کیا ہمارے معاشرے کا ضمیر مر چکا ہے؟

آج پاکستانی معاشرہ اخلاقی،معاشرتی پستی کی دلدل میں تیزی سے دھنستاجارہاہے۔ایسامحسوس ہوتاہے کہ جیسے ہم نے انسانیت کالبادہ اُتارپھینکاہے اورحیوانیت کی رِدا اوڑھ لی ہے۔ہمارے اندر نہ کوئی شرم بچی ہے اورنہ ہی کسی قسم کی غیرت وحمیت۔ہمارا احساسِ ندامت توجانے کب کادَم توڑچکاہے اورہماراضمیرتوجانے کب کامرچکاہے اورایسامحسوس ہوتاہے کہ ہم نے ان کی تجہیز وتکفین بھی کر دی ہے۔اگرآپ کے خیال میں ایسانہیں ہے اورہمارے اندراحترامِ انسانیت کی ذرا سی بھی رمق باقی ہے توپھرہمیں اپنے اپنے گریبانوں میں منھ ڈال کرسوچناپڑے گاکہ آخرہمارے معاشرے میں اس وقت کیاہورہاہے۔صبح کوکوئی بھی اخباراٹھالیجئے یادن کے کسی وقت بھی نیوزچینل آن کیجئے توقتل وغارت،نشانہ وارقتل میں روزآنہ دس سے پندرہ افراد کاقتل،قبروں سے مردوں کو نکال کران کی بے حرمتی کی کہانی،بیوی نے شوہر کومارکر اس کاقورمہ تیارکرلیا،وغیرہ وغیرہ جیسی خبریں ہمارا منھ چڑاتی ہوئی مل جائیں گی۔کراچی سے لے کر کشمور تک اورکشمیر سے لے کر گلگت بلتستان تک کوئی بھی جگہ ایسی نہیں بچی ہے جس کے بارے میں ہم یہ دعویٰ کر سکیں کہ وہ اس قسم کی انسانیت سوز حرکتوں سے پاک ہے۔اورانتہائی شرمناک بات یہ ہے کہ معاشرے کے ان درندوں نے جنہیں جنگلوں میں بھی رہنے کا کوئی حق نہیں ہے،اس قسم کی حقیقی کہانیوں کے کردارہیں ۔یہ افراداس اسلامی ملک کے چہرے پربدنماداغ بنے ہوئے ہیں۔اتنے پرہی انہیں چین نہیں بلکہ وہ اپنی ناپاک خواہشوں کی تکمیل کے لئے اورطرح طرح کے گناہ ِ عظیم کے مرتکب بھی ہوتے ہیں۔اسلامی معاشرے میں جب بھی کوئی برائی اپنی تمام حدوں کوپارکرجاتی ہے اورحکومتیں اس برائی پرقابوپانے میں ناکام رہتی ہیں یاحکومتوں کے ذمہ داران اس بارے میں اپنی بے حسی کامسلسل مظاہرہ کرنے لگتے ہیں توعدالتوں کوسامنے آناپڑتاہے اورانہیں حکومتوں کافریضہ ازخود نوٹس کے ذریعے اداکرناپڑتاہے۔عدالتی ڈنڈا جب تک نہیں اٹھتاہمارے ملک کے اربابِ اختیارواقتدارکے کانوں پرجوں تک نہیں رینگتی۔اس وقت تک وہ یاتواپنافرائضِ منصبی بھول چکے ہوتے ہیں یابرائیوں پرقابوپانے کی ان کی تمام ترصلاحیتیں کُند پڑچکی ہوتی ہیں۔

بے ضمیری کے کن کن واقعات وسانحات کاذکرکیاجائے ۔دہشت گردی،اغواء کاری،نشانہ وارقتل،بم دھماکے،بھتہ خوری،کرپشن ، بیروزگاری یہ تمام ناسورسانحات کے زمرے میں آتے ہیں اوربجائے یہ سانحات کم بلکہ ختم ہونے کے حکومتوں کے سرد مہری کی وجہ سے اورطویل ہوتے جا رہے ہیں اوریہ افراداسی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی ہوس اوربڑھارہے ہیں اوراپنی ناآسودہ خواہشوں کی تکمیل کے لئے تمام حدوں سے گزر رہے ہیں۔کوئی ایسادن نہیں گزرتاجب ملک کے کسی نہ کسی کونے سے کوئی دل ہلا دینے والی خبریں اخبارات اورنیوزچینلز کی زینت نہ بنتی ہوں۔یہاں انسان کی جان کی قیمت صرف ایک گولی ہے اورغالباً یہ ایک گولی پندرہ سے بیس روپئے میں دستیاب ہوتی ہے یعنی کہ ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ یہاں ایک قیمتی انسانی جان کی قیمت صرف اورصرف پندرہ سے بیس روپئے تک محدودہے۔کیساالمیہ ہے کہ اشرف المخلوقات کی جانوں کی قیمت اس قدر ارزاں ہے۔جس میں گنہگاروں کے ساتھ ساتھ بے گناہ افرادبھی کچلے جارہے ہیں۔گزشتہ اور حالیہ واقعات میں سپریم کورٹ نے انتہائی سخت رُخ ’’از خود نوٹس‘‘ کے ذریعے اٹھایاہے اوران انسانیت سوز واقعات کوجانوروں کی حرکتوں سے تشبیہ دی ہے لیکن یہاں ایسانظام رائج ہے کہ ان کی بھی سنی نہیں جاتی۔ فیصلہ آنے سے پہلے ہی ایسے ایسے شواہد و ثبوتوں کے کھیل کھیلے جاتے ہیں کہ بس اﷲ کی پناہ!شعرائے کرام سے معذرت کے ساتھ :
ذرا ظلّ الٰہی اپنی آنکھیں کھولیئے ورنہ
حویلی لڑکھڑاتی ہے دَر و دیوار جاتے ہیں

