پولیس والوں کے بارے میں بہت سے لطائف اور تنقید زبان زد عام ہے ۔ ایک مشہورلطفیہ
ہے کہ ایک بوڑھی عورت کسی گاڑی میں سفر کررہی تھی کہ ایک مقام پر رش کی وجہ سے گاڑی
رک گئی ۔ کچھ دیر بعد بوڑھی عورت نے حسب عادت بولنا شروع کردیا کہ گاڑی کیوں نہیں
چلاتے؟ اور یہ کیا رش لگا ہوا ہے ؟ کچھ دیر بعد کسی نے بتایا کہ اماں ایک ایکسیڈنٹ
ہوگیا ہے اور ایک پولیس والا گاڑی کے نیچے آکر مرگیا ہے۔ تو اماں بی نے ایک لمبی
سانس لی اور کہا ، اچھا۔ ٹھیک ہے، میں سمجھی کوئی بندہ مرگیا ہے۔پولیس پر اس قسم کے
لطائف اور تنقید ہر دوسرے شخص نے اپنا مقصد اور معمول زندگی بنالیا ہے۔ ان کی فرائض
کی ادائیگی پر اعتراض، ان کے رویوں پر اعتراض، ان کے رہن سہن پر اعتراض، ان کے اچھے
کاموں اور کارناموں پر اعتراض، ان کے لین دین پر اعتراض ہمارا اولین شعار بن گیا ہے
لیکن کبھی کسی نے ان کے کارناموں ان کی قربانیوں کو نہیں سراہا۔ بحیثیت انسان اگر
ہم اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیں تو ہمیں بھی اپنے آپ سے کراہت محسوس ہوگی اور
ہونی بھی چاہئے کہ ہم بھی تو اپنے فرائض ادا کرنے میں کس قدر لا پرواہ اور بددیانت
ہیں۔ اپنے جائز و ناجائز کام کیلئے ہم تمام اخلاقی حدیں پھلانگ جاتے ہیں ۔اثر و
رسوخ اور روپے پیسے کا استعمال کرکے مستحق کو غیر مستحق کا درجہ دے دیتے ہیں اور
ایک نااہل اور غیر مستحق کو اپنے سر پر بٹھا لیتے ہیں اور پھر پوری زندگی حسب معمول
روتے پیٹتے گزار دیتے ہیں۔ آج کا کالم ان تمام شہدائے پولیس کے نام ہے کہ جنہوں نے
اپنے فرائض کی ادائیگی اور قوم و ملک کی حفاظت اور فلاح کیلئے کام کرتے ہوئے اپنے
جان جان آفرین کے سپرد کردی بالخصوص کوئٹہ کے سانحے کے وہ 38 پولیس آفیسرز و اہلکار
جن میں ڈی آئی جی فیاض، ایس پی، ڈی ایس پیز سمیت دسویں جوانوں نے اپنی زندگیاں ملک
کے نام کردیں وہ سلام اور تحسین کے لائق ہیں۔
لیکن! من حیث القوم ہم بے حس ہوچکے ہیں۔ ہم نے یہاں پر بھی ڈنڈی ماری کہ ایک طرف
اتنا بڑا سانحہ رونما ہوا ہے۔ دوسری طرف ہم لوگ عید کی خوشیوں کو چھوڑنے پر تیار
نہیں۔ ہلہ گلہ، شورشرابہ،بے ہنگم معمولات سے کہیں پتہ نہیں چلتا کہ اسی ملک میں اسی
قوم کے لوگوں کے ساتھ ایک بہت بڑا حادثہ رونما ہوگیا ہے۔ٹی وی پروگرامز، اینکر ز کی
خرمستیاں، ایکٹرز کی ادائیں،گویوں کی طنابیں،چوڑیوں کی کھنکاریں تھیں کہ رکنے کا
نام ہی نہ لیتی تھیں۔نہایت ہی افسوس کا مقام ہے لیکن۔اے میری قوم کے لوگو! اس کے
ساتھ ساتھ ایک بات ذہن نشین کر لیجئے گاکہ جس طرح کے حالات پیدا ہوچکے ہیں تو یہ
سانحات اور حادثات رونما ہوتے رہیں گے۔آج ان کی باری تھی تو کل ہماری باری ہوگی اور
پھر ہمارے لئے کوئی بھی رونے والہ نہ ہوگا۔ حکومت کی بے حسی اور بے بسی تو روشن صبح
کی طرح عیاں ہے۔ فی الوقت حکومت سو فیصد تک ناکامی کا شکار ہے اور نہ جانے کب تک اس
جال میں پھنسی رہے گی۔ دور دور تک بہتری کے کوئی آثار دکھائی اور سجھائی نہیں
دیتے۔اس لئے اپنے معاملات کو بہتر بنانے کیلئے ہم سب کو یک جہت اور متحد ہونا
ہوگا۔آج کوئٹہ ان کی زد میں ہے۔ کراچی خون میں رنگا ہوا ہے۔سوات کی وادی لہو سے
