دو قومی نظریہ کیا ہے؟

دو قومی نظریہ پاکستان کی اساس ہے۔۔۔ مگر۔۔۔ اس کی موجودہ حیثیت ایک ضرب المثل سے زیادہ نہیں ہے کیونکہ پاکستان کے اہلِ قلم، دانشور طبقہ، سیاسی آقاؤں اور فیصلہ ساز اداروں نے اس نظریہ کی بقا، ترقی اور نفاذ کا حق ادا نہیں کیا۔ موجودہ نسل کی اکثریت اس نظریہ کے پس منظر سے واقف نہیں ہے، اس کی اہمیت و ضرورت اور اس نظریہ پر ہونے والے حملوں سے آگاہی نہیں بخشی گئی۔ کیونکہ ایسے تمام ذرائع جو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں موجود قوم کی منزل اور سمت کا تعین کرتے ہیں ان کا رخ دہلی اور بمبئی کی طرف موڑ دیا گیا ہے، جہاں سے بندے ماترم کا فیضان گھر گھر پہنچ رہا ہے۔

میں اپنے نوجوانوں کو تاریخی حقائق کی روشنی میں بتانا چاہتا ہوں کہ جس دو قومی نظریہ کا ذکر پاکستان میں سنا جاتا ہے اس کی حقیقت کیا ہے۔ دو قومی نظریہ محمد الرسول اللہ ﷺ نے اپنے اعلانِ نبوت کے ساتھ ہی عطا فرما دیا تھا۔ ہمارے آقا و مولا ﷺ کی تعلیمات کے مطابق اس دنیا میں صرف دو قومیں ہیں۔ ایک قوم کا نام مسلم اور دوسری کا نام قومِ کفار ہے۔ جی ہاں۔۔۔ ہندو، عیسائی، یہودی، بدھ مت، مجوسی، سورج، و آگ کے پجاری، یا پھر تصورِ الٰہ کے منکر۔۔۔ یہ سب ایک قوم ہے کیونکہ اللہ کے سچے رسول ﷺ کا فرمان ہے کفار ملتِ واحدہ ہیں، ان سب کا ایک ہی ہدف ہے اور وہ ملت اسلامیہ ہے۔ فلسطین میں مسلمان یہودیوں سے بر سرِ پیکار، افغانستان، عراق، بوسینیا، شام، چیچنیا، مصر اور دیگر کئی محاذوں پر عیسائی افواج و حکومتیں مسلمانوں کا خون بہا رہی ہیں، کشمیر میں ہندو اور برما میں بدھ مت کے پیروکار مسلمانوں کے دشمن۔ الغرض پوری ملتِ کفار کا مشترکہ اور واحد ہدف اسلام اور مسلمان۔

دو قومی نظریہ کو بنیادی قوت قرآنِ حکیم بخشتا ہے جہاں رب تعالٰی فرماتا ہے مشرکین پلید ہیں، اگر مسلم اور غیر مسلم ایک ہی معاشرہ میں رہ سکتے تو طائف کی گلیوں میں پتھر کھا کر لہولہان ہونے کی ضرورت نہیں تھی، کائنات کے سب سے حسین، صادق و امین انسان ﷺ کو جادو گر، کاہن، جھوٹا اور غدار کا طعنہ نہ سننا پڑتا، ا پنی جنم دھرتی مکہ چھوڑ کر مدینہ نہ جانا پڑتا۔ یہ طرزِ معاشرت، قوانین و شریعت، امور و احکام، تہذیب و ثقافت اور نظریات کا فرق ہی تھا جس نے بدر و حنین، احد و خندک میں کئی مقدس ہستیوں کا خون پیا۔ دو قومی نظریہ کی بنیاد پر قائم ہونے والی سلطنتِ اسلامیہ کے حاکم و شارع ﷺ کے ظاہری وصال کے بعد اٹھنے والے فتنوں نے اس نظریہ کو خطرہ میں ڈالنے کی کوشش کی تو پھر صدیق و عمر، عثمان و علی رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کسی مصلحت کے بغیر سیفِ جلی کو لہرایا، ہر گندے کیڑے مکوڑے اور دجال کو کچل ڈالا، اسی دو قومی نظریہ نے کربلا میں بہتّر صالحین طیبین کا خون پیا اور اپنی بقا کو امر کر دیا۔

