آپ جتنا بھی انہیں ماریں ،جیت انہی کی ہوگی

وہ بچے جو پیدائش کے وقت کان میں اذان واقامت سے قبل گولیوں کی تھر تھراہٹ اور توپوں کی گن گرج سنتے ہوں، ایک ایسی قوم جو مرنا چاہتی ہو ،جو یہ کہتی ہو ’’کسے کہ کُشتہ نہ شد ازقبیلۂ مانیست ‘‘، کہ جو قتل نہ کیاجائے وہ ہم میں سے نہیں ، جو مرنا جانتی ہو ،جو’’جسے مرنا نہیں آتا اسے جینا نہیں آتا‘‘ ، کی عملی تصویر ہو ،اور عملی طور پربھی اس کو ہمیشہ کے لئے تاریخ میں ثابت کرکے دکھا یا ہو، سکندر اعظم کے مقابلے میں،روم ،ایران اور چین کے ساتھ پنجہ آزمائی میں، برٹش امپائر کے یلغاروں کو روکنے میں، رنجیت سنگھ کے سکھ سور ماؤں کو ناکوں چننے چبوا نے میں ،سویت یونین کے سیلاب کوتھامنے میں ، امریکن کولیشن کا سامنا کرنے میں جن لوگوں نے موت کوگلے لگاکر ،پِٹ کر ،بے سروساماں ہوکر ،بے گور وکفن رہ کر ، اپنا مال ومتاع اور ملک ووطن لُٹاکر کامیابی حاصل کی ہو ، دنیانے جن کی جیت اورمقابل کے ہارنے کی ہمیشہ دیر سے ہی سہی مگر قصیدہ خوانی کی ہو ، ان سے جو بھی ٹکرایاہو،وہ پاش پاش ہواہو ، جنہوں نے انگریزوں کی عمل داری آپ کے متحدہ ہندوستان میں کبھی قبول نہ کی ہو، مجبور ہوکر سرکار انگلشیہ نے پورے ہندوستان سے الگ تھلگ ایک قانون فرنٹیر کرائمز ریگولیشن (FCR)کاسہاراجن کیلئے لیاہو، پھر ان لوگوں نے پاکستان بننے کے بعد اپنے آپ کو اس کا حصہ سمجھاہواور 66سال تک اس ملک کی مغربی سرحدوں کی بلا معاوضہ حفاظت کی ہو، آزاد کشمیر کا آزاد حصہ ان ہی کا مرہونِ منت ہو ، آج بھی وہاں کے سرحدوں پر ان کی اولادیں نگہباں ہوں ،اپنے اڑوس پڑوس کی نسبۃًکمزور اقوام ،چترالی ، کوہستانی ،گلگتی ،چلاسی ، کشمیری ، ہندکو، سرائیکی ،پنجابی ،بلوچ ،سندھی ،نورستانی ،دری ،طاجک ،ازبک ، گجر، اور کوچی اقوام پرایک خون خوار قوم کے بجائے ہروقت مہربان او ر ان کی محافظ رہی ہو، جن کو آپ ڈرون سے امن نہیں دلاسکے ، تعلیم نہیں دلاسکے ، علاج ومعالجے کی سہولیات بہم نہیں پہنچا سکے، مواصلات او ر سڑکیں نہ دے سکے ، جہاں کا ایک بوڑھا شخص اقوام متحدہ کے نمائندے ’’ٹام کوئننگز‘‘( 2005 تا 2007) کوبتارہاہو،’’ہم لکھ پڑھ نہیں سکتے ،اور ہماراپوتابھی لکھ پڑھ نہیں سکتا، اب ہم لکھنا چاہتے ہیں ، لیکن کیاکریں ہمارے یہاں سکول ہی نہیں ‘‘۔

یہ لوگ خامخواہ کے خون خوار نہیں ہیں ، ٹام کے ایک بنگالی مسلمان ڈرائیور کے ہاتھوں کارحادثے میں اس بزرگ کے بیٹے کو موت واقع ہوجاتی ہے ، ٹام بذات خود ڈرائیور کولے کر جاتاہے، کہ اسے معاف کردیں یہ بھی مسلمان ہیں ، ان سے غلطی ہوئی ، قصداً آپ کا بیٹا نہیں ماراگیاا ، یہ لوگ عزت دارہیں ،جب شرافت اور عزت سے ان سے بات کی گئی تو اس نے بنگالی مسلمان ڈرائیورکومعاف کردیا۔

