدوخال واضح کرتا ہے کہ وہاں موجود تمام افراد یکساں ہیں اور
تمام خاص و عام کو یکساں سہولیات میسر ہیں۔لیکن ہمارے ہاں تعلیم کو طبقاتی
تقسیم میں الجھا دیا گیا تھا۔ کیونکہ طبقاتی نظام تعلیم کسی بھی ملک میں اس
لیے رائج کیا جاتا ہے تاکہ بالا دست طبقے کے بچوں کودوسرے طبقات سے علیحدہ
جانا جا سکے۔
ان خرافات کو ختم یا کم کرنے کیلیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے نہ کہ کاغذی
کاروائیوں کی۔اس سلسلے میں سب سے زیادہ اہم پہلو اساتذہ کرام کا کردار ہے
جو کہ تاریخی اعتبا ر سے عیاں ہے کہ کس طرح ایسے نصاب تعلیم سے نپٹا جا
سکتا ہے جس میں اغیار کا طبع شدہ مواد پڑھایا جاتا ہے۔ نصاب کی اقسام میں
سے ایک قسم (مخفی نصاب )بھی ہے جو اساتذاکرام کے ہاتھ میں ہوتا ہے جو وہ
اپنے تجربات اور اسلامی اقدار کے مطابق ڈھال سکتے ہیں اور طلباء کی نشوونما
کر سکتے ہیں کیونکہ تاجر، سیاستدان، انجینئر یا ڈاکٹر تبدیلی کے محرکا ت
نہیں ہوتے بلکہ صرف اور صرف اساتذہ ہی واحد ذریعہ ہیں جو معاشرے کی سوچ میں
واضح تبدیلی لا سکتے ہیں ۔ سو ان کو عزت دیں، ان کی جدید خطوط پر تربیت
کریں اور معاشرے میں بہترین اور آسودہ مقام دیں ۔جیسا کہ امریکہ میں استاد
کو وی آئی پی مقام سے نوازا جا تا ہے، فرانس کی عدالت میں اگر استاد بطور
ملزم پیش ہو تو اسے کرسی پر بٹھایا جاتا ہے جبکہ باقی کسی کو بھی عدالت میں
کرسی پیش نہیں کی جاتی چاہے وہ وزیراعظم یا صدر ہی کیوں نہ ہوجبکہ جاپان
میں استاد کو گرفتار کرنے کیلیے باقاعدہ حکومت سے تحریری اجازت لینی پڑتی
ہے اور سب سے بڑھ کر کوریا میں استاد اپنا پیشہ وارانہ کارڈ دکھا کر تمام
وی آئی پی سہولیات سے لطف اندوز ہو سکتا ہے جو ہمارے ملک میں صرف صدر ،
وزیر اعظم اور وزراء کو حاصل ہیں۔یواے ای ائیر لائن ایک استاد تعلیمی سامان
اورکتابوں کے زیادہ وزنسے مبرا ہے وہ جتنا چاہے اس سلسلے میں لا سکتا
ہے۔پھر یاد رکھیے کہ ہمارے پیارے آقاء دوجہاں ﷺ کا ارشاد پاک ہے!"جس سے علم
سیکھو اس کی تعظیم کیا کرو"۔
ہمارے زوال کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ اہل علم کی ناقدری بھی ہے کیونکہ
جن معاشروں میں اہل علم کی قدر نہیں کی جاتی وہاں بنیادی حقوق و فرائض ختم
ہو جاتے ہیں ۔بد اخلاق، کرپٹ اور لٹیرے لوگ پیدا ہونے لگتے ہیں۔سو تعلیم کو
اولین ترجیح بنائیے اور اساتذہ کی قدر کیجیے کہ وہ تبدیلی کی علامت ہیں ۔ (آپ
کی آراء کا منتظر) |