برصغیر میں دو قومی نظریہ اتنا ہی پرانا ہے جتنی تاریخِ اسلام پرانی ہے ۔ ملکِ ہند میں دو قومی نظریہ کے خلاف پہلی سازش اللہ اور اس کے رسول کے غدّار جلال الدین اکبر نے کی جسے اللہ کے ایک ولی سیدنا مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے پوری استقامت و کرامت سے دفن کر دیا۔ سر سید احمد خان جس کی لمبی داڑھی کی وجہ سے لوگ آج اسے تحریک پاکستان اور اسلام کا علمبردار سمجھتے ہیں در حقیقت دو قومی نظریہ میں دراڑ ڈالنے والا انسان تھا، اس شخص نے بھی دو قومی نظریہ کو مٹانے کی کوشش کی، انگریز سرکار سے تنخواہیں لیں، انگریزی میں تعلیم کا راگ الاپا، جب کہ اسلام تو سارے کا سارا عربی، فارسی اور اردو میں تھا، ولی دکنی، میر تقی میر، غالب و اقبال اور مرأۃ العروس بھی اردو میں ہی تھی، قرآن کا ترجمہ، احادیث کا ذخیرہ، تفاسیر کا مجموعہ اور ذرائع ابلاغ بھی اردو میں ہی تھے ، مگر مسٹر اور سر کا خطاب پانے کے لئیے سید احمد خان نے انگریز آقاؤں سے وفاداری نبھائی، خوش قسمتی سے اسلام کے علمبرداروں نے یہ سازش بھی ناکام بنا دی اور نظریہ زندہ رکھا۔۔۔ دو قومی نظریہ کو فکری قوت دینے والے درویش ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کو انگریزوں نے سر کا خطاب خود پیش کیا تھا کیونکہ وہ دو قومی نظریہ کا سچا محافظ تھا اس کے بر عکس سید احمد خان نے چاپلوسی کر کے یہ خطاب پایا تھا۔

بظاہر ایک دنیا دار اور سیکولر خاندان سے تعلق رکھنے والے محمد علی جناح نے اس نظریہ کو ایک وجود بخشا، جب انگریز مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر متحد مسلم صوفیأ، علمأ اور عوام کی طاقت کے سامنے پٹنے لگا تو ایک سازش کے تحت پورے ہندوستان کو ہندو جماعت کانگریس کے حوالے کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا۔ عین اس وقت جب یہ کھچڑی پک رہی تھی دوسری طرف کانگریسی ٹوپیوں والے علمأ سؤ ملت کا سودا کرنے میں مصروف تھے، کسی نے پاکستان کو کافرستان کہا ( آج ان کی اولاد پاکستان کی سیاست کی ٹھیکیدار ہے اور ڈیزل سے لے کر کشمیر تک ہر معاملے پر اپنی باطنی خباثت کی وجہ سے بدنام ہے)، کسی نے قائدِ اعظم کو کافرِ اعظم قرار دیا، کوئی پاکستان کی پ تک نہ بننے کے خواب دیکھنے لگا تو کسی نے پاکستان کے وجود کو جہنم سے تعبیر کیا۔ اس وقت سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری، پیر صاحب مانکی شریف، پیر آف زکوڑی شریف، پیر سید مہر علی شاہ، آستانہ عالیہ سیال شریف، درگاہ کچھوچھہ شریف اور تمام صوفی خانقاہوں نے دو قومی نظریہ کی تکمیل کے لئیے محمد علی جناح اور مسلم لیگ کی غیر مشروط حمایت کی۔ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے پچاس سال قبل امام المسلمین سیدنا امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے یہود وہنود کے خفیہ ایجنٹوں کو بے نقاب کیا، کفر کی سازشوں سے پردہ اٹھایا، ملت میں فساد و فتنہ برپا کرنے والوں کا قلمی تعاقب کی اور دو قومی نظریہ کو بھرپور تقویت پہنچائی۔ دو قومی نظریہ کے نام، وجود، اور تصور کے دشمنوں اور منافقوں پر امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کے حملے اس قدر شدید تھے کہ آج تک وہ اپنے زخم چاٹ رہے ہیں۔ ان اولیائے کاملین کی روحانی و عملی مدد اور تاجدارِ مدینہ ﷺ کے فیضان سے 1947 میں پاکستان وجود میں آیا اور اللہ کے ایک ولی محمد علی جناح کو مسلمانانِ ہند کا قائدِ اعظم بننے کا شرف ملا۔

ہندوستان میں دو قومی نظریہ کے تحت پاکستان بنا کہ ہندو معاشرے کی گندی رسومات، رواجات اور ثقافت اسلام سے متصادم تھی اور ہے۔ جس معاشرے میں انسان کے درجات قبائل کی بنیاد پر ہوں، جہاں کا نظام طبقاتی ہو، جہاں شوہر کے مر جانے کی صورت میں اس کے بھائی کے ساتھ شادی کو مذہبی حیثیت حاصل ہو، سائنسی ترقی اور علمی عروج کے دور میں بھی اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے بتوں کی پوجا کی جاتی ہو، گائے کا پیشاب برکت کا باعث ہو، مرتے وقت گاؤ موتر بطور شفأ و آسانیِ نزع کے لئیے استعمال ہو، گنگا جمنا میں مرد و زن کے مخلوط اجتماع میں نہایا جائے، جو اپنے مُردوں کو اس لئیے جلا دے کہ اسے بعدِ مرگ حساب نہ چکانا پڑے، جہاں درخت مقدسات میں شامل ہوں، جنم کنڈلیوں پر زندگی ترتیب دی جائے، کسی مخصوص جگہ رشتہ کرنا مقصود ہو تو اس کی نحوست زائل کرنے کے لئیے بندر، کتا اور درخت سے حفاظتی شادیا ں کی جائیں، جہاں مذہبی رسوم کے رہنما ننگے بیٹھے ہوئے پنڈت خوبرو خواتین پر جنسی غلاظت نکالیں اور جہاں زندگی کا ہر ہر کام وہم اور خیالات پر مبنی ہو وہاں اسلام اور مسلمان نہیں رہ سکتا۔