رنگین ہے تو کل پنجاب کی باری بھی آنی ہے ۔یعنی یہ لوگ حکومت کی رٹ کو روندتے ہوئے
نجانے کب کہاں پہنچ جائیں کوئی پتہ نہیں۔ تو اس وقت پولیس اورلا اینڈ انفورس منٹ
ایجنسیاں ہی ہمیں تحفظ دینے کا واحد ذریعہ ہیں۔ ان کے ساتھ تعاون کی فضا پیدا کرنا۔
باہمی اعتماد کو پروان چڑھانا، ان کی معاونت کرنا، ان کی ہمت بڑھانا اور حوصلہ دینا
کہ ہم دامے درمے سخنے آپ کے ساتھ ہیں ہماری بقا اور سلامتی کی گارنٹی ہے۔ اگر ان
لوگوں نے بھی ہمارے حکمرانوں کے رویوں اور حالات سے دل برداشتہ ہوکر ہتھیار ڈال
دیئے تو ڈی آئی خان سینٹرل جیل والہ واقعہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔اسلام آباد میں
ایک شخص چھ گھنٹے تک دندناتا پھرتا ہے اور ہائی الرٹ رہنے والی پولیس اپنی جان
بچانے کی خاطر دبک جاتی ہے ۔سوالیہ نشان ہے ۔ابھی تو ہم شاید یہ سمجھ کر خاموش اور
خوش بیٹھے ہیں کہ یہ دوسرے صوبوں کی جنگ ہے ہم تو محفوظ و مامون ہیں۔نہیں ۔نہیں یہ
جوآگ پھیل رہی ہے اور جس تیزی سے پھیل رہی ہے اگر اسےunity ،اخلاص اور قربانی کے
جذبے سے نہ روکا گیا تو ہم اس میں اس بری طرح جھلس جائیں گے ہماری شناخت بھی (خدانخواستہ)
ختم ہو جائیگی۔وہ لوگ تو کسی نہ کسی انداز میں ان کا مقابلہ بھی کررہے ہیں اور ان
سے اپنے تئیں نبرد آزما بھی ہیں لیکن ہم تو اس قابل بھی نہیں کہ کم ازکم اپنا ہی
دفاع کرسکیں۔ یہ آواز ہم نے اور آپ نے اٹھانی ہے۔ عوام کو جگانا ہے۔عوام کو سمجھانا
ہے۔ حکومت کو بھی باور کرانا ہے کہ خدارا خواب غفلت سے بیدا ر ہو جاؤ۔کبوتر والی
آنکھیں کھول لو کہ بلی موجود ہے اور جھپٹنے کو تیار بیٹھی ہے کوئی solid اور جامع
حکمت عملی ترجیحی اورہنگامی بنیادوں پر اپنانا ہوگی۔روایتی ہتھکنڈے،پالیسیاں اور
رویے چھوڑ کر ایک دو تین کرنا ہوگا۔ اس معاملے میں ہتھیلی پر سرسوں جمانا ہوگا۔ان
دہشت گردوں ،بے غیرتوں اور بزدلوں کونشان عبرت بنانا ہوگا۔ان ناہنجاروں کو یہ باور
کرانے میں ہی ہماری گلو خلاصی ہوسکتی ہے کہ ہم نے بھی چوڑیاں نہیں پہن رکھیں۔ہم
اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی صلاحیت سے مالامال ہیں۔علاوہ ازیں مکار دوست اور عیار
دشمن (امن کی آشا)اپنی ریشہ دوانیوں کو بھی ہوا دے رہا ہے۔اندرونی حالات کی وجہ سے
بیرونی حالات دگرگوں ہوتے جارہے ہیں۔حالات سنگین سے سنگین تر ہوتے جارہے ہیں۔بدامنی
کاعفریت ہمیں نگلتا جارہا ہے۔وحشت و بربریت نے عوام کو نڈھال و لاغر کردیا ہے۔
کمیٹیاں اور اجلاس کے اوقات گزر چکے ہیں اب تو صرف عمل کی ضرورت ہے do or die اور
now or never پر عمل کرنا ہوگا۔اسے عوام کی جنگ کی بجائے اپنی ذاتی جنگ سمجھنا
ہوگا۔ملک کو بچانا ہوگا۔ قوم کو اعتماد میں لینا ہوگا۔پولیس کو اعتماد و حوصلہ دینا
ہوگا۔بس ہمت جٹانا ہوگی۔سخت فیصلے لینا ہونگے ۔تمام پارٹیاں کو بھی اپنی انا اپنے
عناد پس پشت ڈال کر ہاتھوں میں ہاتھ لئے ملک وقوم کیلئے نکلنا ہوگا۔میاں صاحب بس
تھوڑی سی ہمت اور حوصلہ شامل حال کرلیں۔دنیا تو پہلے بھی خوش نہیں تھی اور اب بھی
ناخوش ہے اورایک اچھے عمل سے،عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے سے اگر مزید ناخوش
ہوجائیگی تو کوئی مضائقہ نہیں۔قوم کا بھی تو حق ہے نا؟اسے مقدم رکھئے۔ |