سرحدی علاقہ بجوات کے عوام کے مسائل اور مصائب

دریائے توی مناواں و توی اور چناب کے درمیان 85دیہات پر مشتمل سرحدی علاقہ بجوات کے عوام کے مسائل اور مصائب

جس طرح بعض انسانوں کی قسمت میں سکھ اور سکون نہیں ہوتا اس طرح بعض علاقوں کے مکینو ں کے مقدر میں سکھ اور چین نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ۔ماضی میں سرحدی علاقوں کے بارے میں عوامی نمائندوں کا دعوی تھاکہ پاک بھارت ورکنگ باؤنڈی لائن پر واقع دیہات میں اچانک کوئی بھی واقعہ رونما ہو سکتا ہے اس لئے وزارت دفاع ایسے علاقوں میں سکیورٹی کی بنا پر تعمیر و ترقی کے عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے لیکن سابق صدرجنرل ضیاء الحق مرحوم نے اس رکاوٹ کو بھی اپنے دور حکومت میں دورہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ترقی و خوشحالی عوام کا حق ہے جو بلا امتیاز جاری رہنا چاہیے ۔ تعمیر و ترقی کا عمل سرحدی عوام کا بھی حق ہے لیکن آج بھی بعض سرحدی علاقوں میں 9بجے کے بعد نقل حرکت ممنوع ہے اور 9بجے کے بعد رینجر حکام کا احتیار ہے کہ وہ ان علاقوں کے لوگوں کو آمددرفت کی اجازت دیں ان علاقو ں میں موبائیل فونز کو جام کرنے کے سسٹم ہیں اور پی ٹی سی ایل کی عمومی اجازت نہیں بغیر اجازت اپنے گھر میں لگائے گئے درخت کو کاٹا نہیں جاسکتا ۔شما ل میں واقع بجوات ضلع سیالکوٹ کا سب سے بڑا زرخیر علاقہ تین اطراف سے بھارتی سرحدمیں گھیرا ہوا ہے اور یہاں کے دیہات کے مکینوں کو زمانہ جنگ ، سیلابی صورتحال میں ہمیشہ مسائل اور مصائب کا سامنا ماضی میں بھی رہ ہے اور آج بھی ہے ۔حالیہ بارشوں کے نتائج میں بجوات کے کئی دیہات میں تباہی ہوئی ہزاروں ایکڑپر کھڑی فصلیں سیلاب کے ریلے کے نذد ہوئی جانور بہہ گئے مکانات گرگئے انتظامیہ اور افواج پاکستان کے جوانوں نے سیلاب میں گھیرے ہوئے مصبیت زدگان کی امداد کی سماجی تنظیموں اور رفاہی اداروں نے ان مصبیت کے ماروں کوخوراک ادویات اور مطلوبہ سامان ہائے دیا لیکن کیا ایہ امداد ان متاثرین کی آبادکاری کیلئے کافی ہوگئی یقینا اس کا جواب نفی میں ہوگا کیا حکومتی ادارے ان کی مکمل آبادی کا ری کر سکیں گئے ؟ 1973ء میں پاکستان بھارت جنگ کے بعد یہاں پر سابق وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو نے جنگی تباہ کاریوں کے بعد دریائے توی ، چناب پر پل بنانے کے مطالبہ کی منظوری دی اس زمانہ سید پور گوندل بند بنایا گیا جس کی وجہ سے بہت بڑے اور وسیع علاقہ کو ہر سال سیلاب کی تباہ کاریوں سے محفوظ کردیا گیا ۔ اس دور میں پل تو نہ بن سکا لیکن بند نے لاکھوں ایکڑاراضی کو دریا برد ہونے سے بجا لیا۔ مئی 2009میں سابق سپیکر قومی اسمبلی چوہددی امیر حسین کے فنڈز سے 160ملین کی لاکت سے پل بنایا گیا ۔ جس کی وجہ سے آمددرفت میں آسانیاں پیدا ہوئی لیکن مصائب اب بھی اہل بجوات کے مقددہیں ہیں یہاں تو حکومت نے یہاں پر سول ہسپتال بنایا اورنہ ہی کوئی تدریسی ادارہ کے قیام کا اعلان کیاگیا لیکن عملی طور پر کچھ نظر نہیں آتا۔ یہاں صحت اورتعلیمی سہولتوں کا فقدان اس امر کی نشاندی کرتا ہے کہ ضلعی انتظامیہ اور عوامی نمائندروں کی کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔کیونکہ اہل بجوات کے مقدر میں مصائب اور مسائل کا ایک لا متناہی سلسلہ ہے ۔سابق وفاقی ڈاکٹر فرروس عاشق اعوان نے واقعی یہاں دلچسپی لی اور یہاں پر سوئی گیس کی فراہمی کرائی چند دیہات جو بجوات کے مین روڈ پر واقع ہیں میں اس کی فراہمی کی گئی انہوں نے یہاں پر زچہ بچہ سنٹر بھی بنوایا ۔آج بھی بجوات کا سیلابی صورتحا ل کے بعد زمینی رابطہ منقطع ہوجاتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ جب ہنگامی آفات آئے تو اس وقت انتظامیہ اور عوامی نمائندے حرکت میں آئیں یہ کیوں نہ ہو کہ ان مسائل کو حل کرنے کیلئے ٹھوس بنیاروں پر کام کرکے عوام کو مستقبل ریلیف دیاجائے لیکن یہ کیسے ممکن ہے کیونکہ عمل کی اشد ضرورت ہے ۔ اب بھی پل کا بڑا کام باقی ہے جسکو فنڈ زکی عدم دستیابی کی بنا پر مکمل نہیں کیا جا سکاجسکو مکمل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔بجوات روڈساندل چک تک پختہ ہے بقایا ماندہ روڈ کچا ہے ۔یہاں کے بڑے دیہات پھوکلیان ، کچی ماند ، ساندل چک ، بھلے چک ، چنور، چک ناؤ ، چک بہر، ڈیڑہ ، چک سلمی ، جکو چک، کرپال پور، کنجو ل ، انوارآباد، بھولی سمبلی ، پیرگرنااور حکیم اسلم پوسٹ لے روڈسیالابی پانی نے تباہ کردئے ہیں اور متاثریں سیلاب امداد کے منتظر ہیں اور یہاں پر ضلعی انتظامیہ کی طرف سے بہت بڑی تعداد میں میڈیکل کیمپ لگا کر سیلاب کی وجہ سے پھیل جانے والی وبائی امراض میں مبتلا لوگوں کو علاج کی اشد ضرورت ہے یہاں پر 1122کے ورکرز کا شاندار کردار رہا ہے ۔ انہوں نے افواج کے نوجوانوں کے ساتھ مصیبت میں گھیرے ہوئے متاثریں کو ریلیف دیکر مخلوق خدا کی دعا ئیں لیں ۔علاقہ بجوات کے مکینوں کی ہزاروں ایکڑکھڑی فصلیں تباہ اور مال مویشی پانی میں بہہ گئے ہیں اب حکومت پنجاب کو علاقہ بجوات کی ہنگامی طور پر ان مکینوں کی امداد فوری کی جائے ۔ اس سلسلہ میں نقضانات کا تحمیہ لگانے کیلئے کمیٹی بنائی جائے تاکہ ان لوگوں کے دکھوں کا کسی حد تک امداد ہوسکے ۔
Ch Tayyab
About the Author: Ch Tayyab Read More Articles by Ch Tayyab: 18 Articles with 21720 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.