ان کا علاقہ قیام پاکستان سے قبل جغرافیائی طورپر مخدوش تھا ،وہ افغان وہند کے درمیان آزاد علاقہ ہے ،ڈیورنڈ لائن نے اسے اور بھی مبہم کردیاہے ،گویا قانونی لحاظ سے بھی وہاں تاریکی ہے ، ایسے علاقے میں حکومتی عملداری (Governments writ ) کی ضد ان قوتوں کی بھڑ اس نکالنے کے مترادف ہوگا ،جوتاریخ میں یہاں شرمناک شکستیں کھاچکی ہیں ،عجب خان آفریدی نے اپریل 1923میں جس کوہاٹ چھاؤنی سے انتقاما ً انگریز کمانڈر کی بیٹی’’ ایلس‘‘ کو رات کے اندھیرے میں کندھے پررکھ کروادی تیر اہ تک پہنچایاتھا،اور لاکھ کوششوں کے بعد مصالحت کے بغیر وہ گھر نہ آسکی تھی ،یہ اور اس طرح کے بیشمار واقعات کیا ہم بھول جائیں ، فقیر ایپی اور بایزید انصاری کے مغربی قوتوں کے مقابلے میں مجاھدانہ کارنامے بھی بھول جائیں ، ریاست اندرریاست اگر اتنا ہی بڑاجرم ہے ،تو اٹلی کے دارالحکومت روم میں آزاد ویٹیکن حکومت اور ویٹیکن کے اندر آزاد’’ ہوسپیٹلیرز ‘‘ریاست ،یمن میں زنجبار اور رشین فیڈریشن میں اندرونی پانچ اسلامی خودمختار ریاستیں کیاہیں ، بھارت میں ناگا قبائل کی آزاد حیثیت کیا ہے ، کینڈا اور امریکہ میں آزادایمش (Amish)قبائل کیاہیں ، جہاں ان دونوں ملکوں کی رِٹ ہوتی ہے نہ ہی ان کا لاء اینڈ آرڈر ،امریکہ میں ایک اور گروہ بھی ریاست اندر ریاست کا درجہ رکھتاہے ، جنہیں انڈین کہتے ہیں ، اس میں کئی قبائل ہیں، جن میں چروکی (Cherokee)،ناواجو (Navajo)،چاکٹا (Chakta)، شوشون (Shoshones) ،کریک(Creek) ، ارقوئیس (Irqouois) ، پائیوٹس(Paiuts) ،زونی (Zuni) ،ہوپی (Hopi) وغیرہ قابلِ ذکر ہیں ،ان قبائل کی آبادیوں میں بھی ان کے فیصلے ان کے اپنے قوانین کے مطابق ہوتے ہیں ، امریکہ وکینڈا نے ان کی یہ حیثیت کیا تسلیم نہیں کی ہے ، یہ تومشتے ازخروارے ہے ،ورنہ دنیا میں ہرجگہ ریاست اندر ریاست کا تصور ہے ، کیا ضلعی حکومتیں اور صوبے کچھ اس طرح کے اپنے علاقائی قوانین نہیں پاس کرتے ،ڈی ایچ اے کینٹومنٹ ایر یاز کیاہیں ، کیا ان ایریاز میں عام شہری کو وہ حقوق حاصل ہیں، جو فورسز سے منسلکۂ حضرات کے لئے ہوتے ہیں ،یہ سب چھوڑ یئے کیا سکندر ملک جیسے لوگوں کی موجودگی میں آپ کے مرکز اور کیپیٹل میں آپ کی رٹ قائم ہے، پورے ملک میں دن دھاڑے ڈاکے پڑتے ہیں ،گاڑیاں ، موبائل ، نقدی اور زیورات چھینے جاتے ہیں ، وزیراعظموں اور گورنر وں تک کوقتل اوران کی اولادیں اغوا کی جاتی ہیں ،لڑکیوں کو زندہ دفن کیاجاتاہے ،پورے ملک پر لینڈ مافیاز کا راج ہے ، کیا یہ سب ریاست اندر ریاست کی درجنوں مثالیں نہیں ہیں ، یہاں کسی کو حکومتی رٹ کیوں یاد نہیں آتی ؟ حکومتی عملداری کویہاں نافذ کیوں نہیں کیاجاتا؟

آزاد قبائل میں پھیلا ہوئے آپ کی سرحدوں کے نگہباں القاعدہ ،طالبان اور مجاھدین کسی زمانے میں ہماری ضرورت تھی، 2014کے بعد پھر بھی ہمیں ان کی حاجت پڑسکتی ہے ، یہ سالہاسال کی کاشت ہے ، مصر ،شام ، صومالیہ، الجزائر ، خلیجی ممالک ، سینڑل ایشیا، ایران اورمشرق ِبعید تک میں ان کا پھیلاہوا مضبوط نیٹ ورک ہے ، یہ چاہتے ہی جنگ ہیں ،یہ مرنا چاہتے ہیں ،ان کومرنا بھی آتاہے ،یہ ایک فلیش پوائنٹ نہیں ہیں کہ صاف کرنے سے ان کا صفایا ہوجائیگا،جن ملکوں ،سربراہوں اور فوجوں نے ان کو صاف کرنے کی کوششیں کیں ، وہ اب ان سے جان چھڑاتے ہیں ،لیکن ان کی جان نہیں چھوٹتی،آپ ان کوجتنابھی ماریں، جیت انہی کی ہوتی ہے،پھر فائدہ کیا؟ خدار اانہیں مزید نہ چھیڑیں ،ملک مختلف حوالوں سے بحرانوں کا پہلے ہی شکار ہے ،مزید انتشار کے خدشات ہیں ، مذاکرات ومفاہمت کی کوئی سبیل نکالیں ، انا او رضد کا مسئلہ نہ بنایاجائے، مغربی انٹیلی جنس اداروں کے اشاروں پر رقص کرنے والے دانشوروں اور میڈیا پرسنز کے اشاروں پر چلنے کے بجائے حفظ ِماتقدم کے طورپر معروضی ،جغرافیائی اور تاریخی حقائق کا ادراک کیاجائے ۔
شائدکہ اترجائے’’کسی‘‘دل میں میری بات۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 815279 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More