اسلام اپنے قوانین، شریعت اور ثقافت کے ساتھ دنیا میں موجود ہے۔ دو قومی نظریہ ایک آفاقی نظریہ ہے۔ اسلام دنیا کے ہر کونے میں پہنچ چکا ہے۔ اہل کتاب مشرکین ضرور ہیں مگر ان پر شریعتیں آئیں اور انبیأ بھی تشریف لائے، انہوں نے انبیأ کا انکار کیا، کتب میں ترمین کی مگر وہ اہلِ شریعت ضرور ٹھہرے۔ پوری دنیا میں ایک ہندوستان ایسا ملک ہے جہاں آج تک بتوّں کی پوجا ہو رہی ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب اس خطے میں موجود ہر بت پاش پاش ہو جائے گا اور پھر کلہاڑی بڑے بت کے کندھے پر رکھ دی جائے گا۔۔۔۔ وہی دن دو قومی نظریہ کی تکمیل کا دن ہو گا۔۔۔ انشأ اللہ۔۔۔۔ دو قومی نظریہ ہر مسلمان کے دل و دماغ میں موجود ہے، کفر و شرک اور اور ان کی ثقافت سے بیزاری و نفرت اس نظریہ پر عمل کا بہترین ثبوت ہے۔ دو قومی نظریہ ہر اس جگہ موجود ہے جہاں مسلمان موجود ہے۔ آفاقی نظریہ پورے آفاق میں سفر کر ہا ہے ۔۔۔ مسلمان بد عمل ہو سکتا ہے۔۔۔ سست، غافل ہو سکتا ہے۔۔۔ مگر بے غیرت نہیں ہو سکتا ہے۔۔۔۔ کیونکہ اس نظریہ کی خاطر ہم نے مدینہِ اور حبشہ کی ہجرت کی۔۔۔ اس نظریہ کی خاطر تاریخِ انسانیت کی سب سے بڑی ہجرت ہندوستان سے پاکستان کی طرف ہوئی۔۔۔ اس نظریہ کی بقا کے لئیے آج تک لاکھوں ماؤں کی گود خالی ہوئی، سہاگ اجڑے، بچے یتیم ہوئے، املاک لٹ گئیں، پورے پورے خاندان اجڑ گئے۔۔۔اور۔۔۔۔ رسولِ رحمت ﷺ کے جگر پارے حسین ابن علی رضی اللہ عنہم نے کربلا پر ڈیرے ڈالے اور۔۔۔ آخر میں یہ بھی یاد رکھئیے کہ اسی نظریہ کو بچانے کے لئیے 1947 میں ہماری ماؤں اور بہنوں کی چھاتیاں کاٹی گئیں، انہیں زبردستی حاملہ کیا گیا اور آج ان عصمت و عزت والی ماؤں کے بطن سے پیدا ہونے والے سینکڑوں ہزاروں بچوں کے نام ہندو اور سکھ ولدیت کے ساتھ شنکر، رام، دیپک، کلونت، پرکاش، ونود، اتم اور سنگھ سے موسوم ہیں۔ اس دو قومی نظریہ پر مہر حق اس وقت ثبت ہو جاتی ہے جب ہم دنیا میں آنے والے اپنے ہر بچے کے کان میں محبت سے سرگوشی کرتے ہوئے اسے اشہد الا الٰہ الا اللہ و اشہد انّ محمد الرسول اللہ کا کلمہ حق سنا کر باطل کے سینے میں خنجر گھونپ دیتے ہیں۔ یہ نظریہ صبحِ قیامت تک زندہ رہے گا اور ہم اس نظریہ کی حفاظت کے لئیے سر بکفن ہیں۔ انشأللہ۔
 
Iftikhar Ul Hassan Rizvi
About the Author: Iftikhar Ul Hassan Rizvi Read More Articles by Iftikhar Ul Hassan Rizvi: 62 Articles with 236638 views Writer and Spiritual Guide Iftikhar Ul Hassan Rizvi (افتخار الحسن الرضوی), He is an entrepreneurship consultant and Teacher by profession. Shaykh Ift.. View More