انسان اﷲ کریم کی مخلوق میں سب
سے بہترین شاہکار ہے، جس میں خالق نے ہر طرح کے جذبات ،احساسات بدرجہ اُتم
بھر دئیے ہیں، سوچنے سمجھنے اور محسوس کرنے کی قوت جو کہ عمرکے بڑھنے کے
ساتھ ساتھ بدلتی جاتی ہے، ٓپ نے دیکھا ہو گا کہ ایک بچے کی سوچ کبھی بھی
کسی بوڑھے آدمی کے ساتھ میل نہیں رکھتی اور نہ ہی کوئی نوجوان کسی تجربہ
کار یا میچور آدمی کی طرح سوچتا ہے۔
حال ہی میں ایک واقعہ سامنے آیا کہ ایک نشہ کرنے والے نوجوان نے اپنے ماں
باپ کو اپنے ساتھیوں سے مل کراس لیئے قتل کر دیا کہ وہ اُسے نشہ کرنے سے
منع کرتے تھے اور اکثر باز رکھنے کے لیئے گھر میں بند کر دیتے تھے، ایسے
واقعیات بہت دفعہ سننے مین اور دیکھنے میں بھی آتے رہتے ہیں،جس سے یہ ثابت
ہوتا ہے کہ سختی کرنے سے خاص کر نوجوانوں پر جن کی عمر بیس بائیس کے قریب
ہو اس کا اُلٹا اثر ہوتا ہے جس کا فائدہ ہمیشہ دشمن کو ہوتا ہے۔
طالبان کی پیدائش میں اسی بے جا ظلم اور زیادتی کا بہت بڑا ہاتھ ہے، کہیں
حکومت کی طرف سے اور کہیں اغیار کے ظلم سے تنگ آ کر نوجوان ہتھیار اُٹھا
لیتے ہیں جیسے کشمیر میں آسام میں یا ویتنام کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ،
ایسا ہر جگہ اور ہر قوم میں ہوتا رہتا ہے کیونکہ یہ انسانی جذبات ہی ہیں جو
بے قابو ہو جاتے ہیں جس کا اظہار ہر جگہ کسی نہ کسی صورت میں ہوتا رہتا ہے۔
بنگلہ دیش کے وجود میں آنے سے پہلے مشرقی پاکستان میں بھی کچھ اسی طرح کی
صورت حال پیدا کی گئی جس کا بھر پور فائدہ پاکستان کی دشمن قووتوں کو ہوا ،
بنگلہ دیش میں موجودہ حکومت بھی اب کچھ اسی طرح کے حالات پیدا کر رہی ہے جس
سے وہاں پر بھی المعروف طالبان کے پیدا ہونے کا جواز بنتا نظر آ رہا ہے۔
مکافاتِ عمل پر یقین رکھنے والے دیکھ ر ہے ہیں کہ موجودہ بنگلہ دیشی حکومت
جو طالبان کو ختم کرنے کا دعوہ کرتی آئی ہے آج اُسی کے ظلم سے تنگ آ کر
نوجوان سڑکوں پر نکل آئے ہیں جو آج دیسی ساخت کے بم پھوڑ رہے ہیں جو ابھی
ابتدا ہے، ، کل کلاں کوئی دشمن انہیں خودکار جیکٹ بھی مہیا کر سکتا ہے۔
جماعت یسلامی کے سابقہ امیر غلام اعظم جو کہ بہت ہی ضعیف اور آنکھوں سے بھی
تقریباً معزور ہیں اُن کو نوے سال کی سزا اور باقی جماعت کے سرکردہ لیڈروں
کو چُن چُن کر خودساختہ انٹرنیشنل عدالت کی طرف سے سزائے موت سنا کراور
اسلام پسند جماعتوں پر پابندی لگا کر شیخ حسینہ یا اُس کے حالی موالی سمجھ
رہے ہیں کہ اب مخالف جماعتیں کمزور ہو گئی ہیں اور اقتدار میں دوبارہ آنے
کا راستہ بالکل صاف ہو گیا ہے،مگر اُن کی عقل میں یہ بات نہیں آرہی کہ اس
سے جماعت کے ووٹ سیدھے مخالف پارٹی کو جانے سے اُس کی پوزیشن تو پہلے سے
بھی مظبوط ہو جائے گی۔
انسانی حقوق کی تنظیم نے غلام اعظم کی سزا کو غیر انسانی قرار دے د یا ہے
جس پر حکومت واویلا کر رہی ہے، دوسری طرف جب اُن سے اخباری نمائندوں نے
سوال کیا کہ کیا آپ پرلگائے گئے بغاوت کے الزام کو آپ تسلیم کرتے ہیں ؟ تو
انہوں نے صاف لفظوں مین کہا کہ میں نے پاکستان کے خلاف ہندو کی مددو لینے
کو گوارہ نہیں کیا ، اگر یہ جُرم ہے تو میں اسے قبول کرتا ہوں، بغاوت
توپاکستان کے خلاف ہوئی تھی یہاں تو سب کچھ اُلٹا ہو رہا ہے۔اگر مجھے موت
کی سزا بھی دے دیں تو پرواہ نہیں مجھے تو شہادت نصیب ہو جائے گی، (شاید اسی
لیئے انہیں سزائے موت نہیں دی گئی کہ اُن کی یہ آرزو پوری نہ ہوجائے ۔)
جب بنگلہ دیش بن رہا تھا تو مکتی باہنی کے نام سے طالبان ہی طرح کے
پاکستانی فوج پر حملے کئیے جا رہے تھے جن کو ٹریننگ اور اسلحہ بھارت فراہم
کر رہا تھا، اُس وقت بھی جا بجا بم پھوڑے جا رہے تھے پُل تباہ کیئے جا رہے
تھے غیر بنگالی مسلمانوں کو قتل کر کے اُن عورتوں کو بے عزت کیا جا رہا تھا
اُس وقت یہ سب کچھ جائز قرار دیا جا رہا تھا اور کرنے والوں کو بعد میں
بنگلہ دیشی حکومت آزادی کی فوج کہہ کراُن کو انعامات اور میڈل سے نوازتی
رہی ہے جو سلسلہ آج تک جاری ہے۔
اب جب کہ وہی کام اسلامی چھاترو شبیر کرنے لگی ہے تو اُن کو باغی اور دہشت
گرد کہا جا رہا ہے، ’’جس کی لاٹھی اُسی کی بھینس والی بات ہے، ‘‘
ہم کریں تو جائز تم کرو تو ناجائز۔
غرضیکہ طالبان کی پیدائش ظلم کرتا ہے ا و ر ان کی افزائش مفاد پرست دشمن
کرتا ہے۔ پھر جب اُن کے ہاتھ میں بندوق آ جاتی ہے تو نشانہ بھی دشمن ہی لگا
کر دیتا ہے، اپنی مرضی نہیں چلتی۔
اﷲ کریم نے ایمان والوں کی آزمائش کے لئیے شیطان کو چھوٹ دے رکھی ہے ، جو
اُس کے بہکاوے میں آ کر ظلم پر کمر باندھ لیتا ہے اُس کو ڈھیل ملتی ہے، کہ
شاید اب باز آجائے ، وگرنہ ایسی پکڑ ہوتی ہے کہ نام ُ نشان تک نہیں رہتا،
غور کریں تو ایسی بہت ساری مثالیں ہمارے سامنے آتی جا ئیں گی، اور قرآن پاک
میں تو ایسی بے شمار مثالیں موجوود ہیں توجہ شرط ہے!! |