آج کی اس ظالم دنیامیں انسان حرص وہوس کی چمک دمک میں منہمک نظرآرہاہے ،لوگ اسی میں ایک دوسرے کوماررہے ہیں،جس کسی کودیکھو وہ مال ودولت کے حصول میں صرف تگ و دو کررہاہے،افسوس کی بات تویہ ہے کہ حلال وحرام کی تمیز نہیں کی جا رہی ہے اورسود کی لعنت سے بھی گریزنہیں کیاجارہاہے۔بس ہرطرف ہل من مزیدکی پکارہے۔اخلاقی قدریں پامال کی جا رہی ہیں،لوگ ایک دوسرے کی عزت وناموس کواپنے پیروں تلے کچل رہے ہیں،ادب واحترام دلوں سے ناپید ہوتاجارہاہے،لوگ شرکے پیچھے بے تحاشہ دوڑے چلے جارہے ہیں،حدتویہ ہے کہ شرکو شراوربرائی کوبرائی سمجھاہی نہیں جارہاہے ،بھلائی اورخیر کی باتوں کودقیانوسی کہاجارہاہے، انسان دوسرے انسان کواپنے افعال وحرکات سے تکلیف دیتارہتاہے،کوئی کسی کوگالی دے رہاہے توکوئی کسی کو اپنی طاقت کے بل بوتے پرزود و کوب کررہاہے،انسانیت دردکی وجہ سے کراہ رہی ہے،ایسے نازک حالات میں ہرانسان کوصبر وشکیبائی سے دعا واستغفارسے،نیک کاموں سے مدد لینی چاہیئے اورعزم وحوصلہ سے مصائب ومشکلات کوختم کرنے کی سعی کرنی چاہیئے۔ایساصرف عوام پرہی لاگو نہیں ہوتابلکہ حکمرانوں پربھی اسی طرح کی کیفیت طاری ہونی چاہیئے تاکہ اس ملک کے عوام بھی سکھ و شانتی کے ساتھ زندگی گزارسکیں۔اپنی اورعوام کی زندگی کوایک امانت سمجھنا چاہیئے اوراس کے ہرلمحے کوبیش قیمت سمجھنا چاہیئے،اگرہم ایساکریں گے توچہارجانب انسانیت پِنپ رہی ہوگی، زندگی خوشیوں سے بھری ہوئی ہوگی۔

ہم دنیاوی ترقی میں میں کتنے آگے کیوں نہ نکل جائیں،ہم اسلحہ سازی میں پوری دنیاکوکیوں نہ پچھاڑ دیں اورہم سائنسی ایجادات میں عالمی قائدہی کیوں نہ بن جائیں،جب تک ہم آدمی نہیں بنتے یہ تمام ترقیاں بے معنی ہیں،بے سودہیں اوربے وقعت بھی۔ ہم سے اچھی تووہ غیر ترقی یافتہ اقوام ہیں جو انسانیت اورآدمیت کا احترام کرناجانتی ہیں اورجواپنی ہوس کی خاطراخلاقیات کاجنازہ نہیں نکالتیں۔اگرہمارا ضمیرمردہ نہیں ہواہے توہمیں سوچناہوگاکہ ہم کہاں اورکدھرجارہے ہیں۔کیاہم آنے والی اپنی نئی نسلوں کوایک مہذب معاشرہ دینے کے اہل ہیں۔اگر نہیں ہیں توہمیں ترقیاتِ زمانہ سے دشتِ کش ہوکرانسانیت اورآدمیت کاسبق پڑھنے کے لئے کسی درسگاہ میں بیٹھناچاہیئے تاکہ ہم اپنی نسلوں کوبہترمستقبل اوربہترزندگی دے سکیں۔

آپ سب کویہ مضمون پڑھ کرایسامحسوس ہوگاجیسے یہ ایک کہانی تحریرکی صورت اختیار کرگئی ہے مگرخدارا اپنے دل پرہاتھ رکھ کر کہیئے کہ کیاہمارے معاشرے میں آج ایساہی نہیں ہورہاہے۔جن میں بے پناہ در د اورپے پایاں سوزِ دروں کاگزرہے۔ہمارے ملک کو آزاد ہوئے ۶ دہائی گزر گئی لیکن انگریزوں کے مداح اپنی تشنگی ابھی تک بجھا نہیں پائے۔ان انگریزوں کے کہنے پراپنے ہی ملک میں افرا تفری اوردہشت کاراج گرم کئے ہوئے ہیں۔فرقہ وارانہ فسادات کراکے عوام کو زک پہنچانابھی ان کی فطرت میں شامل کردیاگیاہے۔ اورایسا محسوس ہوتا ہے کہ سب کے منہ پرٹیپ چپکادیاگیاہے۔کیایہی جمہوریت ہے؟کیاجمہوریت ریت کاپہاڑہے جوہوا کے ایک جھونکے سے تتر بترہواچاہتاہے۔خداراعملی اقدامات کے ذریعے عوام اپنے اتحادکو اورحکمران ان بے کس عوام کی دادرسی کی سوچیں۔سی میں سب کی بھلائی مضمر ہے۔
Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 338926 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.